کالم

جس کا فون نمبر میرے پاس محفوظ ہے

گزشتہ سے پیوستہ
کو ختم کر کے تمام اردو ٹائپسٹوں کا تبادلہ مختلف شعبوں میں کردیا گیا تھا۔ایک دو شعبوں میں پوسٹنگ کے بعد طارق فاروق کا تبادلہ دفتری اردو پراجیکٹ میں ہو گیا۔دفتری اردو پراجیکٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمود الرحمن تھے۔اپنی وضع کے شاندار بزرگ، گراں گوش تھے ،اس لیے آلہ سماعت استعمال کرتے تھے۔ بقول طارق فاروق وہ حیرت انگیز بصیرت کے مالک تھے۔ دن میں کئی لوگ ملنے آتے، لیکن بات چیت کے دوران صرف اس وقت آلہ سماعت کانوں سے لگاتے ،جب ان کے اپنے کام یا مفاد کی کوئی بات ہوتی۔ورنہ گفتگو سنتے رہتے اور تائید میں سر ہلاتے رہتے ۔اس کے مطابق ڈاکٹر صاحب دن میں کئی قسم کے اوراد و وظائف کا اہتمام بھی کرتے تھے۔دفتری اردو کی ڈاک کا جواب طارق فاروق کے ذمے تھا۔اسے ہدایت تھی کہ صرف کوئی نہایت اہم معاملے میں ان سے رہنمائی لی جائے ،ورنہ جس طرح سے پراجیکٹ چلتا آ رہا ہے ، اسی طرح چلتا رہنا چاہیئے ۔وہ گاہے گاہے اپنے روحانی تصرفات بھی بتاتے رہتے تھے ۔اس ساری روداد میں اصل کمال طارق فاروق کے انداز بیان کا تھا۔جب کبھی پراجیکٹ کے بند ہونے کی افواہ یا خبر پھیلتی ،ڈاکٹر صاحب کا وظیفہ شروع ہو جاتا ۔ اور وہ جو غالب نے کہہ رکھا ہے کہ؛
دیکھیو غالب سے گر الجھا کوئی
ہے ولی پوشیدہ اور کافر کھلا
تو کچھ ایسا ہی معاملہ ادھر بھی تھا ۔طارق فاروق ڈاکٹر محمود الرحمن کو ظاہر اور پوشیدہ دونوں صورتوں میں ولی شمار کرتا تھا ، کفر کا تو خیر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔کہتا تھا کہ جب بھی ڈاکٹر صاحب کسی مقصد کے لیے وظیفہ کرتے ہیں ،ان کی ایکسٹنشن کا آفس آرڈر آجاتاہے ۔ایک بار طارق نے ایک لطیفہ سنایا ۔کہنے لگا کہ ڈاکٹر صاحب کے معمولات میں آفس کی کھڑکی میں رکھے مٹی کے برتن میں ہر روز باجرہ اور ساتھ رکھے کٹورے میں ہانی ڈالنا شامل تھا۔وہ ایسا کرنے کے بعد پرندوں کی آمدورفت اور سرگرمیوں کا جائزہ بھی لیتے رہتے تھے۔ایک روز دفتری اردو پراجیکٹ کا آفس یونیورسٹی کے بلاک نمبر تین سے بلاک نمبر چار میں منتقل کرنے کا پروانہ چلا آیا ۔طارق فاروق نے ہنستے ہوئے بتایا کہ ؛سارا اسٹاف سامان سمیٹنے اور منتقل کرنے میں مصروف تھا،جبکہ ڈاکٹر محمود الرحمن بے چینی اور پریشانی کے عالم میں کمرے میں ٹہل رہے تھے ،ساتھ آہستہ آواز میں خود سے باتیں بھی کررہے تھے ۔طارق فاروق کا گمان تھا کہ ان کا سب سے قریبی دوست اور مشیر ،وہ خود تھے ،اسی لیے اہم معاملات میں میں ہمیشہ آہستہ آواز میں خود سے مشورہ کرتے رہتے تھے ۔اور کبھی کوئی حل نہ سوجھتا تو پھر وہ طارق فاروق سے پوچھتے تھے۔طارق کہتا ہے کہ وہ ان کی بے چینی کو زیادہ دیر نہ دیکھ سکا، اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ چھٹی سے پہلے پہلے آفس خالی کر کے بلاک چار میں شفٹ کرنا تھا۔ طارق ڈاکٹر صاحب کے پاس گیا اور پوچھا کہ کیا پریشانی ہے؟ ڈاکٹر صاحب کچھ دیر توقف کیا ، پھر کچھ سوچتے رہنے کے بعد بولے کہ ہم اپنا دفتر تو تبدیل کر رہے ہیں ،لیکن جو پرندے ہر روز اس کھڑکی پر آتے ہیں ،وہ کیا سوچیں گے ؟ انہیں ہمارے نئے دفتر کا پتہ کیسے چلے گا؟طارق فاروق ہنستے ہوئے کہنے لگا کہ میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ اس کا تو بڑا آسان سا حل موجود ہے،ہم ایک کاغذ پر نئے دفتر کا پتہ یعنی بلاک چار کا کمرہ نمبر لکھ کر کھڑکی سے چپکا دیتے ہیں۔اتنے عرصےمیں پرندوں نے دفتری اردو کا باجرہ کھا کھا کر اردو پڑھنی تو سیکھ ہی لی ہو گی۔طارق نے اپنی اس جسارت مع شرارت سے محضوظ ہوتے ہوئے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب کچھ دیر گھورنے اور تفکر کرنے کے بعد کمرے سے نکل گئے۔اگلے روز وہ نئی کھڑکی میں باجرہ اور پانی کا کٹورا رکھے پرندوں کا انتظار کر رہے تھے۔ سردیوں کا موسم تھا کہ ایک روز شام کے وقت پتہ چلا کہ گیٹ پر طارق فاروق آیا ہے۔یہ بات خلاف معمول تھی۔ہم لوگ یونیورسٹی میں بھی کبھی کبھار ملتے تھے۔خیر میں نے کہا کہ انہیں اندر لے آئیں ،پتہ چلا وہ مجھے باہر بلا رہا ہے۔میں باہر گیا تو دیکھا کہ طارق فاروق ایک سوزوکی شہزور کے ساتھ منتظر ہے،اور اس گاڑی پر دو بڑے بڑے بک ریک رکھے ہوئے ہیں۔کہنے لگا کہ سر کام میں دیر ہو گئی لیکن جیسے ہی مجھے پتہ چلا کہ بک ریک تیار ہو چکے ہیں ،تو پھر میں نے سوچا کہ اگلے روز کا انتظار کرنے کی بجائے ابھی آپ کے گھر پہنچا دوں۔میں سخت حیران کہ نہ مجھے لاگت کا انداہ ،نہ مجھ سے ریک بنوانے کی اجازت لی ،نہ میں نے اس کام کے لیے کوئی رقم ادا کی۔تو پھر یہ کیسے؟ خیر میں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے بک ریک تو گھر میں رکھوا لیے، لیکن طارق فاروق سے پوچھا ضرور کہ یار آپ کو لاگت کا اندازہ لگوانے کے لیے کہا تھا ، بنوانے کے لیے تو نہیں۔مسکرا کر جواب دیا کہ سر جی جو کام ضروری ہو ،اسے کر لینا چاہیئے۔کتابوں کو ریک کی ضرورت تھی ،سو وہ بن کر آگئے اچھا اب میں چلتا ہوں ،ٹھنڈ زیادہ ہو رہی ہے۔ میں کہاں واپس جانے دیتا، ہم گھر کی بیٹھک میں بیٹھے، گرم گرم چائے ، جسے وہ چاہ کہا کرتا ، پی ۔بک ریک پر آنے ولی لاگت میرے اندازے سے کہیں کم تھی ،اور اس شام کی سب سے پرلطف بات وہ شرماہٹ تھی جو بک ریکس پر خرچ ہونے والی رقم لیتے ہوئے طارق فاروق کے چہرے کو ڈھانپ گئی تھی۔ایک بار میں یونیورسٹی سے چھٹی لے کر اپنے گھر میں مقیم ، بلکہ ازخود محصور تھا۔مقصد تین ماہ کی مدت کے اندر اندر مقالہ مکمل کرکے جمع کروانا تھا۔ گزرے سالوں اور مہینوں میں میں اپنے سارے بنیادی اور ثانوی مآخذ جمع کر چکا تھا۔یہ مقالہ بہت پہلے مکمل ہو کر جمع ہو جاتا ،لیکن میرے یونیورسٹی کی اکیڈمک اسٹاف ایسوسی کا صدر بننے سے مقالہ تعویق کا شکار ہوتا چلا گیا۔ بہت مشکل حالات کا سامنا کرنے کے بعد ،جب حالات سازگار ہوئے تو عقدہ کھلا کہ مقالہ جمع کرانے میں صرف تین ماہ باقی رہ گئے ہیں۔اب ایک ہی حل تھا کہ میں دن رات مقالے کی تسوید میں مصروف ہو جاوں ،لہذا یونیورسٹی سے چھٹی لی، دوستوں کو بتا دیا کہ اتنا عرصہ رابط نہیں رہے گا۔گھر کا ایک کمرہ مخصوص کر کےاس میز کی گرد صاف کر لی ،جس پر بیٹھ کر ایم فل کا مقالہ مکمل کیا تھا۔خیر اس مقالے کی بلاتعطل تسوید بجائے خود ایک دلچسپ مضمون کا عنوان اور سامان ہے۔یہاں میں ایک فرشتے کے کردار کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ میں پورے انہماک کے ساتھ مقالے لکھنے میں مصروف ہوں ، کام تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے ،لیکن مقالے کی کمپوزنگ کا کوئی انتظام یا منصوبہ سامنے نہیں تھا ، اور سچی بات تو یہ ہے کہ ان دونوں یہ سب سوچنے کی فرصت بھی نہیں تھی۔بس دماغ میں یہ حل طلب مسلہ موجود تھا ۔ میری اہلیہ نے بارہا متوجہ بھی کیا کہ کام تو انشا اللہ وقت پر مکمل ہو جائے گا، مجھے یقین ہے ،پر اس کی کمپوزنگ کا وقت نہیں بچے گا ، اس کا بھی کچھ سوچیں اور حل نکالیں۔میں جواب دیتا حل اللہ نکالے گا، آپ فکر نہ کریں۔ (جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے