کالم

جس کو ملا بساط سے بڑھ کر کچھ اختےار

ےہ منظر جرمنی کے مشہور شہر براﺅن شائر کی اےک عدالت کا ہے ۔عظےم جرمن ڈکٹےٹر ”ہر اےڈولف ہٹلر“کی جنم بومی بھی ےہی شہر ہے ۔اےک عدالت کی انتظار گاہ مےں مقدمات کی پےشےاں بھگتنے آئے سائلےن نشستوں پر بےٹھے اپنی باری کے منتظر ہےں ۔ان سائلےن مےں راقم کا اےک پاکستانی دوست بھی شامل ہے جس کا جرمنی کی کسی عدالت مےں پہلی بار اپنی گاڑی کے چالان کے سلسلہ مےں آنا ہوا ہے ،وہ بھی محو انتظار ہے ناگاہ اےک نوجوان سب لوگوں سے مصافحہ کرتا ،ان کی خےرےت معلوم کرتا تےزی سے عدالت کے اندر چلا جاتا ہے ۔راقم کا دوست خےال کرتا ہے کہ شاےد ےہ بھی کسی مقدمہ کا سائل ہے لےکن بلند تر اخلاق کا مالک ہے ۔اپنی باری آنے پر راقم کا دوست عدالت کے روبرو کٹہرے مےں جا کھڑا ہوتا ہے ۔ےہ دےکھ کر ےہی تو وہ جج ہے جس نے مقدمات کا فےصلہ کرنا ہے ،اسے اپنی آنکھوں پر ےقےن نہےں آتا ۔تھوڑی دےر کےلئے اس پر سراسےمگی ،حےرت اور سکتہ کی کےفےت طاری ہو جاتی ہے ۔اس کا ذہن سوچ کی گہرائےوں مےں غوطہ زن ہو کر اس عدالت کا تقابل پاک وطن کی عدلےہ سے کرتا ہے جہاں انصاف کی مسندوں پر فروکش صاحبان عدل تکبر آمےز،خود پرستانہ روےوں کے حامل ہےں ۔ان ممالک مےں خوشگوار ماحول ،آزاد عدالتےں ،خود مختار فےصلے اور عہدوں کا احترام ہوتا ہے ۔جرمن کی مذکورہ عدالت کے جج کا روےہ مظہر ہے عدل کا ،اخلاقےات کے درس کا ،جھوٹی انا کے خاتمے کا ،،ےہی انسانےت ،عالمگےر سچائی ،زندہ قوموں کی پہچان ،کسی قوم کی ترقی کی ضمانت اور ےہی روےہ خود ساختہ اکڑ پن اور تکبر کی نفی بھی ہے ۔اگر ےہی شعور و آگہی پاکستانی سماج مےں جلوہ گر ہو جائے تو ےقےنا ہمارا معاشرہ اےک مثالی معاشرہ بن سکتا ہے ۔ہمارے معاشرے مےں مخصوص رجحانات اور ذہنی تربےت کے فقدان کے باعث حرص اور خود غرضی کا سرطان پھےل چکا ہے ۔بددےانتی ،رشوت ،چور بازاری اس مرض کی علامتےں ہےں اور ےہی بگاڑ معاشرتی انحطاط کی وجہ بنتا ہے۔اس بڑھتے ہوئے طوفان کے رکنے مےں ہماری بقا ہے۔جہاں ہمارے سماج مےں دھوکہ ،فرےب ،خود غرضی ،کرپشن اور رشوت جےسی ان گنت برائےاں موجود ہےں وہاں ہمارے سماجی روےے بھی لائق تحسےن نہےں ۔سوسائٹی کے بارے مےں راقم کا مشاہدہ انتہائی بے چےنی اور تکلےف دہ احساس کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔چونکہ راقم کا اس کالم مےں مقصد منفی انسانی روےہ احساس برتری پر لکھنے کا ہے اس لئے ےہی نقطہ زےر بحث رہے گا ۔ہم حکومتی کرسی پر ہوں ،وزےر ہوں ،بادشاہ ہوں ،حکمران ہوں ،بےوروکرےٹ ہوں ،ہم سب مےں اپنے کو بڑا آدمی سمجھنے کا ناسور پاےا جاتا ہے جس کا اظہار وقتاً فوقتاً ہمارے روےوں سے ہوتا رہتا ہے ۔اےک پٹواری سے لےکر تحصےلدار تک ،تحصےلدار سے لےکر مجسٹرےٹ تک ،اےک پولےس مےن سے لےکر تھانےدار تک ،تھانےدار سے لےکر ڈی پی او تک ،عدلےہ کے اےک اہلکار سے لےکر جج تک ،اسی طرح علیٰ ہذالقےاس اکثرےت احساس تفاخر اور برتری کا شکار ہے ۔ےہ لوگ عام انسانوں کو کوئی اہمےت نہےں دےتے ۔آپ کسی دفتر چلے جائےں ،عام بے آسرا شہری کو حقارت کی نظر سے دےکھا جائے گا اور اپنے کو اعلیٰ نسل انسانی اور کسی دوسری دنےاکی اعلیٰ و ارفع مخلوق ۔ےہ احساس برتری دراصل تکبر کی ہی اےک نشانی ہے اور تکبر فقط اسی ذات بے ہمتا کےلئے وقف ہے ۔ہمےں جہاں قدم قدم پر متکبر انسان ملتے ہےں ۔ہمارے سےاستدان اتنے اختےارات کے مالک بننا چاہتے ہےں کہ کوئی بھی ان کے سامنے سر اٹھانے ،چوں چرا کرنے اور اونچی آواز سے اپنا مدعا بےان کرنے تک کی جرا¿ت نہ کر سکے ،حالانکہ ےہی سےاستدان الےکشن سے قبل خوش اخلاق اور ملنسار ہوتے ہےں اور اےسا بہروپ اختےار کرتے ہےں کہ ان جےسا دنےا مےں کوئی غرےب نواز اور بندہ پرور انسان ہی نہےں ۔اقتدار و اختےار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے بعد مخلص ،ہمدرد اور مسکےن بندے اقتدار کے اےوانوں سے باہر نکلتے ہےں تو عجےب سماں پےدا ہو جاتا ہے ،ہر چےز ان کے ادب و احترام مےں رک جاتی ہے اور ےہ امپورٹد گاڑےوں مےں اک شان بے نےازی سے براجمان ہوتے ہےں اور عوام حےرت زدہ ۔عوام اور قوم کے ان خادموں مےں اےک ناقابل عبور خلےج کا پےدا ہونا جہاں قول و فعل کے تضاد کا مظہر ہوتا ہے وہاں احساس برتری کا غماز بھی ۔وطن عزےز کا عام شہری تھانے کی چار دےواری کے اندر جانے کی جرا¿ت نہےں کر سکتا کہ کہےں تھانےدار صاحب کے غےض و غضب کا نشانہ بننا پڑ جائے ۔ہماری عدالتوں مےں عام غرےب سائل احساس کمتری کا شکار اور اپنا مافی الضمےر بےان کرنے سے عاجز و قاصر رہتا ہے ۔وہ ہر لمحہ ڈر ،خوف کی گرفت مےں رہتا ہے کہ صاحب بہادر کہےں طےش مےں نہ آ جائےں ۔ہر افسر عام شہرےوں کو اپنا غلام اور رعاےا تصور کرتا ہے ۔افسران سرکار کی ےہی خواہش ہوتی ہے کہ صرف ہمےں ہی احترام دےا جائے ،ہمےں دوسروں کی کےوں عزت کرنی چاہےے ۔عدم رواداری اور اپنے کو بڑا سمجھنا دراصل چھوٹے اور محدود ذہن کی علامت ہے ۔ےہ کشادہ دلی کے مفقود ہونے کی نشانی ہے ۔ہمےں اس سے آگاہی نہےں ےا ہمارے اندر شرف انسانی کا احساس ناپےد ہے ۔ےہی وجہ ہے کہ ہم اپنے کو بڑا آدمی سمجھتے ہوئے دوسروں کی عزت نفس مجروح کرنے کی کوشش کرتے ہےں اور دوسروں پر بے جا رعب ڈالنے مےں لذت محسوس کرتے ہےں ۔ےہ اےک پست خواہش اور انسانی کمزوری ہے ۔مثبت انسانی اقدار نرمی ،لچک ،پےار ،محبت اور الفت ہےں ۔بڑے پن کا اظہار اےک بےماری ہے جو بے حسی پر دلالت کرتی ہے ۔ےہ سماج کے چہرے پر اےک قسم کی آلودگی ہے جس کے ہم ذمہ دار ہےں ۔ہمارا روےہ گمراہی کی نشانی اور اسلامی اقدار سے عدم شناسائی کی علامت ہے ۔برتری وتفاخر اور انسانوں کو کم تر جاننے کا روےہ قانون کی گرفت سے تو باہر ہے لےکن اس کا علاج دےن اسلام کی آغوش مےں ہی مضمر ہے ۔ےہ انسان کو پوری زندگی گزارنے کا اےک مکمل ضابطہ حےات عطا کرتا ہے۔اعلیٰ و ارفع ہونے کا مدار صرف تقویٰ ہے ۔قرآن مجےد تو تمام بنی نوع انسان کی تکرےم کا حکم دےتا اور پوری انسانی زندگی کا احاطہ کرتا ہے ۔گھر مےں فرد کا بچوں سے ،خاوند کا بےوی سے ،اولاد کا والدےن سے ،بھائی کا بھائی سے ۔سماج کے اےک فرد کا دوسرے فردسے منصف کا سائل سے سلوک کےسا ہونا چاہےے ؟ آپ کے اخلاق کےسے ہوں ،فرد کی عقل بھی انسانی عقل ہو اور نفس بھی انسانی نفس ہو ،ظاہر مےں بھی انسانی اوصاف سے مزےن ہو اور اندرون بھی ۔اگر ہم اسے اپنانے مےں کامےاب ہو جائےں تو ہمارا اےک اسلامی ،صالح اور مثبت اقدار کے جامع معاشرے مےں ہر فرد دوسروں کا ممد و معاون ہو گا ۔حاکم و محکوم و غنی و محتاج مےں کوئی امتےازی سلوک نظر نہےں آئے گا ۔ہر طرح کی طبقاتی کشمکش کا خاتمہ اور افراد مےں اس قدر ہم آہنگی اور ربط پےدا ہو گا کہ ان کے درمےان شناخت کرنا مشکل ہو گا کہ حاکم کون ہے اور محکوم کون ،ملازم کون ہے اور مالک کون ۔دنےا مےں جس کو بھی کوئی اختےار ےا دنےاوی عہدہ ملتا ہے ےہ اےک آزمائش ہوتی ہے ۔نفس انسانی کی زندگی کا مقصد معاشرے کی تعمےر وترقی ،شائستگی ، دےانتداری اور پاکےزگی جےسے اوصاف کو اپنانا ہے ۔قوم کے اجتماعی مفاد کےلئے اپنے آپ کو ہمہ وقت تےار رکھنا بلند کردار ہے ۔صاحب اختےار و منصب اپنے آپ کو ےہ نہ سمجھے کہ مےری آراءہی حکام ہےں ۔جس رفتار سے انسان مادی ترقی کی منازل طے کر رہا ہے ،اسی تےزی سے وہ سچے اور خوبصورت روےوں سے دور دور ہوتا جا رہا ہے ۔انسان کی بے نےازی بے حسی مےں بدل رہی ہے محبت و پےار کے جذبے مفقود ہوتے جا رہے ہےں ۔ ہم منفی معاشرتی اقدار اور روےوں مےں تبدےلی کے بغےر ترقی اور استحکام حاصل نہےں کر سکتے ۔ان منفی روےوں سے چھٹکارا حاصل کرنے مےں ہی ملکی ترقی اور صاف و شفاف معاشرے کی ضمانت کا راز پنہاں ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے