کالم

جمہوریت کے نام پر انتشار!

اس وقت ملک بدترین سیاسی بحران کا شکار ہے اور اس انتشار نے ملک کو بازیچہ ااطفال بنا دیا ہے چند سیاست دان یہ سمجھتے ہیں گویا یہ ملک ان کی جاگیر ہے اور عوام ان کے غلام ۔ المیہ ہمارا یہ ہے کہ اگر کسی جگہ کلاس فور بھی بھرتی ہوتا ہے تو اس کیلئے تعلیم کی شرط ہے مگر قومی سیاست میں حصہ لینے والوں کیلئے تعلیم کی کوئی شرط نہیں بس پیسہ اور دولت کی بنیاد پرنسیاست ہوتی ہے ۔پا کستانی سیاسی تاریخ کی یہ بدقسمتی ہے کہ حقیقی قومی لیڈر شپ نہیں اُبھر سکی، موجودہ سیاسی نظام نے کھلونوں کی طرح سیاسی لیڈروں کو جنم دیا ہے اور ان کھلونوں ملک کو کھلواڑ بنادیا ہے۔ مورثی سیاست کی اجارہ داری ہے اور جب ان اجارہ داروں کو چیلنج کیا جاتا ہے تو سب مسلط عناصر تمام اختلافات کو بھلا کر اکھٹے ہو جاتے ہیںاور چیلنج کرنے والوں کو غصے اور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہماری سیاسی جماعتیںجمہوریت کا دعوی کرتی ہیں خودنہ ان کی پارٹیوں میں جمہوریت ہے اور نہ ہی ان کے اپنے رویے جمہوری ہیں، بس چند خاندانوں کی اجارہ داری ہے بلکہ کچھ پارٹیاں تو افراد کے کے حرف اول کے نام پہ رجسٹرڈ ہیں اور جمہوریت سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کا مشغلہ اور پیدا گیری کا ذریعہ ہے۔ سیاست دان خود منصوبہ سازوں کے ساتھ مل کر اپنے طبقاتی مفادات کی خاطر کئی بار جمہوریت کو اپنے ہاتھوں قتل کرچکے ہیں۔اور جب بھی جمہوریت کے نام پر انتشار ہوتا ہے تو نقصان عوام کا ہوتا ہے۔ کبھی ہم نے نہیں دیکھا ہے کہ ہمارے سیاست دانوں مل بیٹھ کر عوام اور قوم کے بارے لائیحہ عمل طے کیا ہوں اور یہ سب ملک میں قیادت کے بحران کا نتیجہ ہے اور ملک کے سیاسی نظام کو بازیچہ اطفال بنا دیا گیا ہے اور سیاسی میدان کا درجہ حرارت وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جا رہا ہے اور سیاست دان آپس میں لڑ رہے ہیں، قومی مفاد کو بھی داﺅ پر لگا دیا ہے یہاں تک کہ اداروں کی ساکھ بھی مجروح ہو رہی ہے جو کسی المیہ سے کم نہیں ہے۔ نظام وہی ہے مگر اقتدار کے حوالے سے ایک پارٹی کی جگہ دوسری کئی پارٹیوں نے اس کی جگہ سنبھال لی ہے۔کہا جاتا ہے کہ اپوزیشن جمہوریت کا حسن ہے مگر اس وقت جو اپوزیشن موجود ہے میڈیا پہ اس کا خوب چرچا ہے۔ قومی اسمبلی میں اکثریتی جماعت باہر ہوچکی ہے اور کئی جماعتوں کا مجموعہ بر سر اقتدار ہے۔ انھیں جمہوریت صرف اس وقت یاد آتی ہے جب انھیں اقتدار سے باہر کردیا جاتا ہے۔ ہمارے سیاست دان خود حقیقی جمہوریت نہیں چاہتے۔ ان کے غیر حقیقی کردار کے سبب قوم ہمیشہ سے حقیقی جمہوریت کے ثمرات سے محروم رہی ہے۔ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا یہ تبدیلی اقتدارعوامی مفاد میں ہے یا اس تبدیلی سے صورتِ حال پہلے سے بھی زیادہ گھمبیر ہوچکی ہے،؟ جب سے ہمیں یاد پڑتا ہے یہ سنتے چلے آرہے ہیں کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے لیکن اس ملک کو نازک حال تک پہنچانے والے یہ حکمران ہیں جو باریاں بدلتے ہیں۔ آنے والی حکومت سابقہ حکومت پرمہنگائی کا الزام لگاتی ہے ۔ عوام یہ بھی سوال کر رہے ہیں کہ اگر سابقہ حکومت نے اگر مہنگائی کی بارودی سرنگیں بچھائی تھیں تو کیاموجودہ حکومت عوام پر مہنگائی کی کارپٹ بمباری نہیں کر رہی ہے؟۔جب بھی سیاسی تبدیلی ہوتی ہے تو سوالات کا کا در کھولا جاتاہے کہ پاکستان میں حکومتوں کی تبدیلیاں پاکستانی عوام کرتے ہیں یا امریکہ؟ اور کیا امریکہ پاکستان کے اندرونی اور بیرونی معاملات پر اثرانداز ہوتا ہے یاصرف امریکہ مخالف کارڈ استعمال کیا جا رہا ہے؟ اور کیا یہ حقیقت ہے کہ امریکہ اپنی ناپسندیدہ حکومتوں کو ہٹاکر اپنے کٹھ پتلی حکمرانوں کو مسندِ اقتدار پر بٹھاتا ہے؟۔بھر حال یہ ریکارڈ پر ہے کہ جب 1956ءمیں مصر کے صدر جمال عبدالناصر نے نہر سوئز کو نیشنلائز کرنے کا فیصلہ کیا اور اس سے بین الاقوامی تنازعہ پیدا ہوا تو اس وقت کے وزیراعظم حسین شہید سہروردی سے جب پوچھا گیا کہ مسلمان ملک کے بجائے آپ نے برطانیہ کا ساتھ کیوں دیاتو انھوں نے تاریخی جوابی جملے ادا کئے کہ ”مسلم ممالک سے اتحاد کا ہمیں کیا فائدہ ہوگا؟ ہ تو صفر جمع صفر برابر صفر والی بات ہے“۔ بھر حال موجودہ سیاسی ڈھانچے میں جھوٹ اور سچ میں تمیز اور کھوٹے اور کھرے کی پہچان مشکل ہے پچہتربرس گزرنے کے باوجود عوام کو آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ آخر ہمارا ملکی مفاد ہے کیا ہے؟ ان حکمرانوں نے ملک کا جو حشر کیا وہ ہم سب کے سامنے ہے۔جھوٹا کون ہے اور سچا کون ہے؟ اور کھوٹے اور کھرے میں فرق کیا ہے عوام کیلئے یہ سمجھنا مشکل ہے۔ سیاست کے اس کھیل کو جمہوریت کا عنوان دیا گیا ہے۔ عوام کو آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ آخر ہمارا ملکی مفاد ہے کیا ہے؟ ۔ہمارا ملک نظریاتی کشمکش سے دوچار ہے ایک طرف اس نظام کی بقا کی بات کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ نظام کو خطرہ ہے اور کبھی کبھی کہا جاتا ہے کہ کہ یہ نظام کرپٹ ہے ملک کے نظام کو چلانے والوں کے متعدد چہرے ہیں ہر چہرے کی جداگانہ شناخت ہے۔ اور اس نظام کے سارے ڈانڈے کیپٹل ازم سے ملتے ہیں جسے میکاﺅلی، ایڈم اسمیتھ اور لارڈ میکالے نے تشکیل کیا ہے ۔ اقتدار اور حکومت کو چند افراد تک محدود رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے ، کمزورکی آواز دبائی جارہی ہے ، اور غریب کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی ہوتی ہے ، کرسی اقتدار پر بیٹھے لوگوں کو یہ منظور نہیں ہے کہ ان کے طریقہ کار پر کوئی سوال اٹھاسکے ، ان سے کوئی سوال کرنے کی جرات کرسکے ان کے نظام کے خلاف آواز بلند کرسکے ۔غریبوں اور امیروں کے درمیان خط امیتاز قائم ہے، علاقائی اور نسلی عصبیت کو قابل فخر بنایا گیا ہے۔ دیکھا جائے تویہ نظام شرمناک بھی ہے اور انسانیت سوزبھی ، یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں غریبوں کیلئے کوئی مقام نہیں ہوتا ہے، اس نظام میں حکومت اور اقتدار میں عوام کی شراکت نہیں ہوتی سب سرمایہ کا کھیل ہوتا ہے البتہ عوام کے نام پر پروپگنڈہ بہت ہوتا ہے ، دولت پر چند افراد کا قبضہ ہوتا ہے، مورثی سیاست کی وجہ سے شرافت اور عزت کا کاپی رائٹ مخصوص افراد کو دیا جاتا ہے ، چند مخصوص افراد کے سوا کسی اور انسان کو یہ اختیار نہیں ہوتا کہ وہ شرافت اور عزت دار کہلا سکے یا اس طرح کی کسی بھی خصوصیت سے وہ قریب ہوسکے، اسی بنا پر چند افراد کو پروٹوکول دیا جاتا ہے۔حالانکہ انسانیت ، شرافت ، دولت ، اقتدار اور حکومت کسی کی جاگیر نہیں ہے ،یہ چیزیں صرف چند انسان کیلئے مخصوص نہیں ہے ، پوری انسانیت لائق احترام ہے ،تمام بنی آدم کو عزت واحترام سے جینے کا حق ہے۔ مگر یہاں تو حق کا ملنا دور کی بات یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ آخر ہمارا قومی مفاد کیا ہے؟ اور آخر جمہوریت کے نام پر انتشار کب تک؟ ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے