کالم

ترکیہ اور قطر کی مخلصانہ ثالثی

دوفریقین کے درمیان صلح، امن اور جنگ بندی کے لیے ثالثی دراصل امن پسندی اور ذمہ دارانہ خارجہ پالیسی کی سب سے بڑی دلیل ہے۔پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان ترکیہ اور قطر کی میزبانی میں ہونے والی بات چیت اس بات کا مظہر ہے کہ دونوں ممالک تنازع کے بجائے مکالمے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ یہ رجحان نہ صرف دونوں ریاستوں کے لیے بلکہ پورے خطے کے استحکام کے لیے نیک شگون ہے۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی نے برسوں سے سرحدی علاقوں کو عدم استحکام کا شکار کیے رکھا۔ دہشت گردی، غیر قانونی نقل و حرکت اور معاشی نقصان دونوں ممالک کے مشترکہ مسائل رہے ہیں۔ ایسے میں ترکیہ اور قطر کی ثالثی ایک مثبت اور متوازن اقدام ہے، جس نے بات چیت کے دروازے کھولے اور کشیدگی میں کمی کا امکان پیدا کیا۔پاکستان کو اس بات کا ادراک ہے کہ پائیدار امن کا راستہ طاقت کے استعمال سے نہیں بلکہ باہمی اعتماد اور مذاکرات سے گزرتا ہے۔ اسی طرح افغان قیادت کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ دشمنی اور جارحانہ رویہ نہ صرف پاکستان بلکہ خود افغانستان کے داخلی امن کے لیے نقصان دہ ہے۔ترکیہ اور قطر کا کردار قابلِ تعریف ہے جنہوں نے دونوں مسلم برادر ممالک کو ایک میز پر بٹھانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ان کی کوششیں امتِ مسلمہ کے اندرونی تنازعات کے حل کے لیے ایک مثال بن سکتی ہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ مذاکرات محض وقتی مصالح پر ختم نہ ہوں بلکہ ایک مستقل فریم ورک کی صورت میں آگے بڑھیں، تاکہ خطے میں دیرپا امن، باہمی احترام اور تعاون کی فضا قائم ہوسکے۔ افغانستان دہشتگردوں کے خلاف ٹھوس اقدامات اورہندوستان کے ساتھ تعلقات میںتوازن قائم کرنے میںکامیاب ہوتاہے استنبول میں ہونے والے حالیہ پاک،افغان مذاکرات خطے کے لیے امید بن سکتے۔ابتدائی طورپریہ کہا جا سکتاہے کہ چھ روز تک جاری رہنے والے ان مذاکرات نے خطے میں پائیدار امن کی جانب ایک دروازہ کھول دیا ہے۔ یہ بات قابلِ اطمینان ہے کہ دونوں ممالک کے وفود نے سخت نوعیت کے اختلافات کے باوجود بات چیت کا سلسلہ منقطع نہیں ہونے دیا،تدبر، صبر اور سیاسی بصیرت سے کام لیتے ہوئے ایک عبوری مفاہمت تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔پاکستان کے وفد نے ان مذاکرات میں ایک بنیادی اصول کو واضح رکھا کہ افغان سرزمین کسی صورت پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہیے۔ساتھ ہی بھارت کے زیرِ اثر سرگرم تنظیموں جیسے فتنہ الخوارج (ٹی ٹی پی) اور فتنہ الہندوستان (بی ایل اے) کے خلاف ٹھوس اور قابلِ تصدیق کارروائی ناگزیر ہے۔پاکستان کا یہ موقف محض دفاعی نہیں بلکہ خطے میں امن کے لیے ایک جامع حکمتِ عملی کی علامت ہے۔بات چیت کے دوران بعض لمحات ایسے بھی آئے جب مذاکرات تعطل کا شکار دکھائی دئیے۔ ایک روزقبل تک صورتِ حال یہ تھی کہ پاکستانی وفد واپسی کی تیاری کر چکا تھا۔ ترکیہ اور قطر کی مخلصانہ ثالثی اور افغان وفد کی جانب سے مزید گفت و شنید کی درخواست کے بعد پاکستان نے ایک بار پھر امن کی خاطر لچک کا مظاہرہ کیا۔ یہی فیصلہ پاکستان کے اعلیٰ سفارتی شعور اور قومی مفاد کے تقاضوں کی عکاسی کرتا ہے ۔ الحمدللہ،آخرکار فریقین ایک عبوری رضا مندی پر متفق ہو گئے۔ اس رضامندی کے تحت دوحہ میں طے شدہ فائربندی کو برقرار رکھنے اور اسے مستقل شکل دینے پر اتفاق کیا گیا۔ تاہم پاکستان نے یہ شرط واضح طور پر شامل کی کہ افغانستان کی سرزمین سے کسی بھی نوعیت کی دہشت گردی پاکستان کے خلاف برداشت نہیں کی جائے گی۔ اس معاہدے کے مطابق افغان حکام دہشت گرد گروہوں کے خلاف واضح اور عملی اقدامات کرنے کے پابند ہوں گے۔اس کے علاوہ ایک مشترکہ نگرانی و تصدیقی نظام قائم کرنے پر بھی اتفاق ہوا، جو کسی بھی خلاف ورزی کی صورت میں حقائق کی جانچ کرے گا اور ذمہ دار فریق کے خلاف کارروائی کی سفارش کرے گا۔ اگلی نشست 6 نومبر کو استنبول ہی میں منعقد ہو گی جس میں اس فریم ورک کی عملی تفصیلات طے کی جائیں گی۔ترکیہ اور قطر نے بطور ثالث دونوں فریقوں کے کردار کو سراہا اور اپنے تعاون کے تسلسل کی یقین دہانی کرائی۔ یہ پہلو نہایت اہم ہے کیونکہ اس عمل نے پاکستان کے موقف کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کیا اور اسے ایک بڑی سفارتی کامیابی میں تبدیل کر دیا۔پاکستان کے وفد نے ان مذاکرات میں جس تدبر، صبر اور منطقی استدلال کا مظاہرہ کیا وہ نہ صرف قومی موقف کی مضبوطی کی دلیل ہے بلکہ عالمی برادری کو بھی ایک پیغام ہے کہ پاکستان امن کے لیے مخلص ہے پر اپنی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔دوسری جانب افغان طالبان کے لیے بھی یہ معاہدہ حقیقت پسندی کی سمت ایک اہم قدم ہے۔ معاشی بحران، عالمی دباؤ اور اندرونی بے چینی کے ماحول میں ان کے لیے پاکستان جیسے برادر ملک سے بہتر تعلقات قائم کرنا انتہائی مفیدثابت ہوگا۔پاکستان وہ ملک ہے جس نے گزشتہ چار دہائیوں میں افغان عوام کے لیے قربانیاں دیں، انہیں پناہ اور مدد فراہم کی، دونوں ممالک امن و تعاون کے راستے پر گامزن ہوتے ہیں تو یہ نہ صرف دہشت گردی کے خاتمے بلکہ خطے کی ترقی اور خوشحالی کی بنیاد بن سکتا ہے۔اس مفاہمت کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ دہشت گردی کا مسئلہ صرف عسکری نہیں بلکہ سیاسی اور سفارتی حکمت عملی کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے، افغان حکومت اپنے وعدوں پر سنجیدگی سے عمل کرتی ہے اور اپنی سرزمین کو تخریب کاروں سے پاک رکھتی ہے تو دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون، تجارتی روابط اور عوامی تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہو سکتا ہے۔ ماضی میں پاک۔افغان تجارت پانچ ارب ڈالر سالانہ سے تجاوز کر چکی تھی، جو اب دوبارہ اسی سطح پر بحال ہو سکتی ہے۔ ساتھ ہی وسطی ایشیائی ممالک تک زمینی راستے، توانائی کے منصوبوں اور علاقائی تجارت کے امکانات پھر سے روشن ہو جائیں گے ۔ پاکستان نے اس عمل کے ذریعے یہ ثابت کر دیا کہ سفارت کاری، استقامت اور تدبر کے امتزاج سے وہ ہر بین الاقوامی چیلنج کا سامنا کر سکتا ہے۔اگرچہ یہ معاہدہ ابھی ابتدائی نوعیت کا ہے پر اسے امن کے سفر کا آغاز کہا جا سکتا ہے۔یہ پیشرفت ثابت کرتی ہے کہ پاکستان جنگ نہیں بلکہ استحکام چاہتا ہے۔افغان قیادت کو اب فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ماضی کی تلخیوں کو چھوڑ کر امن و خوشحالی کے راستے پر قدم رکھتی ہے یا انتشار کی راہ پر چلتی رہتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے