کیمبرج یونیورسٹی اور برطانوی پارلیمنٹ میں خطاب کرتے راہل گاندھی نے کہا تھا کہ بھارت میں جمہوری ڈھانچہ بری طرح ٹوٹ رہا ہے اور آر ایس ایس کی ہندو انتہا پسندی بھارت کو لے ڈوبے گی۔ اس پر ردعمل ظاہر کرتے بی جے پی کے صدر ” جے پی نڈا“ نے کہا ہے کہ ” راہل گاندھی اور کانگرس پاکستان کی زبان بول رہے ہیں“۔ ماہرین کے مطابق جے پی نڈا کا یہ بیان اپنے آپ میں ایک اعتراف نما انکشاف ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارتی پنجاب کے سابق نائب وزیر اعلیٰ سُکھ جِندر سنگھ رندھاوا نے کہا کہ جب تک بھارتیہ جنتا پارٹی اور نریندر مودی بھارت پر مسلط رہیں گے، تب تک ہندوستان زوال کی جانب ہی گامزن رہے گا۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ پلوامہ حملے کی باقاعدہ تحقیقات کرائی جائیں کیونکہ پلوامہ حملہ بھی مودی کے انتخابات جیتنے کی ایک سازش تھا اور بھارت نے خود یہ واقعہ کروایا تا کہ انتخابی عمل میں اسے ایک ایشو کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔ رندھا وا کے اس بیان پر بھارتی میڈیا میں طوفانِ برپا ہے۔ اس تناظر میں مبصرین کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے طول و عرض میں مختلف حلقوں کی جانب سے یہ اعتراف سامنے آ رہا ہے کہ نریندر مودی اور موہن بھاگوت بھارت کو ہندو راشٹر بنانے کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ رندھاوا سے قبل بھارتی صوبہ مہاراشٹر میں برسراقتدار شیو سینا بھی انکشاف کر چکی ہے کہ پلوامہ واقعہ ری پبلک بھارت چینل کے مالک ارنب گوسوامی کے فسادی ذہن کی پیداوار تھا اور اس نے نریندر مودی کو مشورہ دیا کہ اگر انھوں نے 2019 کے بھارت کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو انھیں کوئی ایسا واقعہ کرانا پڑے گا جس سے وہ بھارتی عوام کی ہمدردیاں سمیٹ سکیں۔ شیو سینا کے ترجمان ہندی اخبار سامنا کے اداریے میں لکھا گیا کہ ’پلوامہ حملہ بی جے پی کی سیاسی منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا، اس کا منصوبہ ارنب گوسوامی کے فسادی ذہن میں آیا جس میں بعد ازاں بھارتی وزارت عظمیٰ اور انٹیلی جنس اداروں کے پانچ عہدیداران بھی شامل ہو گئے۔ شیو سینا نے یہ سوال بھی کیا کہ بی جے پی کارندے مختلف معاملات پر پر شور مچا رہے ہیں مگر ارنب گوسوامی کی واٹس ایپ چیٹ بارے کوئی سوال نہیں کھڑا کیا جا رہا۔ سنجیدہ حلقوں کے مطابق بھارت میں ارنب گوسوامی کی واٹس ایپ چیٹ لیک معاملہ سیاست کا ایک اہم مدّا بن چکا ہے، کانگرس اس فیکٹر کو ہندوستانی داخلی سیاست میں واپسی کیلئے بھرپور طریقے سے استعمال کر رہی ہے۔ بھارت کے کثیر الاشاعت ہندی اخبار دینک بھاسکر میں ” پلوامہ حملے میں بھارت ملوث تو مرنے والے 40 ہندوستانی فوجیوں کا والی وارث کون ؟“ کے عنوان سے نیوز رپورٹ شائع کی گئی جو ہندوستانی خفیہ ایجنسیوں کی ”شٹ اپ“ پر کال پر کچھ دیر بعد ہی ویب سائٹ سے ہٹا لی گئی۔ اسی سلسلے میں گذشتہ روز بھارت کے کئی علاقوں میں کانگرس و دیگر علاقائی جماعتوں کے زیر اہتمام ریلیاں نکالی گئیں، ان میں بی جے پی اور آر ایس ایس کےساتھ ساتھ بھارتی فوج اور خفیہ ایجنسیوں پر بھی تنقید کی گئی کہ انھوں نے اس قدر اہم راز کو سرعام ” لیک“ کیوں کیا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ صرف سیاسی جماعتیں ہی نہیں ارنب گوسوامی معاملے پر بھارت کی بیوروکریسی اور دانشور طبقہ بھی پریشان ہے ، بیسیوں کی تعداد میں بیورو کریٹس، ادیب اور دانشور نریندر مودی کو خط لکھ کر تحقیقات کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ خط میں کہا گیا ہے کہ ” پہلے ڈس انفو لیب کی رپورٹ نے بھارت کو عالمی سطح پر نقصان پہنچایا اور پھر ارنب گوسوامی کی چیٹ لیک نے بھارت کو سفارتی محاذ پر دھچکا دیا ہے۔اس صورتحال کا جائزہ لیتے ماہرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ مودی سرکار اپنے داخلی مسائل کے بھنور سے نکلنے میں ناکام ہو رہی ہے۔ اس کے باوجود بھارت سرکار اب ماﺅنٹ ایورسٹ تک پر اپنا دعویٰ کرنے لگی ہے۔اس حوالے سے بھارت میں قومی سطح پر یہ مہم شروع کی گئی ہے کہ دنیا کی سب سے بلند چوٹی ماﺅنٹ ایورسٹ کا نام بدل کر ” رادھا ناتھ سِکدر چوٹی“ کیا جائے، یوں اس کا نام تبدیل کرانے کے بعد بھارت اس چوٹی پر بھی اپنا باضابطہ دعویٰ کر سکے۔ واضح ہو کہ بھارت اس بنیاد پر ماﺅنٹ ایورسٹ پر اپنا دعویٰ کر رہا ہے کہ 1852 میں کلکتہ سے تعلق رکھنے والے ایک بنگالی رادھا ناتھ سکدر نے ماﺅنٹ ایورسٹ کی اونچائی کی پیمائش کی تھی۔ یاد رہے کہ اس چوٹی کا نام 1830 تا 1843 ”سرویئر جنرل آف انڈیا “ رہنے والے جارج ایورسٹ کے نام پر رکھا گیا تھا۔ ماﺅنٹ ایورسٹ نیپال اور تبت کی سرحد پر واقع ہے، اس چوٹی کو نیپالی زبان میں ساگر ماتھا اور تبت میں ”چومو لومبا“ کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ اس ضمن میں بھارت کی جانب سے پہلے بھی کاوشیں کی گئی ہیں مگر نیپال اور چین ہمیشہ ان بھارتی سازشوں کو لگام ڈالتے آئے ہیں۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ رادھا ناتھ سِکدر نے اپنی جوانی میں ہی ہندو دھرم تیاگ کر عیسائیت اپنا لی تھی یوں ہندوستان کسی صورت اس چوٹی پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرنے کا اخلاقی جواز نہیں رکھتا ۔ کئی بھارتی میڈیا ہاﺅسز نے اس حوالے سے بھرپور پراپیگنڈہ مہم شروع کر دی ہے اور دہلی سرکار نے اپنے سفارتکاروں کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ عالمی سطح پر یہ فضا بنانے میں معاونت کریں کہ اس چوٹی کا نام بدل کر ”ماﺅنٹ سِکدر“ کیا جائے، یونیسکو کے پلیٹ فارم پر بھی بھارت اپنا یہ مکروہ دعویٰ پیش کرنے کیلئے ڈرافٹنگ میں مصروف ہے۔ یہ امر کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ مودی سرکار پورے ہندوستان سے مسلمانوں کا تشخص مٹانے کیلئے بھرپور توانائیاں صرف کر رہی ہے۔ اسی حوالے سے اب اترپردیش کی انتہا پسند یوگی ادتیہ نند سرکار کا ہدف رام پور میں واقع مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی ہے۔ آرایس ایس اس یونیورسٹی پر اپنا کنٹرول قائم کرنے کیلئے تمام توانائیں صرف کر رہی ہے اور اس یونیورسٹی کیلئے برسوں پہلے مختص کی گئی زمین کو واپس واگزار کروانے کا حربہ استعمال کر رہی ہے۔ اس سلسلے کی پہلی کڑی کے طور پر دو آر ایس ایس نے یو پی حکومت کے ذریعے یونیورسٹی کی ساڑھے بارہ ایکڑ زمین اپنے قبضہ میں لے لی۔ یاد رہے کہ یہ زمین ابھی تک مولانا محمد علی جوہر ٹرسٹ کے نام پر تھی۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ اترپردیس سے سابق ممبر قومی اسمبلی اعظم خان اس یونیورسٹی کے بانی اور تاحیات وائس چانسلر ہیں جنھوں نے 2006 میں اس یونیورسٹی کی بنیاد رکھی تھی اور یہ 500 ایکڑ سے زائد رقبے پر واقع ہے۔ 2012 میں اس یونیورسٹی کو بھارت کے نیشنل کمیشن برائے اقلیتی تعلیمی اداروں نے اقلیتی یعنی مسلم سٹیٹس بھی دے دیا تھا۔ اس وقت بھی یونیورسٹی میں 3500 سے زائد طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس کا نام تحریک خلاف کے اہم رہنما مولانا محمد علی جوہر کے نام پر رکھا گیا جو اسی رام پور میں پیدا ہوئے تھے۔ یونیورسٹی کی ساڑھے بارہ ایکڑ اراضی اترپردیش سرکار قبضے میں لے چکی ہے اور مزید 70 ایکڑ سے زائد اراضی آنے والے دنوں میں آر ایس ایس اپنے قبضہ میں لے لے گی۔ یوں بتدریج مودی حکومت کی جانب سے اس یونیورسٹی کو ٹیک اوور کر لیا جائے گا اور اس کے مسلم تشخص کو مکمل طور پر ختم کرنے کی کوشش کی جائیگی۔اس کے وائس چانسلر اعظم خان اور انکے صاحبزادے عبداللہ اعظم پہلے ہی یوگی حکومت کے مختلف بے بنیاد مقدمات کے تحت قید ہیں اور دونوں کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی رکنیت بھی ختم کر دی گئی ہے۔ ایسے میں عالمی برادری کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ بھارت میں انسانی اور اخلاقی اقدار کے زوال پر اپنا دھیان مرکوز کریں۔
کالم
جوہر یونیورسٹی، ماﺅنٹ ایورسٹ تا پلوامہ !
- by Daily Pakistan
- مارچ 19, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 603 Views
- 2 سال ago