وطن عزیز میں بجلی کے بلوں پر عوامی احتجاج میں بڑی حد تک کمی دیکھنے میں آئی ہے ،بظاہر اس کی بڑی وجہ نگران حکومت کی بجلی چوروں کے خلاف وسیع پیمانے پر کاروائیاں ہیں جو پیغام دے رہی ہیں کہ بجلی کے ناہندہ افراد سےکوئی رعایت نہیں برتی جائے گی ، حوصلہ افزا یہ ہے کہ تادم تحریر سینکڑوں ایسے افراد کے خلاف قانونی اقدامات اٹھائےجاچکے جو بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر قانون شکنی کے مرتکب قرار پائے۔
نگران حکومت کے زمہ داران اس سچائی سے باخوبی آگاہ ہیں کہ جب تک بجلی استعمال کرنے والوں کے خلاف یکساں بنیادوں پر اقدامات نہیں اٹھائے جاتے عام آدمی کا مطعمن ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے ، یہی وجہ ہے کہ نگران حکومت سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت ایسی پالیسوں پر عمل درآمد کررہی ہے جس سے عام آدمی کو دوٹوک اور واضح پیغام دیا جاسکے کہ بجلی بلوں کے معاملہ میں کوئی ناانصافی نہیں ہوگی ،اب سوال ہےکہ عوام کی حد تک بجلی بلوں کے معاملہ میں جس احتیاط کی ضرورت ہے وہ کب اور کیسے کی جاسکتی ہے، یقینا خبیر تا کراچی عوام اس تلخ حقیقت کو بڑی حد تک تسلیم کرچکے کہ عالمی سطح پر پیڑولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اور ملک میں ڈالر کے دام بڑھنے سے حکومت کو بجلی نرخ بڑھانے پڑے ،بلاشبہ پاکستانیوں کی اکثریت کو توانائی بحران نے متاثر کیا ، ہمیں دل وجان سے یہ بھی تسلیم کرنا چاہے کہ ماضی کی حکومتوں نے بجلی بحران پر قابو پانے کے لیے ایسے اقدامات نہیں اٹھائے جو آج عام پاکستانی کی مشکل کم کرسکتے۔
ایک تاثر یہ بھی ہے کہ ہمارے لوگ اس بات کو سمجھ چکے کہ اگر سڑکوں پر احتجاج یا ٹائر جلانے سے درپیش مسلہ حل نہیں کیا جاسکتا۔ پوچھا جاسکتا ہے کہ اس ضمن میں نگران حکومت کی کیا پالیسی ہے ، ہم جانتے ہیں کہ ملک کو درپیش توانائی بحران کو حل کرنا نگران انتظامیہ کا مینڈٹ نہیں البتہ یہ ممکن ہے کہ توانائی بحران پر قابو پانے کے لیے جو منصوبہ زیر تکیمل ہیں ان کو مکمل کرنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں۔
یقینا گزرے ماہ وسال میں تیل اور کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے نہ بنائے جاتے تو آج عوام مہنگی بجلی خریدنے پر مجبور نہ ہوتے ، یقینا اس سلسلے میں ہمیں اپنے پڑوسی ملک سے بھی سیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہاں کب اور کیسے سولر انرجی اور دیگر قدرتی زرائع سے بجلی پیدا کرکے نہ صرف عوامی ضرورت پوری کی جارہی ہے بلکہ صعنتی ترقی کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوا ،یہ سوال بھی ہے کہ عوام کی حد تک بجلی بلوں کے معاملہ میں جس احتیاط کی ضرورت ہے وہ کب اور کیسے ممکن بنائی جاسکتی ہے، حوصلہ افزا کہ خبیر تا کراچی عام آدمی اس تلخ حقیقت کو بڑی حد تک تسلیم کرچکا کہ عالمی سطح پر پیڑولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اور ملک میں ڈالر کے دام بڑھنے سے موجودہ بحران پیدا ہوا لہٰذا اب درپیش صورت حال میں بہترین حکمت عملی یہی ہے کہ صارفین بجلی استعمال میں کفایت شعاری کی عادت اپنائیں ، مثلا گھر ہو یا پھر سرکاری وغیر سرکاری ادارے یا کاروبار افراد سورج کی روشنی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں، کاروباری مراکز کے کھلنے اور بند ہونے کے اوقات کو اس طرح ترتیب دیا جائے کہ دن کے اجالے میں ہی شروع اور اختیام پذیر ہوں،عام شہری بھی صبح سویرے اپنے کام نمٹانے شروع کردیں تاکہ دن کی روشنی سے پوری طرح استفادہ کیا جاسکے ، بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے کاروباری حضرات بڑی حد عادی ہوچکے کہ دوکانیں یا مارکٹیں دن 12 بجے یا اس کے بعد کھلیں اور رات بارہ بجے بند ہوں، اس افسوسناک رجحان کا نقصان یہ ہوا کہ بجلی کی کھپت میں بے پناہ اضافہ ہوا جو آج ملک وقوم کے لیے بڑے چیلنج کی شکل اختیار کرگیا
اب وہ کون سے کام ہیں جو کرکے پاکستان کا عام آدمی نہ صرف اپنا بجلی کا بل کم کرسکتاہے بلکہ درپیش توانائی بحران سے ملک وملت کو نکالنے میں بھی معاون بن سکتا ہے، اس ضمن میں چند گزارشات ہیں کہ ہم اپنی بجلی کی اپلائنس کو استعمال نہ کرتے وقت مکمل طور پر بند رکھیں ، یعنی محض ریمورٹ کنڑول سے کسی اپلائنس کو بند کرنے سے بجلی کی مکمل بچت ممکن نہیں، ایک اور معاملہ یہ کہ گھر میں توانائی سے چلنے والے ایسے آلات استعمال کریں جو کم سے کم بجلی استمعال کرنے میں معاون بنیں ، مثلا عام بلب کی بجائے انرجی سیور بجلی بل کم کرنے میں مددگار بن سکتا ہے ، دوسری طرف اے سی کا استعمال بھی بقدرضرورت کیا جائے ، قدرتی توانائی بروئے کار لاتے ہوئے گھریلو صارفین ہوں یا پھر کاروباری حضرات سورج کی روشنی کا زیادہ سے زیادہ استعمال یقینی بنائیں، ایک اور پہلو جس پر اکثر وبیشتر صارفین کم توجہ دیتے ہیں وہ پیک آور میں بجلی کے آلات کا استعمال ہے،مثلا گھر اور کاروباری مراکز میں ایسے کاموں کی فہرست بنا لینی چاہے جن کو پیک آور شروع ہونے سے پہلے سرانجام دیا جاسکتا ہے ، مثلا موٹرچلانا ، کپڑے استری کرنا، واشنگ مشین کا استمعال اس وقت کیا جائے جب بجلی کے دام زیادہ نہ ہوں، حقیقت یہ ہے کہ ہمیں توانائی بحران پر غم وغصہ کرنے کی بجائے اس سے نمٹنے کے طریقوں پر غور کرنا ہوگا بظاہر یہی وہ اہم پہلو ہے جس پر ہم پاکستانیوں کی اکثریت کو متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔
کالم
توانائی بحران اور ہماری زمہ داری
- by web desk
- ستمبر 15, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 460 Views
- 1 سال ago