سویڈن کی عدالت کے جج نے قرآن پاک کی توہین کی اجازت دی اور مسجد کے سامنے عید کے روز مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن مجید کی بے حرمتی کی گی۔ اس مکروہ حرکت پر مسلمان سراپا احتجاج ہیں اور دنیا بھر میں ہنگاموں اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ سب سے زیادہ مظاہروں کی شدت عراق اور ایران میں دیکھی گئی۔ سعودی عرب میں بھی احتجاج نے شدت اختیار کر لی۔ یورپی یونین نے بھی اس اقدام کی مذمت کی ہے مسلمانوں کی تنظیم او آئی سی نے ہنگامی اجلاس طلب کیا اور صرف بیانات تک محدود رہی ۔ مسلمان ممالک کی جانب سے سفارتی اور تجارتی تعلقات کے خاتمے جیسا کوئی قدم نہ اٹھایا گیا۔ مغربی دنیا آزادی اظہار راے کے نام پر اسلام مخالف سرگرمیوں میں ملوث چلی آرہی ہے ۔ دوسرے الفاظ میں اسے اسلامو فوبیا کہا جاتا ہے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اس واقعہ سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی ہے ترکیہ کے صدر طیب اردگان نے بھی اس واقعہ کی شدید مذمت کی ہے اور کہا کہ مغرب کو بتائیں گے کہ مقدس اقدار کی توہین آزادی راے نہیں ہوتی ۔ ترکیہ میں لاکھوں کی تعداد میں مشتعل افراد سڑکوں پر نکل آئے وہ سویڈن کے خلاف نفرت انگیز نعرے لگا رہے تھے۔ توہین قرآن پاک پر مسلمانوں کی حمایت میں سب سے جاندار موقف روس کے صدر ولادی میرپوٹین نے اپنایا۔ آپ داغستان کے دورے کے دوران ایک مسجد میں بھی گئے اور اس واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی انہوں نے قرآن پاک کو سینے سے لگایا اور کہا کہ ایسا واقعہ روس میں ہوتا تو سزا ملتی کیونکہ روس میں قرآن مجید کی توہین جرم ہے۔ مراکش اردن اور متحدہ عرب امارات نے بھی سویڈن میں قرآن پاک کی توہین کی مذمت کی ۔کتنی حیرانگی بات ہے کہ پاکستان میں سویڈن کا سفارت خانہ اس واقعہ سے بے خبر ہے۔ سویڈن کے وزیر اعظم کا موقف اس سے مختلف ہے۔ اسکینڈے نیوین ممالک کے اخبارات رسال آزادی اظہار راے کے نام پر اسلامی اقدار کی بے حرمتی کی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ ہمارے دوست ملک چین نے بھی اس واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ وزارت خارجہ نے سرکاری سطح پر سویڈن کی حکومت کو اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ۔ مسلمان اپنی مقدس کتاب قرآن مجید اور پیغمبر اسلام ﷺ سے کس قدر محبت کرتے ہیں اس کا اندازہ اس تاریخی واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ انیس سو انتیس میں جب لاہور کے ایک ہندو پبلشر نے نبی کریم ﷺ کے بارے میں توہین آمیز مواد پر مشتمل کتاب چھاپی تو مسلمانوں نے سخت احتجاج کیا ۔ لاہور کے علم دین نامی ایک نوجوان نے بلال گنج مسجد لاہور کے سامنے مہیش راجپال کو ان کی دکان پر قتل کر دیا جرم تسلیم کیا مقدمہ چلا نامور وکیل محمد علی جناح (بعد میں بانی پاکستان)نے انہیں بچانے کی کوشش کی لیکن متعصب انگریز جج کے فیصلے پر علم دین کو میانوالی جیل میں سزاے موت دے دی گئی۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی کوششوں سے انکی میت لاہور لائی گئی اور میانی صاحب کے قبرستان میں سپردخاک کر دیا گیا ۔ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے ان کی میت کو لحد میں اتارا۔ تاریخ اس عاشق رسولﷺ کو غازی علم الدین شہید کے نام سے جانتی ہے ۔ توہین قرآن مجید پر اس وقت پاکستان بھر میں احتجاجی جلوسوں کا سلسلہ جاری ہے۔ عوام میں بہت زیادہ غصہ پایاجاتا ہے اور او آئی سی نے اپنے اجلاس میں اس واقعہ پر سخت رد عمل دیا ہے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی اسے غلط کہا ہے۔ قومی اسمبلی میں بھی مذمتی قرار داد پاس کی گئی۔ ممبران قومی اسمبلی نے بھی اس مکروہ فعل پر سخت تقاریر کیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ سویڈن کی پولیس کے سامنے توہیں قرآن کی گئی اس ملعون پادری کو کسی نے بھی منع نہ کیا۔ سات جولائی کو کراچی سے خیبر تک حکومتی سطح پر یوم تقدیس قرآن منایا گیا ملک بھر میں جلسے جلوس اور ریلیاں نکالی گئیں شرکا بڑے غصے میں نظر آرہے تھے۔ مظاہرین نے مقدس کتابوں کی توہین پر سخت قوانین بنانے پر زور دیا۔ انہوں نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر سویڈش اشیاءکے بائیکاٹ اور سفیر کی بیدخلی جیسے نعرے درج تھے۔ سویڈن کے وزیر انصاف نے کہا ہے کہ سویڈن کی حکومت قرآن پاک اور دیگر مذہبی کتابوں کی بے حرمتی کو جرم قرار دینے پر غور کر رہی ہے۔ سویڈن حکومت کی جانب سے یہ ایک مثبت فیصلہ ہو گا ۔ وزیراعظم شہباز شریف قرآن مجید کی بے حرمتی کے واقعہ پر بڑے متحرک نظر آئے۔ انہوں نے یو این او کے سیکرٹری جنرل سے بات کی اور اس معاملے کو اقوام متحدہ میں اٹھانے پر زور دیا۔ اس وقت پوری دنیا میں سو ارب کے قریب مسلمان آباد ہیں اسلام دنیا کا تیزی سے پھیلتا ہوا مذہب ہے مسلمان دیگر مذاہب کی الہامی کتابوں کا احترام کرتے ہیں ۔ لیکن مغربی ممالک کے لوگ جب چاہتے ہیں حکومتی سرپرستی میں اسلامی اقدار اور کتب کی توہین کر دیتے ہیں اس رویے پر بند باندھنے کی ضرورت ہے او آئی سی کے پلیٹ فارم کو زیادہ موثر بنانے اور اسے یو این او اور بین الاقوامی عدالت انصاف لیول پر اٹھانے کی ضرورت ہے۔ سویڈن میں قرآن پاک کی توہین کے واقعہ پر پاکستان اور دنیا بھر کی مسلم امہ کی طرف سے جو ردعمل آیا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمان اپنی مذہبی کتاب قرآن مجید سے کتنی محبت کرتے ہیں اور وہ اس سلسلے میں کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔