کالم

جوں جوں دوا کی مرض بڑھتا گیا

جوں جوں دوا کی مرض بڑھتا گیا یہ محاورہ مجھے حکومتی پالیسوں کے بعد یاد آیا کیونکہ پنجاب میں سموگ سے بچاﺅ کے لیے سکول بن ،کالج بند ،پارکس بند ،دفاتر آدھے بند اور لوگوں کے گلے بھی بند ہونا شروع ہوگئے ہیںپاکستان میں اسموگ اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ خلا سے بھی نظر آنے لگی ہے شدید دھند اور اسموگ کی وجہ سے فلائٹ آپریشن متاثر جبکہ موٹرویز کو بھی مختلف مقامات پر ٹریفک کیلئے بند کردیا گیاجسکے بعد غریب اور مزدور پیشہ افراد کی روزی روٹی بھی بند ہوچکی ہے کیونکہ سموگ نے شہریوں کی زندگی سے کھیلنا شروع کردیا ہے خاص کر پنجاب کے باسیوں کو جو خطرات لاحق ہیں اس حوالہ سے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال ( یونیسیف) کی رپورٹ انتہائی خطرناک ہے جس میں انکا کہنا ہے کہ پنجاب میں فضائی آلودگی کے پیش نظر 1 کروڑ 10 لاکھ بچوں کی زندگیاں خطرے میں ہے جبکہ پاکستان میں فضائی آلودگی کی اس لہر سے قبل 12 فیصد بچوں کی اموات فضائی آلودگی کی وجہ سے ہوتی ہیں اور اب اسموگ کی اس لہر سے بچے اور حاملہ خواتین متاثر ہوسکتے ہیں خاص کرکم قوت مدافعت کے باعث اسموگ سے بچے جلدی متاثر ہوتے ہیں اس وقت پنجاب اور خیبرپختونخوا میں زہریلے دھویں کے باعث فضاﺅں میں دھندلا پن محسوس ہونے لگا آلودہ فضا نے سانس لینا بھی محال بنا دیا دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں ایک مرتبہ پھر لاہور پہلے نمبر پر ہے شہر میں سموگ کی مجموعی شرح 968 تک جا پہنچی ہے فضائی آلودگی میں ملتان دوسرے نمبر پر ہے جہاں 806 ہے اسی طرح پشاور 258، فیصل آباد 252 اور اسلام آباد میں اے کیو آئی 253 ریکارڈ کیا گیا ہے سموگ کے باعث خشک کھانسی، سانس میں دشواری، بچوں میں نمونیا اور چیسٹ انفیکشن میں اضافہ ہو رہا ہے پچھلے ایک ہفتے میں لاہور کے 5 بڑے سرکاری ہسپتالوں میں 35 ہزار سے زائد مریض رپورٹ ہوئے محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ 14 نومبر سے مغربی ہواﺅں کا سلسلہ ملک میں داخل ہوگا ہلکے بادل آئے تو مصنوعی بارش کرائی جائے گی لیکن تب تک سموگ کے باعث لاہور، ملتان، فیصل آباد اور گوجرانوالہ میں دکانیں، شاپنگ مالز، مارکیٹیں رات 8 بجے بندہونے کی وجہ سے چھوٹے دوکانداروں کا بھی کباڑہ ہو جائے گا حکومت نے ریسٹورنٹس کی آﺅٹ ڈور ڈائننگ، آﺅٹ ڈور گیمز، نمائشوں اور تقریبات پر بھی 11 نومبر سے 17 نومبر تک پابندی عائد کر دی ہے بے قابو ہوتی ہوئی سموگ کی وجہ سے 5 ڈویژنز میں سکول بھی بند کر دیئے گئے ہمارے ہمسایہ ممالک میں بھی سموگ ہے لیکن انہوں نے موثر حکمت عملی اس صورتحال پر قابو پالیا ہے پاکستان میں فضائی معیار کے ماہرین نے چینی ایئر کوالٹی ایکشن پلان کی تعریف کرتے ہوئے اسے طویل مدتی عملدرآمد کے لیے موثر ترین حکمت عملی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اگر اس منصوبے پر صحیح طریقے سے عمل درآمد کیا گیا تو صوبہ پنجاب کے بڑے شہروں میں سموگ کی سطح میں نمایاں کمی آسکتی ہے لاہور ہائی کورٹ نے بھی اسموگ کی بنیادی وجہ ہیوی ٹریفک کی نشاندہی کی تھی جبکہ گندم کی فصل کے لیے اپنے کھیتوں کو جلدی سے تیار کرنے کے لیے بہت سے کسان چاول کی کٹائی کے بعد پودوں کا بچا ہوا ملبہ جلا دیتے ہیں اس عمل کو دھان کی پرالی جلانے کے نام سے جانا جاتا ہے ہمارے کسان ہر سال پنجاب میں چاول کی کٹائی کے بعد اکتوبر اور نومبر میں تقریبا 7 سے 8 ملین میٹرک ٹن بچ جانے والے پودوں کے ملبے کو جلاتے ہیں جسکی وجہ سے اس وقت لاہور، ملتان اور فیصل آباد سمیت پنجاب کے کئی بڑے شہروں میں اسموگ ناگزیر ہے چین کوبھی اسی طرح کی صورتحال کا سامنا تھا جہاں انہیں تیزی سے صنعت کاری، شہرکاری اور توانائی کے بنیادی ذریعہ کے طور پر کوئلے پر انحصار کی وجہ سے برسوں اسی طرح کی فضائی آلودگی کا سامنا کرنا پڑ الیکن حالیہ برسوں چین نے سخت پالیسیوں اور تکنیکی جدت طرازی کے امتزاج کے ذریعے فضائی آلودگی کو کم کرنے میں اہم پیش رفت کی چین کے سخت پالیسی اقدامات کی وجہ سے آلودگی میں تیزی سے کمی آئی پاکستان میں بھی اسی طرح کے اقدامات کا اطلاق طویل مدت میں فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے ہمیں چین کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے چینی حکومت نے سموگ سے چھٹکارے کے لیے جہاں بہت سے اقامات کیے وہیں پر اپنی عوام کے لیے سستی الیکٹرک گاڑیاں، بشمول اسکوٹروغیرہ فراہم کرکے الیکٹرک ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر بنایا جسکے بعد وہاں فضائی آلودگی کے مسئلے کو حل کرلیا گیا پاکستان نے 2021 میں قومی کلین ایئر پالیسی(این سی اے پی)تیار کی اور 2023 میں اس پر نظر ثانی کی جبکہ این سی اے پی کے نفاذ کے لئے صوبوں کے بھی اپنے منصوبے ہیں مثال کے طور پر پنجاب نے 2023 میں کلین ایئر ایکشن پلان تیار کیاجسکا مقصد قومی اور صوبائی پالیسیوں کا مقصد اخراج کے معیارات مقرر کرکے صاف توانائی کے وسائل کو فروغ دے کر اور نگرانی کے نظام کو وسعت دے کر پاکستان میں ہوا کے معیار کو بہتر بنانا ہے لیکن ان کاموں پر آج تک توجہ نہیں دی گئی اگر کہیں حکومت نے کوشش بھی کی تو اسے عوام نے بھر پور طریقے سے ناکام بنادیا این سی اے پی کے موثر نفاذ کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول حکومت، میڈیا، تحقیقی اداروں، سول سوسائٹی، ایڈوکیسی گروپس اور سب سے اہم عوام کی فعال شرکت کی ضرورت ہوگی تب جاکر کہیں ہم اس سموگ سے جان چھڑوا سکیں گے اگر ایسا نہ ہوا تو پھر ہمیں سب کو بیماریوں کے استقبال کے لیے تیار رہنا ہوگا ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے