پاکستان کی جمہوری اور انتخابی سیاست کی تاریخ سے اگر پردہ اٹھا لیا جائے تو اس کے تلخ حقائق اور تاریک ماضی کے ماتھے پر اتنے ضرب کاری نظر آئیں گی، کہ ایک باشعور اور احساس رکھنے والا انسان بے اختیار روئے بغیر نہیں رہ سکے گا! واقعہ یہ ہے کہ جب پاکستان بنا تو اقتدار کے حبس مارے سیاسی زعما اور مقتدر حلقے پہلے دن سے نظریہ پاکستان بھول کر حصول اقتدار کے لئے مدہوش بن کر رہ گئے۔ جس کا اثر یہ پڑا کہ آزادی کے بعد، ابتدائی نو سالہ دور میں سیاسی زعما ملک کیلئے ایک متفقہ دستور نہ بنا سکے۔ جب سابق وزیراعظم محمد علی نے 1956 کا دستور قانون ساز اسمبلی سے متفقہ طور پر منظور کرا کےنافذ کیا، تو بد قسمتی سے اس متفقہ دستور کو جنرل ایوب خان نے 1958 کے مارشل لا کے نفاذ کے تحت اپنے پاں روند ڈالا۔ اس نے 1962 میں ایک صدارتی طرز حکومت پر مبنی آمرانہ دستور بنالیا۔ جس میں اختیارات کا مرکز صدر قرار دیا گیا۔ کیونکہ صدارت کے عہدے پر ایوب خان خود براجمان تھے۔ آئین میں ایوب خان نے ملک کا سرکاری نام "اسلامی جمہوریہ پاکستان” کی جگہ صرف "جمہوریہ پاکستان” رکھ لیا۔ دانستہ طور پر لفظ "اسلامی” کو دستور سے حذف کیا۔ جس سے ملک کی اسلامی شناخت اور جمہوری اقدار کا ڈھانچہ کھوکھلا ہو کر رہ گیا۔ تاہم، ملک گیر عوامی احتجاج اور پبلک پریشر کی وجہ سے ایوب خان نے لفظ "اسلامی” کو دوبارہ دستور میں شامل آرٹیکل ون کا حصہ بنا دیا۔ البتہ اس میں دو رائے نہیں کہ پاکستان کے ابتدائی دور سے سیاسی زعما اور مقتدر حلقے سیاست اور حکمرانی میں مذہبی بالادستی قائم کرنے کیلئے تیار نہیں تھے۔ البتہ ایوب خان کے دور حکومت میں اتنا ضرور ہوا کہ ملکی معیشت میں بہت حد تک بہتری آگئی تھی۔ کیونکہ ایوب خان نے معاشی ترقی کیلئے داخلی اور خارجی اقدامات اٹھائیں۔ 1965 میں پاکستان اور بھارت کی جنگ کے بعد، کئی وجوہات کی بنیاد پر ایوب خان عوام میں اپنا مثبت امیج برقرار نہ رکھ سکا۔ جس سے اس کی قومی پذیرائی میں کمی واقع ہوتی رہی، اور اس کے خلاف ملک گیر احتجاج کا سلسلہ چل پڑا۔ تاہم ان حالات کے پیش نظر اور صحت کی خرابی کی وجہ سے ایوب خان نے 1969 میں اقتدار جنرل یحیی کو منتقل کیا- یحیی خان کے مختصر دور میں ملک میں آگ اور بڑک گئی۔ انہوں نے ان نازک حالات میں قومی زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے نمک چھڑکنے کا کردار ادا کیا۔ بہر حال ان ناسازگار حالات کا ادراک کرتے ہوئے یحیی خان نے مجبورا 1970 میں عام انتخابات کا اعلان کیا۔ چنانچہ عام تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ سن ستر کے انتخابات شفاف تھیں۔ لیکن اس بات کی حقیقت کے ساتھ کتنا تعلق ہے یہ جاننا بھی ضروری ہے۔ البتہ سن ستر کے انتخابات میں اتنا بڑا دھماکہ ضرور ہوا کہ انتخابات کا بم پھٹنے سے لختِ جگر پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ اور اس کا زخم اتنا گہرا تھا جس کی تلافی آج تک نہ ہوسکی۔ کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو اقتدار کے حبس سے مجبور تھے، انہوں نے یہ ناگوارا سمجھا کہ عوام کے منتخب نمائندہ مجیب الرحمن کو اقتدار منتقل کر دیں۔ بہر حال ملک میں اسٹبلشمنٹ اور سیاستدانوں کے درمیان زخم آشناءاور ڈانڈا مینڈی کا دورہ چلتا رہا اور اس کا بھاری نزلہ عوام پر گرتا چلا۔ چنانچہ ان نامساعد اور حوصلہ شکن ماحول میں ایک دفعہ پھر مارشل لا اور جمہوریت دو موسموں کا دور شروع ہو گیا۔ جس سے 1977 میں جنرل ضیا الحق مرحوم برآمد ہوئے۔ ضیا الحق مرحوم نے بھی مروجہ فوجی آمرانہ اقدار کا خیال رکھتے ہوئے سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی۔ مرد مجاہد خود حزب اقتدار پر 1988 تک قابض رہے اور تب تک حزب اختلاف کو چھٹی دے دی۔ اگر چہ ضیا الحق نے بارہ سالہ طویل دور حکومت میں بہت قابل تحسین اصلاحات بھی کئے۔ ان کی مثبت اقدامات کو میں ذاتی طور پر پسند کرتا ہوں۔ لیکن مجموعی طور پر، میں کسی بھی آمرانہ طرزِ حکومت، آمرانہ طرزِ عمل اور آمرانہ طرزِ نگاہ کی مخالف ہوں۔ میں شورائی نظام حکومت کا قائل ہوں، جس میں ریاست اور حکمرانی کے تمام معاملات اہل الرائے کی باہمی مشاورت سے طے ہوتے ہیں۔ چنانچہ یہی اللہ تعالی کا حکم ہے اور دین کا اصل منہج بھی۔ 1988 میں ضیا الحق کی شہادت کے بعد، پھر سے جمہوری دوڑ میں حکومتیں گرتیں سنبھلتی، گرتیں سنبھلتی اپنی آخری سانس کھینچ کر مشرف کے مارشل لا تک پہنچ گئیں۔ ایک دفعہ پھر مارشل لا کا جھونکا ملک کو لگا۔ جنرل پرویز مشرف نے 1999 میں حزب اقتدار پر حملہ کیا، جس سے ملک جھونکا جھونک دلدل میں دھنس گیا۔ مشرف 2008 تک اقتدار کے لہلہاتے ہوئے فصل پر موج کرتا رہا۔ شاید یہ بات غلط نہ ہوگی اگر میں کہوں کہ "پرویز مشرف کا دورِ حکومت تاریخ کا وہ تاریک دور رہا جس میں مشرف نے بدامنی، دہشت گردی، ظلم اور ناانصافی کا بیج بویا اور انتہا تک پہنچ گیا” شاید سو سال بعد اگر اہل علم پرویز مشرف کے دور پر تبصرے یا تصانیف لکھیں گے تو اس دور کو "The dark age of the history of Pakistan”کے نام سے یاد کر ینگے۔ 2008 کے الیکشن سے لیکر 2018 کے عام انتخابات تک نام نہاد انتخابی سیاست کا دور دورے تو ضرور دیکھنے کو ملے، لیکن الیکشن میں پارٹی جیتوانی اور پھر اسی پارٹی کو حکومت دلوانے میں اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ اور ساتھ ضرور رہا۔ جو کہ آج تک زندہ جاوید ہے! عام انتخابات میں چند دن باقی رہ گئے ہیں۔ زمہ دار اور مثر اداروں کی پہچان اور علامت یہ ہے کہ وہ آئینی دائرہ کار میں رہ کر کام کرنے کیلئے پر عزم رہیں۔ کبھی اپنے آئینی دائرہ اختیار سے باہر نکلنے کی کوشش نہ کریں۔ اس کو پائیدار اداریت کہتے ہیں یعنی اصولوں سے وابستگی۔ امید ہے کہ تمام ادارے آزادانہ انتخابات میں کردار ادا کریں گے۔ عوام سوچ سمجھ کر ایسی جماعتوں اور نمائندوں کو ووٹ اور سپورٹ دیں گے جن میں قومی رفاہ عامہ کی اہلیت موجود ہو۔