کالم

تشدد سے متاثرہ افرادکا عالمی دن اور بھارت

جون کو دنیا بھر میں تشدد سے متاثرہ افراد اور فیملیز کی حمایت میں اقوام متحدہ کے زیر نگرانی عالمی دن منایا جاتا ہے،گزشتہ روز یہ دن منایا گیا۔اس دن کا منایا جانا کتنا متاثر کن رہا ہے یہ ایک الگ بحث ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے اس دن کو پورے زور شور سے منایا جانا26 ضروری ہے کونکہ اس سے مظلوم و مقہور طبقات کی آواز بلند اور سرد مہر ایوانوں سے پہنچائی جا سکتی ہے۔ یہ دن تشدد اور دیگر ظالمانہ، غیرانسانی یا ذلت آمیز سلوک یا سزا کے خلاف کنونشن کی منظوری کی سالگرہ کا دن ہے ۔اس دن تشدد کی مذمت کی جاتی ہے ،متاثرین اور ان کے خاندان سے حمایت ،ان کی ہمدردی کیلئے تقاریب منعقد کی جاتی ہیں جبکہ مظاہرے بھی کیے جاتے ہیں کیونکہ تشدد کو کسی بھی صورت میں جائز نہیں کہا جا سکتا ۔ اس کے باوجود پوری دنیا میں تشدد کا غیر انسانی،ظالمانہ عمل جاری ہے ۔اور اکثر مجرم بغیر کسی سزا کے چھوٹ جاتے ہیں۔اگر ہم ریاستی سطح پر اس معاملے کو پرکھیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا بھر میں اسرائیل کی طرح بھارت افواج بھی مقبوضہ کشمیر میں تشد د کی راہ پر گامزن ہے۔تشدد کے استعمال کیلئے ہندوستانی فوج کو اپنی حکومت کی جانب سے کھلا ہاتھ دیا گیا ہے جسے تحریک آزادی کو کچلنے کے حربے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔انسانی حقوق کی تنظیموں اور بین الاقوامی این جی اوز کے مطابق بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں تشدد کو ایک پالیسی کے طور پر استعمال کرتی ہے جس میں ہزاروں شہری انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ہندوستانی فوج تشدد کے مختلف طریقوں کو استعمال کرتی ہے جس میں جنسی تشدد جیسا کہ عصمت دری اور بدفعلی، واٹر بورڈنگ، جسم کے اعضا کو گرم اشیا سے جلانا، قید تنہائی، اور جنسی اعضا کو بجلی کا جھٹکا لگانا شامل ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق تشدد کا شکار ہونے والے 70 فیصد افراد عام شہری ہیں، اور11فیصد تشدد کے دوران یا اس کے نتیجے میں ہلاک ہو جاتے ہیں۔اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہو سکتی ہے کہ بھارتی مسلح افواج کو دیے گئے قانونی، سیاسی اور اخلاقی استثنیٰ کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے کسی بھی معاملے میں ایک بھی مقدمہ نہیں چلایا گیا۔یہ امر بھی تشویشناک ہے کہ بھارتی ریاست کے تمام ادارے چاہے وہ مقننہ ہوں، ایگزیکٹو ہوں، عدلیہ ہوں اور مسلح افواج، سب کے سب تشدد کی کاروائیوں میں شریک مجرم ہیں۔ 5اگست 2019 سے پہلے اور بعد میں گرفتار کیے گئے ہزاروں کشمیری تہاڑ جیسی بھارت کی بدنام زمانہ جیلوں میں بند ہیں۔بھارت نے کل جماعتی حریت کانفرنس کی اعلی قیادت، عالمی سطح پر تسلیم شدہ انسانی حقوق کے کارکنوں، پیشہ ور افراد اور صحافیوں سمیت تقریباً 10ہزارکشمیریوں کو غیر قانونی طور پر اغوا کر کے ان پرجعلی مقدمات درج کر رکھے ہیں ، یاسین ملک، مسرت عالم بھٹ، شبیر احمد شاہ، نعیم احمد خان، آسیہ اندرابی اور دیگر سمیت درجنوں اعلی درجے کے سیاسی رہنماو¿ں کو ان کے گھروں سے اٹھا کر بھارت کی جیلوں میں بھیج دیا گیا کشمیری رہنما محمد یاسین ملک کو بھارتی NIA کی طرف سے دائر کیے گئے ایک مشکوک اور سیاسی طور پر محرک مقدمے میں سزا سنانا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بھارت کی حکومت کشمیریوں کی جائز آوازوں کو خاموش کرنے کےلئے عدلیہ کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے یہ بات کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ محمد یاسین ملک اور دیگر کشمیری رہنماو¿ں کو صرف کشمیریوں کےلئے آواز اٹھانے پر سزا دی جا رہی ہے بھارتی ریاست تشدد کے معاملے میں امتیازی سلوک نہیں کرتی، خواتین اور نابالغوں کو بھی اس کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ مقبوضہ کشمیر کی پوری آبادی کو محاصرے اور تلاشی جیسی اجتماعی سزاو¿ں کا بھی نشانہ بنایا گیا ہے ۔ 2015میں ڈاکٹرز ودآو¿ٹ بارڈرز کی شائع کردہ ایک تحقیق کے مطابق کشمیری آبادی کا 19فیصد پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر کا شکار ہے۔ بھارت نے1997میںاس کنونشن پر دستخط کردیئے تھے لیکن اس نے آج تک اس معاہدے کی توثیق نہیں کی اور نہ ہی عمل پیرا ہے ۔ بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا گڑھ بن چکا ہے، متعدد بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے جموں کشمیر میں تشدد کے واقعات کو دستاویزی شکل دی ہے ۔ متاثرین کےساتھ غیر انسانی سلوک ، انسانیت سوز مظالم، مار پیٹ، بجلی کے جھٹکے، مرچ اور نمک پاشی کی ویڈیوز انٹرنیٹ کی زینت ہیں ۔عالمی برادری بارہا کشمیر میں تشدد کے خاتمے اور ذمہ داروں کے احتساب کا مطالبہ کرچکی ہے، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ جیسی تنظیموں نے انسانی حقوق کے بین الاقوامی معیارات پر عمل پیرا ہونے کی فوری ضرورت کو اجاگر کیا ہے، اقوام متحدہ کے مختلف اداروں نے بھی وقتا فوقتا بھارتی حکومت پر زور دیا ہے کہ جموں کشمیر میں تشدد کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں اور مجرموں کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے لیکن بھارتی حکمرانوں کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی۔ 1989سے اب تک ایک لاکھ سے زائد کشمیری مسلمان شہید کیے جاچکے ہیں، 7400ماورائے عدالت قتل اور بھارتی افواج کے پیلٹ گنز کے استعمال سے 300 سے زائد کشمیری بینائی سے محروم ہوچکے ہیں۔ ایک لاکھ سے زائد کشمیری بچے بھارتی فوج کے ہاتھوں یتیم ہوچکے ہیں، جموں کشمیر میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے آواز اٹھانے والوں کو یا تو صفحہ ہستی سے ہی مٹا دیا جاتا ہے یا انہیں جعلی مقدمات میں پھنسا کر جیل کے سلاخوں کے پیچھے دھکیل کر موت و حیات کے رحم و کرم کے سپرد کیا جاتا ہے۔ بھارتی حکمرانوں نے جموں کشمیر میں آزادی اظہار رائے پر سخت گیر پابندیاں عائد کی ہوئیں ہیں جس کی وجہ سے جموں کشمیر میں قبرستان جیسی خاموشی چھائی ہوئی ہے۔تشدد کے متاثرین کی حمایت میں عالمی دن کے موقع پر دنیا بھر میں متاثرین اورایسے واقعات میں بچ رہنے والوں کو سلیوٹ پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ 28جون وہ دن ہے جب تشدد اور دیگر ظالمانہ، غیرانسانی یا رسوا کن سلوک یا سزا کے خلاف اقوام متحدہ کے زیراہتمام معاہدہ عمل میں آیا تھا۔ اس وقت سے اب تک امریکہ سمیت دنیا کے 166 ممالک اس معاہدے کی توثیق کر چکے ہیں۔دنیا بھر میں ایسی بہت سی حکومتوں میں سے اسرائیل اور انڈیا ایسی مثالیں ہیں جو اپنی مخالف آوازوں کو خاموش کرنے، اعتراف جرم پر مجبور کرنے اور ماورائے عدالت سزائیں دینے کیلئے تشدد سے کام لے رہی ہیں۔ایسی تمام حکومتوں کے خلاف تشدد کو روکنے، تشدد کے متاثرین کو تلافی دینے اور ان کی بحالی نیز تشدد میں ملوث عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کیلئے عملی اقدامات اٹھانا ہوں گے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے