گزشتہ سے پیوستہ
وہ رشت کا رہنے والا انقلابی شاعر تھا۔ اس کا تعلق انقلابی سیاسی تنظیم ” حزب فدائین خلق سے تھا۔ محمد رضا شاہ کی حکومت نے تنظیم پر پابندی لگا رکھی تھی۔ سازمان امنیت و اطلاعات کشور(ساواک)حکومت کا خفیہ ادارہ ان کی حرکات پر نظر رکھتا تھا۔ 1974 میں ولی عہد شہزادہ محمد رضا کے قتل کی سازش کے جعلی مقدمہ میں خسرو گل سرخی اور اس کے ساتھی کرامت دانشیاں کو موت کی سزادی گئی۔بہر حال خسرو گل سرخی پہلا ایرانی جدید شاعر تھا۔ جس سے میرا تعارف ہوا۔ ساتھ ہی شہنشاہیت کےخلاف تحریکوں سے آشنائی ہوئی۔ شاہ کے مخالفین میں سب سے اہم سابق وزیراعظم محمد مصدق کی سیاسی پارٹی جبہ ملی(نیشنل فرنٹ)تھی۔ اسکے بعد بائیں بازو کی تنظیمیں حزب تودہ ، حزب مجاہدین خلق ، حزب فدائین خلق کے علاوہ مدرسہ قم کے علمائے دین بھی ان کےساتھ تھے۔یہاں میرا مقصد ان دنوں کی ایرانی سیاست پر گفتگو کرنا نہیں بلکہ یہ بتانا ہے کہ سپاہ دانش اور سپاہ بہداشت اگر چہ بادشاہ کی قائم کردہ تنظیمیں یا ادارے تھے لیکن نوجوان بچے اور بچیاں دور دراز دیہی علاقوں میں شہری ، جمہوری اور انقلابات کی ترویج میں مددگار ثابت ہوئیں۔ان ہی کے بدولت ایران کے جدید، ترقی پسند شعرا اور ادیبوں سے میرا تعارف ہوا۔ اگرچہ ان میں سے اکثر کی تخلیقات پر پابندی تھی بلکہ ان میں سے کئی افراد لاپتہ اور قتل کر دیئے گئے۔ فروغ فرخ زاد ایک مشکوک کار ایکسیڈنٹ میں ہلاک ہو گئیں۔ایران کے مشہور اولمپک گولڈ میڈلیسٹ پہلوان غلام رضا تختی ہوٹل میں مردہ پائے گئے۔اہم کہانی نویس صمد بہرنگی کی لاش دریائے ارس میں تیرتی پائی گئی۔ اسی طرح جدید اسلامی سکالر ڈاکٹر علی شریعتی بیرون ملک ہوٹل میں پر اسرار طریقہ سے قتل کر دیئے تھے۔ ایسی کئی کہانیاں ان بچوں کے ذریعہ ایران کے طول و عرض میں پھیل گئیں۔شاہ ایران کے دور حکومت میں فکر ونظر ، عقل و شعور اور سیاسی آزادی پر پابندیوں کو موثر اور ممکن بنانے کا کام ساواک نامی بدنام زمانہ ادارے کے سپرد تھا۔مختار مسعود نے بھی اپنی معروف تصنیف لوح ایام میں اس سفاک ادارے پر تفصیل سے لکھا ہے۔وہ بتاتے ہیں کہ؛ ” مخالفت کو کچلنے، مخالفین کو اغوا کرنے اور انہیں اذیت دینے کا کام سائنسی اصولوں کے تحت ایک ادارہ سر انجام دیتا تھا۔ خفیہ کارروائی کے اس ادارے کے بنانے اور سنوارنے میں اسرائیل اور امریکہ کی فنی امداد اور مہارت بھی شامل تھی ۔ اس کا نام سازمان امنیت و اطلاعات کشورتھا مگر اس نام کا مخفف ساواک اتنا مشہور ہوا کہ اصل نام متروک ہو گیا۔ساواک کو اذیت دہی اور شکنجہ گری کے جانے پہچانے سارے طریقے ازبر تھے۔ وہ قیدی جن پر یہ حربے آزمائے جاتے کوئی خوفناک بین الاقوامی دہشت پسند نہیں تھے۔ ان میں بیشتر نوجوان طالب علم تھے۔ ساواک کو علم اور جوانی دونوں سے سخت نفرت تھی۔ علم برے بھلے کی تمیز سکھاتا ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ معاشرے میں کتنا بگاڑ ہے ۔ کون اس بگاڑ کا ذمہ دار ہے۔ جوانی دیوانی ہوتی ہے وہ بگاڑ کے ذمہ دار کےخلاف اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔سخت گیر اور مطلق العنان حکمرانوں کے جبر اور اسکے نتائج کا معروضی مطالعہ و تجزیہ ریاست و سیاست کے طالب علموں کےلئے بنیادی اہمیت اور افادیت رکھتا ہے ۔ اسی طرح آزادی سے سوچنے اور اپنی فہم حیات کا دلیرانہ ابلاغ کرنا اور اس کے ردعمل کا سامنا کرنا بھی سماجیات و سیاسیات کا ایک اہم باب ہے۔ نادان حکومتیں اپنے اور دوسروں کے تجربات سے کچھ بھی نہیں سیکھتیں،وہ عمومی طور پر پرانے گناہ دھرا کر نئے نتائج کی تلاش میں رہتی ہیں اور بالآخر گزرے گناہ گاروں جیسے انجام سے دوچار ہو جاتیں ہیں۔فروغ فرخ زاد نے عورت کے حسن اور بدن میں غلطاں فارسی شاعری کو غالبا پہلی بار ایسی عورت سے متعارف کرایا،جو مردوں کے مقابل یکساں مگر قدرے تندخو انسانی جذبات رکھتی ہے، جو مرد کو لبھانے والا کھلونا نہیں، برابر کی انسان ہے اور وہ اپنی جنسی خواہشات اور ترجیحات کا برملا اظہار و ابلاغ کرنے کا حق اور صلاحیت رکھتی ہے۔شاید پہلی بار ایرانی عورت نے مرد کے جسم کو شعر کا عنوان بنایا۔فروغ فرخ زاد خوف ، جھجک اور گبھراہٹ سے ناآشنا تھی۔وہ ناانصافی ، ظلم اور تشدد کی مذمت اور مزاحمت کرنے پر یقین رکھتی تھی۔وہ احتجاج کرنے پر قادر تھی۔یہی وجہ ہے کہ؛اگر شاہ ایران کے عہد میں اس کی تصانیف پر پابندی رہی تو انقلاب ایران کے بعد بھی، انقلاب کے محکم ہوتے ہی پھر سے فروغ فرخ زاد کی تصانیف کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔”عصیان“کا اردو ترجمہ کرتے ہوئے ڈاکٹر تنویر احمد بتاتے ہیں کہ؛ "عصیان” فارسی میں بغاوت (یعنی) Rebellion کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔منجمد و متحجر معاشروں میں بغاوت دراصل تاریکی کا سینہ چیر کر صبح کا آغاز کرنے والی شعاع آفتاب کی طرح سے ہوتی ہے۔اقبال بانگ درا کی نظم شعاع آفتاب میں ایسی ہی ایک سراپا اضطراب شعاع سے اس کے رقص، آوارگی و جستجو اور تڑپ کا سبب دریافت کرتے ہیں،تو وہ برملا جواب دیتی ہے کہ؛
مضطرب ہر دم مری تقدیر رکھتی ہے مجھے
جستجو میں لذت تنویر رکھتی ہے مجھے
برق آتش خو نہیں، فطرت میں گو ناری ہوں میں
مہر عالم تاب کا پیغام بیداری ہوں میں
تو پھر چلئے اب ڈاکٹر تنویر احمد کے اردو ترجمے کی وساطت سے اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں بیسویں صدی کی پانچویں اور چھٹی دہائی کی باغی شاعرہ فروغ فرخ زاد کے مجموعے عصیان کے مطالعے کا لطف اٹھاتے ہیں۔ (ختم شد)
کالم
جستجو میں لذت تنویر رکھتی ہے مجھے
- by web desk
- مارچ 31, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 42 Views
- 3 دن ago
