ترکی میں صحافتی آزادی پر ایک بار پھر سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں جب عالمی نشریاتی ادارے بی بی سی کے سینئر نامہ نگار مارک لووین کو استنبول سے گرفتار کرنے کے بعد ملک بدر کر دیا گیا ہے یہ واقعہ ایک ایسے وقت پیش آیا جب ملک کے معروف اپوزیشن لیڈر اکرم امام اوغلو کی گرفتاری کے خلاف عوامی احتجاج ایک ہفتے سے زور پکڑ چکا ہے۔ مارک لووین کئی دنوں سے استنبول میں موجود تھے تاکہ ان مظاہروں کی رپورٹنگ کر سکیں جو مئیر آف استنبول امام اوغلو کی متنازعہ گرفتاری کے بعد شروع ہوئے۔ امام اوغلو جو ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں اور ترک صدر رجب طیب اردگان کے سب سے بڑے سیاسی حریف تصور کئے جاتے ہیں اور انہیں 2028 کے صدارتی انتخاب کے لیے ایک مضبوط امیدوار کے طور بھی نامزد کیا جا چکا ہے۔جبکہ بی بی سی کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے۔27مارچ کی صبح ترک حکام نے نامہ نگار مارک لووین کو ملک بدر کر دیا ہے جنہیں ایک روز قبل ان کے ہوٹل سے حراست میں لیا گیا تھا اور 17گھنٹے تک پہلے زیرِ حراست میں رکھا گیا۔بی بی سی کے مطابق ملک بدری کا سبب ایک تحریری نوٹس بتایا گیا جس میں کہا گیا کہ لووین ترکی کے عوامی نظم و نسق کےلئے بڑا خطرہ ہیں۔
مارک لووین نے اس اقدام کو اپنے لئے انتہائی تکلیف دہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے "ترکی میں پانچ سال گزارے ہیں اور انہیں اس ملک سے گہرا لگا ہے وہاں سے انہیں اس طرح نکال دیا جانا ایک افسوسناک امر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آزاد صحافت اور غیرجانبدار رپورٹنگ کسی بھی جمہوریت کی بنیاد ہوتی ہے۔
بی بی سی نیوز کی سی ای او، ڈیبورہ ٹرنس نے بھی واقعے کو "انتہائی پریشان کن” قرار دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی صحافی محض اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی پر اس طرح کے سلوک کا مستحق نہیں انہوں نے باور کروایا کہ ترکی کے حکام سے معاملہ اٹھایا جائے گا ۔ دوسری جانب ہیومن رائٹس واچ کی ترکی کی ڈائریکٹر ایما سنکلیئر ویب نے اس واقعے کو ایک آزاد صحافت کے لئے خطرناک پیغام قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ترک حکومت ایسے معاملات کی کوریج برداشت نہیں کرے گی جنہیں وہ دنیا سے چھپانا چاہتی ہے۔ صحافتی آزادی کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ترکی میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ 2016 میں بھی غیرملکی صحافیوں کو زد و کوب اور ان پر حملے کی رپورٹس سامنے آ چکی ہیں۔ وائس آف امریکہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے رپورٹرز کو ہراساں کیا جاتا رہا ہے صحافیوں کی تنظیموں نے بارہا خبردار کیا ہے کہ ترکی میں میڈیا پر حکومتی دبا خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔اسی ہفتے امام اوغلو کی گرفتاری کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں میں 1400سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے جن میں کئی ترک اور غیر ملکی صحافی بھی شامل ہیں۔ان میں فرانسیسی نیوز ایجنسی AFPکے ایک فوٹو گرافر کی گرفتاری بھی شامل ہے۔ترک صدر اردگان نے ان مظاہروں کو شرپسند عناصر کا عمل قرار دیا ہے اور اپوزیشن کو ملک میں بدامنی پھیلانے کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا ہے۔
مارک لووین کی ملک بدری نہ صرف صحافت پر حملہ ہے بلکہ ایک ایسے ملک کی تصویر بھی پیش کرتی ہے جو جمہوریت کا دعوی تو کرتا ہے، مگر اظہارِ رائے کی آزادی کو محدود کرنے میں پیش پیش دکھائی دیتا ہے ۔بطور صحافی، محقق اور انسانی حقوق کے حامی، ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ اگر عالمی سطح پر تسلیم شدہ اداروں کے نمائندے بھی محفوظ نہیں، تو عام صحافیوں اور شہریوں کی حالت کیا ہوگی؟
اور کیا عالمی برادری ایسے واقعات پر خاموشی اختیار کر کے مزید آزادیوں کو دفن ہونے دے گی۔ یاد رہے کہ کسی بھی ملک کی جمہوریت کے استحکام کےلئے ضروری ہے کہ صحافت آزاد ہو ایسے ملکوں میں جہاں شخصی آزادیوں کی اجازت نہ ہو کرپشن عام ہو الیکشن چوری کیے جاتے ہوں ایسے ملکوں میں آزادی اظہار رائے ایک خام خیالی ہی ہے چونکہ اگر صحافت آزاد ہو تو عوام کی نمائندگی موثر طریقے سے ہوسکتی ہے اور حکومتوں کو اسے مثبت لینا چاہیے نہ صحافت اور صحافیوں کا قلع قمع کیا جائے اور گھٹن کا ماحول پیدا کیا جائے پریس کی آزادی کے بین الاقوامی معاہدے کچھ اسطرح ہیں ۔
عالمی اعلامیہ برائے حقوقِ انسانی(UDHR) آرٹیکل 19 (1948)
بین الاقوامی عہد نامہ برائے شہری اور سیاسی حقوق (ICCPR) آرٹیکل 19
یورپی کنونشن برائے حقوقِ انسانی (ECHR) آرٹیکل 10
امریکی کنونشن برائے حقوقِ انسانی ،آرٹیکل 13
افریقی چارٹر برائے انسانی اور عوامی حقوق -آرٹیکل 9
یونیسکو اور پریس کی آزادی
صحافیوں کے لیے بین الاقوامی قانونی تحفظات
جنیوا کنونشن-
صحافیوں کی حفاظت کےلئے اقوامِ متحدہ کا عملی منصوبہ (2012)
اقوم متحدہ کے جینیوا کنونشن ایک پاورفل ڈیکریلشن ہے جو ممبر ممالک کو آزادی اظہار رائے کا احترام کرنے کا پابند بناتا ہے۔
کالم
ترکی میں صحافتی آزادیوں پر سوالیہ نشان
- by web desk
- مارچ 30, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 32 Views
- 3 دن ago
