کھیل صرف جیت اور ہار کا نام نہیں، بلکہ یہ زندگی کو بھرپور انداز میں جینے کا ایک سلیقہ، جسم کو متحرک رکھنے کا ذریعہ، اور ذہنی و روحانی تازگی کی ضمانت ہے۔ ترقی یافتہ اقوام میں کھیل کو محض نوجوانوں کی تفریح نہیں سمجھا جاتا بلکہ ہر عمر کے افراد اسے اپنی روزمرہ زندگی کا لازمی جزو بناتے ہیں۔حال ہی میں آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں ایک ہاکی میچ دیکھنے کا موقع ملا جہاں 60سے 84سال کے کھلاڑیوں نے اپنے ولولے، چستی اور مہارت سے یہ ثابت کر دیا کہ عمر کھیل میں رکاوٹ نہیں ہوتی۔ یہ رات کا وقت تھا، درجہ حرارت محض 7 ڈگری سینٹی گریڈ، اور میں گرؤانڈ کے ایک کنارے کھڑا سوچ رہا تھا کہ آخر یہ کون سا جذبہ ہے جو ان بزرگوں کو یوں توانائی اور جوش کے ساتھ کھیلنے پر آمادہ رکھتا ہے۔ان کھلاڑیوں نے یہ سچ کر دکھایا کہ اگر دل جوان ہو تو انسان کبھی بوڑھا نہیں ہوتا۔ نہ کسی کی کمر میں درد، نہ نظر کی کمزوری، نہ جوڑوں کی شکایت۔ ہر کھلاڑی مکمل فٹ اور پرعزم نظر آ رہا تھا۔ ھاکی محض کھیل نہیں، بلکہ جسمانی، ذہنی اور اخلاقی تربیت کا حسین امتزاج ہے۔ اس میں سٹیمنا، رفتار، توازن، ٹیم ورک، حکمت عملی، اور مہارت کا شاندار ملاپ پایا جاتا ہے۔ گیند پر کنٹرول، ساتھیوں سے مسلسل رابطہ، اور فوری فیصلے کی صلاحیت سب کچھ ایک ساتھ درکار ہوتا ہے۔ آسٹریلیا میں ہاکی کے فروغ کیلئے باقاعدہ لیگز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ رواں سال وکٹوریا میں ہونے والی لیگ میں 35 سے 80 سال کے درمیان عمر کے کھلاڑیوں کی 20 ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں۔ ان میں کئی کھلاڑی ایسے بھی ہیں جو عمر کی حدود پار کر کے نئی مثالیں قائم کر رہے ہیں ۔ 84سالہ بیری نے بتایا کہ وہ 1953سے ہاکی کھیل رہے ہیں ۔انکے پانچوں بچے بھی ہاکی کے کھلاڑی ہیں۔ 72 سالہ ڈیوڈ نے کہا کہ میں نے پوری دنیا میں کھیل کر یہ سیکھا ہے کہ ہاکی صرف کھیل نہیں، ایک طرزِ زندگی ہے۔68 سالہ کپتان سیڈرک نیو بانڈ نے کہا کہ وہ 10 سال کی عمر سے ہاکی کھیل رہے ہیں اور اس کھیل کے ذریعے نہ صرف جسمانی صحت بلکہ اخلاقی تربیت بھی حاصل کی۔ آسٹریلیا میں ہر عمر کے افراد کیلئے کھیل کی سہولت موجود ہے، لیکن میرے اپنے بچے ہاکی کے بجائے باسکٹ بال کھیلتے ہیں میں انہیں قائل نہیں کر سکا۔پاکستانی نژاد ڈاکٹر ظفر کی کارکردگی خاص طور پر قابلِ ذکر رہی۔ لیفٹ ونگ پر ان کی پوزیشننگ، پاسنگ، اور گیم ریڈنگ نے کئی بار مخالف ٹیم کی دفاعی لائن کو چیر کر رکھ دیا۔پاکستان میں ہاکی کا مستقبل تابناک ہو سکتا ہے، مگر بدقسمتی سے اداروں میں غیر تجربہ کار افراد کی تقرری، سہولتوں کی کمی، اور حکومتی عدم توجہی نے اس کھیل کو پستی میں دھکیل دیا ہے ۔تحقیقات سے ثابت ہے کہ اگر عمر کیساتھ جسمانی سرگرمی جاری رکھی جائے تو انسان نہ صرف بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے بلکہ ذہنی طور پر بھی زیادہ متوازن اور فعال رہتا ہے۔ آسٹریلیا میں بزرگ افراد ہاکی کے ذریعے اپنی زندگی کو نہ صرف متحرک بلکہ بامقصد بھی بنا رہے ہیں ۔ اس کے برعکس ترقی پذیر ممالک میں 60سال کی عمر کو بڑھاپا تصور کیا جاتا ہے۔ ایسے افراد کو اکثر معاشرتی طور پر غیر فعال سمجھا جانے لگتا ہے۔ حالانکہ جاپانی فلسفہ یہ کہتا ہے کہ 60سے 80 سال کی عمر درحقیقت شعور، تجربے اور جسمانی و ذہنی پختگی کا سنہری دور ہوتا ہے۔آسٹریلیا میں ہاکی صرف ایک کھیل نہیں بلکہ قومی ثقافت اور شناخت کا جزو ہے۔ حکومت کی سرپرستی، تربیت یافتہ کوچز، جدید سہولتیں، اور باقاعدہ ٹورنامنٹس نے اسے عالمی سطح پر نمایاں مقام دلوایا ہے۔ یہاں کے بزرگ کھلاڑی نئی نسل کیلئے جیتی جاگتی تحریک بن چکے ہیں۔جب ایک 84سالہ کھلاڑی پورے جوش و خروش سے میدان میں موجود ہو تو یہ جذبہ نوجوانوں کو چیلنج دیتا ہے کہ وہ بھی اپنے اندر کے جوش کو جگائیں۔یقینا، کھیل اور عمر کا کوئی براہ راست تعلق نہیں۔ اصل طاقت انسان کے جذبے، حوصلے اور عزم میں ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک بھی اس سوچ کو اپنائیں کہ:کھیل صرف جوانوں کا حق نہیں، بلکہ ہر اس انسان کا حق ہے ۔ 84سالہ بیری کو کھیلتے دیکھ کر یوں لگا جیسے جسم میں جوانی لوٹ آئی ہو، دل چاہا کہ ہاکی پکڑیں اور میدان میں اتر جائیں۔