کالم

جمہوریت ہے کیا

یوں تو جمہوریت ایک ایسے نظامِ حکومت کو کہا جاتا ہے جس میں اقتدار عوام کے ہاتھ میں ہوتا ہے یعنی جس میں عوام اپنے نمائندے خود چنتے ہیں جو ان کی مرضی اور مفاد کے مطابق ملک کو چلاتے ہیں۔ جس میں عوام کی حاکمیت ہوتی ہے اور حکومت کا اختیار عوام سے آتا ہے۔ لوگ انتخابات کے ذریعے اپنے نمائندے چنتے ہیں۔ جس سے آزادانہ صاف اور شفاف انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے جس میں ہر بالغ شہری کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہوتا ہے۔ جمہوریت میں قانون کی بالادستی ہوتی ہے سب لوگ قانون کے سامنے برابر ہوتے ہیں، خواہ وہ عام شہری ہو یا حکمران اظہارِ رائے کی آزادی ہوتی ہے۔ جمہوریت میں لوگ آزاد ہوتے ہیں وہ حکومت کی تعریف یا تنقید کر سکتے ہیں ۔جس سے جمہوریت میں قلم اور میڈیا آزاد ہوتا ہے۔جمہوریت وہ نظام حکومت ہے جہاں "عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے، عوام کیلئے” ہوتی ہے۔دنیا کے کئی ممالک میں جمہوریت کا نظام رائج ہے، کچھ ممالک میں جمہوریت مضبوط اور مستحکم ہے، جبکہ کچھ ملکوں میں نام کی جمہوریت ہے۔ درحقیقت طاقت چند ہاتھوں میں ہوتی ہے ۔ امریکہ میں صدارتی جمہوریت ہے، جہاں صدر اور کانگریس کا انتخاب عوام کرتے ہیں ۔ وہاں آزاد میڈیا اور عدلیہ موجود ہے ۔ اسی طرح برطانیہ میں پارلیمانی جمہوریت ہے۔ جہاں بادشاہت رسمی ہے اور حکومت عوامی ووٹ سے منتخب ہوتی ہے۔ کینیڈا میں ایک مستحکم جمہوریت ہے جس میں بنیادی حقوق آزادیِ اظہار اور آزاد عدلیہ موجود ہے۔ اسی طرح آسٹریلیا میں مکمل جمہوری نظام ہے ۔ آزاد انتخابات اور قانون کی حکمرانی ہے۔ جرمن میں پارلیمانی جمہوریت ہے جہاں آئین کی پاسداری اور انسانی حقوق کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ ناروے، سویڈن، فن لینڈ، ڈنمارک ۔یہ ممالک دنیا کی بہترین جمہوریتوں میں شمار ہوتے ہیں جہاں عوامی فلاح اور شفاف حکومت کا نظام ہے۔ جزوی یا کمزور جمہوریت والے ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔ کہا جاتا ہے یہاں جمہوری نظام تو موجود ہے لیکن چند دیگر ادارے اکثر حکومت پر اثرانداز رہتے ہیں ۔ یہاں کبھی جمہوریت کبھی امریت کا چراغ جلتا بجھتا رہتا ہے اس لئے یہاں جمہوریت کمزور نظر آتی ہے ۔ بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال میں انتخابات ہوتے ہیں مگر سیاسی عدم استحکام اور بدعنوانی کے مسائل ہیں ۔ فلپائن انڈونیشیا میں جمہوری نظام تو موجود ہے لیکن بعض اوقات ہماری طرح آمریت یا مارشل لا کا اثر رہتا ہے۔ جمہوریت نہ ہونے والے یا آمریت والے ممالک ہیں۔ چین میں مکمل آمرانہ نظام ہے، کوئی آزاد انتخابات نہیں ہوتے۔ اسی طرح سعودی عرب میں بادشاہی نظام ہے جہاں عوام کو ووٹ کا حق حاصل نہیں۔ شمالی کوریا میں سخت آمریت ہے وہاں کوئی سیاسی آزادی نہیں۔ ایران میں مخلوط نظام ہے، لیکن اصل طاقت غیر منتخب مذہبی قیادت کے ہاتھ میں ہے۔ بھارت میں امریت نہیں مگر جمہوریت بھی نہیں ۔ پاکستان کی تو کیا بات ہے کبھی جمہوریت اور کبھی امریت آتی جاتی رہتی ہے۔ آمریت لانے والا کبھی جیل میں نہیں جاتا مگر جمہوری دور کے حکمران جیل میں جاتے ضرور ہیں۔ پھانسی پر بھی چڑھ جاتے ہیں۔ آج بھی آمریت مکس جمہوریت سے آنیوالا وزیراعظم عمران خان بیگم سمیت جیل میں ہے ۔ اس سے پہلے والے وزیراعظم میاں نواز شریف میاں شہباز شریف، ان کے بچے مریم نواز سمیت جیلوں میں رہ چکے ہیں اور آج پھر اقتدار میں ہیں۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم جیلوں میں رہے اور پھانسی دے کر شہید ہوئے اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو کی بیگم نصرت بھٹو جیلوں میں رہی، بیٹی سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو جلا وطن رہی اور دن دیہاڑے لیاقت باغ راولپنڈی میں دہشت گردی کا نشانہ بنی اور شہید ہو گئی۔ذوالفقار علی بھٹو کے دونوں بیٹوں کو قتلِ کیا گیا۔ آج کے صدر آصف علی زرداری پاکستان کے نیلسن منڈیلا نے سب سے لمبی جیل کاٹی، جیل میں ان کی زبان کاٹنے کی کوشش بھی ہوئی۔تھی مگر ہمت نہیں ہاری اور آج پھر صدر پاکستان ہیں ۔ اپنے اکلوتے بیٹے بلاول بھٹو زرداری اور بیٹی کو سیاسی میدان میں اتار چکے ہیں۔ اب بلاول ایک میچور لیڈر بن چکا ہے ۔ پاکستان میں سیاسی سفر بڑا کھٹن ہے۔ موت سے لڑنا پڑتا ہے۔ قائد اعظم کے سفر کو ہی دیکھ لیں۔ کس طرح ان کا سفر آخرت ہوتا ہے۔ اپ کی اکلوتی بہن فاطمہ جناح کا سیاسی سفر بھی سب کے سامنے ہے۔بھائی کے ساتھ شانہ بشانہ چلتی رہی محترمہ کے الیکشن میں کس کس نے ان کے راستے میں اپنی جیت کے لیے کیا کچھ نہیں کیا۔ پھر کس طرح ان کی موت واقع ہوئی۔ آج بھی سابق وزیر اعظم عمران خان اور بیگم بشری عمران جیل میں ہیں۔ عمران کے بچے برطانیہ میں اپنی ماں کے پاس ہیں اور بشریٰ بی بی کے بچے اپنے باپ کے پاس ہیں۔ ان دونوں کے بچے عاقل بالغ ہیں۔ باپ جب وزیراعظم تھا ماں خاتون اول تھیں تو یہ ان کے بچے سیروتفریح کیلئے ماں کے بغیر باپ کے بغیر بچے آتے جاتے تھے۔ مگر جب سے بچوں کے ماں باپ جیل میں ہیں ماں کے بچے ماں سے ملنے آ جاتے ہیں مگر باپ کے بچے باپ سے جیل میں ملنے نہیں آئے ۔ فون پر ہیلو ہائے کرتے ہیں لیکن اب خبر سنائی دے رہی ہے کہ باپ کے بچے اپنے باپ عمران خان کی رہائی کیلیے پہلے امریکا جائیں گے۔ شائد یہ امریکا والوں سے پوچھنے جائیں گے کہ ہمارا باپ تو کھلاڑی تھا آپ نے اسے سیاست میں ڈالا وزیراعظم بنوایا ۔ اب اسے جیل سے بھی تو باہر نکالو ۔ کہا جا رہا ہے عمران خان کے یہ دونوں بچے سلیمان اور قاسم امریکا کے بعد پھر پاکستان آئیں گے۔ ان کے پاس ابھی تک صرف برطانیہ کی نیشنلٹی ہے۔ لہٰذا پاکستان میں وزٹ ویزے پر آئیں گے پھر واپس چلے جائیں گے ۔ ان کی والدہ جمائما خان بھی بچوں کے ابو سے نرم گوشہ رکھتی ہے۔اور ابو بھی بچوں کی ماں سینرم گوشہ رکھتے ہیں ۔اس لیے کہ لندن کے مہر کیلئے جمائما خان کا بھائی جب امیدوار تھا اور اس کے مقابلے میں ایک پاکستانی نژاد بھی امیدوار کھڑا تھا مگر عمران خان نے نہ صرف یہودی سالے کا ساتھ دیا بلکہ کمپین میں حصہ لیا لیکن سالا پھر بھی ہار گیا۔ اب جب جمائما خان نے دیکھ لیا ہے کہ ٹرمپ کے آنے سے بھی رہاء نہیں ہو رہی تو پریشان ہے ۔لہٰذا بچوں کو سیاسی راستے پر روانہ کر رہی ہے ۔ اگر سیاست دان بنانا ہے تو ایک بار پھر ماضی کی طرف ضرور جھانک لیں کہ پاکستان کے بلیڈران کو کن کن خونی راستوں سے گزرنا پڑتا ہے۔جمہوریت میں اقتدار کے بعد جیل جانا لازم ہے۔ یہاں کا نظام اگر صدارتی ہو جائے تو بہتر ہے اس جمہوری نظام سے جس میں ہر وزیر اعظم کو جیل کی ہوا کھانی پڑتی ہے جب ہم صدارتی نظام کی بات کرتے ہیں تو ہمیں ایوب خان، ضیا الحق اور پرویز مشرف کے صدارتی نظام کا حوالہ دیا جاتا ہے ۔ انکا یہ کوئی صدارتی نظام نہیں تھا۔اسے مارشل لا کا نظام تو ہم اسے کہہ سکتے ہیں صدارتی نظام نہیں۔جمہوری نظام جو چل رہا ہے اس سے کئی درجے صدارتی نظام بہتر ہے۔ پاکستانی قوم عدلیہ کے دروازے پر دستک دے چکی ہے کہ یہاں صدارتی نظام لایا جائے مگر وہ نہیں مانے۔اب اسی نظام پر گزارا کرنا ہوگا۔ اسمبلی سے قانون پاس کرائیں کہ کسی وزیراعظم، صدر، چیرمین سینٹ سپیکر قومی اسمبلی ، اگر انہیں گرفتار کرنا لازم ہے تو انہیں ان کے گھر پر قید رکھا جائے ۔ اس گھر کی سیکیورٹی کیمرون سے نگرانی کی جایا کرے۔ اگر ایسے ہی انہیں جیلوں میں ذلیل کرتے رہے گیتو عوام یہ عہدے لینے سے منہ پھیر لے گی۔ان کا نہیں تو ان کے عہدوں کا ہی لحاظ رکھا جائے۔ بائیس گریڈ والوں کو دوسرے ممالک میں شفٹ ہو جانے پر انکی پنشن روک لی جائے۔ اب تو دو تہائی اکثریت سے ایسے قانون بنا سکتے ہیں۔بنا کر خود بھی فائدہ اٹھائیں اور قوم کو بھی فائدہ پہنچائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے