حضرت انسان کے ہزاروں برس کے تجربات کا نچوڑجمہورےت ہے۔جمہورےت ہی سب سے بہترےن نظام حکومت اورسےاست ہے۔ جمہورےت مےں عوام کی حکومت ہوتی ہے۔عوامی نمائندے ہی عوام اور ملک کے فلاح وبہبود کےلئے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہےںلےکن شومئی قسمت وطن عزےز مےں نام تو جمہورےت کا استعمال ہورہا ہے بلکہ عملاً اور نتائج کے لحاظ سے کچھ اور ہورہا ہے۔ےہ کیسی جمہورےت ہے جس مےں عوام کے لئے شادمانی نام کی چےز نہےں، صرف الم ہی الم ہے۔وطن عزےز مےںدھےرے دھےرے شا نتی بھی ناپےد ہورہی ہے۔ حکمرانوں کےلئے سب کچھ دستےاب اور مفت ہے جبکہ عوام کےلئے موت کے سوا ہر چےز مہنگی اور بعےد ہے۔وطن عزےز مےں جمہورےت کا ےہ بھی المےہ ہے کہ سیاسی پارٹیوں میں جمہوریت نہیں ہے بلکہ سیاسی پارٹیاں خاندانوں اور شخصیات کے گرد طواف کرتی ہیں۔حکومت چلی جاتی ہے تو اُس سیاسی پارٹی کے قائدین پر کرپشن سمیت تمام الزامات لگ جاتے ہیں اور پھر چند سالوں کے بعد وہی قائدین پاک وصاف اور حاجی بن جاتے ہیں ۔وطن عزیز میں سزا وجزا اور انصاف کا حقیقی نظام ہوتا تو ضرورپوچھ گچھ ہوتی کہ الزام لگانے والے غلط ہیں یا یہ جو حاجی صاحب بن گئے، یہ غلط ہیں۔کوئی تو غلط ہوگا، اگر دونوں درست ہیں توپھر یوں کہہ سکتے ہیں کہ غریب عوام اور ملک کے ساتھ کھلواڑ جارہی ہے۔ وطن عزیز میں70فیصد عوام خطہ غربت سے نیچے زیست بسر کررہے ہیں، ان میں سے ایم این اے ، ایم پی اے یا سینیٹرز وغیرہ نہیں بنتے ہیں،نہ ان میں سے بیوروکریٹ بنتے ہیں، جب ان میں کوئی بھی فیصلہ سازی یا نظام حکومت یا انتظامیہ میں شامل نہیں ہوتا ہے ،تو صاف ظاہر ہے کہ اکثریت کا فیصلہ سازی یا انتظامیہ وغیرہ میں کوئی کردار نہیں ہے تو پھر یہ کیسی جمہوریت ہے؟جموریت میں اکثریت کی حکومت ہوتی ہے لیکن یہاں ہمیشہ صرف دو فی صد افراد اور مخصوص خاندانوں کی حکومت ہوتی ہے ۔وطن عزیز میںپی آئی اے ، سٹیل ملز وغیرہ خسارے پر جارہے ہیں جبکہ چند افراد کے بزنس میں چند سالوں میں سینکڑوں فی صد اضافہ ہوجاتا ہے۔ وطن عزیز میںاکثریت کے لئے بجلی، گیس اور دیگر توانائی کے ذرائع مہنگے ترین ہیں لیکن مخصوص افراد کے لئے یہ سب بالکل مفت ہیں۔ےہ کےسی جمہورےت ہے؟ وطن عزیز میں کسی سرکاری دفتر میں چھوٹے سے کام کےلئے چلے جائیں تو پھر آپ پر بہت کچھ عیاں ہوجائے گا۔کسی دانشور نے کہا تھا کہ” اےسا علم بےکار ہے جو انسان کو کام کرنا تو سکھا دے لےکن زندگی گزارنے کا سلےقہ نہ سکھائے۔”اےسی جمہورےت کا کےا فائدہ جو انسان سے خوشےاں سمےٹ لے اور صرف غم اور الم دے۔اےسی جمہورےت کا کےا فائدہ جو جھوٹ پر قائم ہو ۔ اےسی جمہورےت کاکےا فائدہ جس میںعالمی مالیاتی اداروں کی ہدایات پر من وعن عمل ہورہا ہو ، اہم عہدوں پر ایسے افراد جلوہ افروز ہوں جو عوام کا لہو چوستے ہوں۔کارل مارکس نے کہا تھا کہ "انسان اپنی تارےخ خود بناتے ہےں لےکن اےسا وہ اپنی مرضی سے نہےں کرتے۔وہ جن حالات مےں ےہ کرتے ہےں، وہ انہوں نے خود منتخب نہےں کےے ہوتے بلکہ ماضی سے وراثت مےں ملے ہوئے ہوتے ہےں ۔ ماضی کی تمام نسلوں کی رواےات زندہ انسانوں کے ذہنوں مےں اےک ڈراﺅنے خواب کی طرح بسی ہوتی ہےں اور جب وہ خود اور حالات مےں انقلابی تبدےلی لاتے ہےں اور کچھ نےا تخلےق کرتے ہےں جو ماضی مےں نہےں ہوا ہوتا، ےہی وہ انقلابی کےفےت کے حالات ہوتے ہےں۔ جب وہ ماضی کی طاقتوں کو بروئے کار لاتے ہےں اور ماضی کے نام، نغمے اور لباس نئے انداز مےں زندہ کرتے ہےں تاکہ عالمی تارےخ کو تبدےل کرنے کےلئے بر سر پےکار ہوسکےں۔” ولادےمےر لےنن نے کہا تھا کہ”سرماےہ دارانہ جمہورےت اےک دھوکہ اور فرےب ہے۔ اس مےں صرف دولت مند افراد ہی حصہ لے سکتے ہےں جبکہ محنت کش طبقے کی وسےع اکثرےت کےلئے صرف ووٹ دےنے کا حق ہے۔ولادےمےر لےنن نے اےک اور جگہ کہا تھا کہ”اگر ہم عام سوچ اور تارےخ کا مذاق نہےں اڑا رہے تو ےہ بات ےقےن سے کہی جاسکتی ہے کہ ہمےں طبقات کی موجودگی مےں "خالص جمہورےت”کا کہےں بھی نام ونشان نہےں ملے گا،ہاں البتہ ہم طبقاتی جمہورےت کی بات ضرور کرسکتے ہےں۔”خالص جمہورےت ” محنت کشوں کو بے وقوف بنانے کےلئے کسی لبرل کا کاذب اور مکارانہ فقرہ ہے۔ بلاشبہ سرماےہ دارانہ جمہورےت قرون وسطیٰ کے مقابلے مےں اےک جدےد تصور ہے مگر ےہ سرماےہ داری کے زےر اثر ہمےشہ محدود،اپاہج، تنگ نظر، جھوٹی اور منافقانہ ہے۔ گو ےہ امےروں کےلئے جنت سے کم نہےں ہے مگر ےہ محروموں اور غرےبوں کےلئے اےک پھندہ، اےک لعنت اور اےک دھوکہ ہے ۔ ” حضرت ابوبکر صدےق ؓ خلےفہ بنے توآپ کی تنخواہ کا سوال پےش ہوا ۔ ©” آپ ؓ نے فرماےا کہ مدےنہ مےںاےک مزدور کو جو ےومےہ اجرت دی جاتی ہے، اتنی ہی مےرے لےے مقرر کرےں۔