کالم

جیل بھرو تحریک کا لطیفہ ،شوشہ اور شگوفہ؟

عمران خان کی جیل بھرو تحریک ایک سیاسی لطیفے سے کم نہیں۔پڑھے لکھے اور سنجیدہ لوگ عمران خان کے اضطراب اور گھمبیرتا سے لطف لے رہے ہیں کیونکہ وہ آئے دن اپنا درد کم کرنے کےلئے کوئی نہ کوئی شوشہ یا شگوفہ چھوڑتے رہتے ہیں۔ہر روز رات گئے دائیں بائیں لمبے لمبے جھنڈے لگا کر لمبی لمبی اور بے تکی تقریریں جھاڑنا ان کا محبوب مشغلہ بن چکا ہے۔انہیں دن کو چین آتا ہے اور نہ ہی رات کو قرار نصیب ہوتا ہے۔ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے نکالے جانے کے بعد وہ ہیں اور ان کی سیاسی گپیں ہیں۔سو سوالوں کا ایک سوال یہ ہے کہ اس حکمت عملی سے تحریک انصاف کے چیئرمین آخرکیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟یہ اعلان ایسے وقت میں ہوا جب وہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں جلد از جلد انتخابات کرانے کا مطالبہ داغ رہے ہیں۔ دوسری جانب ان کے سابق وفاقی وزرا فواد چوہدری اور شیخ رشید کو مختلف کیسز میں گرفتاریوں کا بھی سامنا ہے۔اس اعلان کے بعد یہ ابہام باقی ہے کہ جیل بھرو تحریک کا آغاز کیسے اور کب ہو گا ؟ایک اور سوال بھی اہم ہے کہ آیا یہ حکمت عملی تحریک انصاف کے لیے سیاسی طور پر فائدہ مند ہو گی یا نقصان دہ؟
کہنے کو تو پی ٹی آئی کے لیڈر یہی کہتے ہیں کہ جیل بھرو تحریک کے پہلے مرحلے میں ہمارے سینئر ارکان اور پارلیمانی لیڈر خود جیل جائیں گے جبکہ دوسرے فیز میں پارٹی ورکر مختلف صوبائی حلقوں سے سرینڈر کریں گے ۔ جبکہ پی ٹی آئی کے سیاسی مخالف یہ لطفیہ سن کر مسکرا دیتے ہیں کہ ایسا کہنا آسان اور کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔مریم اور نگزیب نے تو اسی دن عمران خان کے مصرح پر گرہ لگا دی تھی کہ جن لوگوں کی دودن جیل میں رہ کر آنکھیں بھر آئیں وہ جیلیں کیسے بھریں گے؟غیر جانبدار تجزیہ نگار اور منجھے رپورٹر تو یہ بھی کہتے ہیں کہ کپتان جیل جانے سے بچنے کےلئے خود تو ہر کیس میں ضمانت قبل ازگرفتاری کرا رہا ہے جبکہ دوسری جانب اپنے کارکنوں کو جیل بھرو تحریک پر اکسا رہا ہے۔ آخر یہ تضاد اور دو رنگی کیوں ہے ؟پھر سب سے اہم بات یہ بھی ہے کہ کیا کپتان واقعی جیل برداشت کر سکیں گے ؟ واقفان حال تو یہی کہتے ہیں کہ خان کےلئے چنددن بھی جیل میں رہنا ممکن نہیں ہو گا ۔ کیونکہ ان کی بودوباش،مشغلے اور شغل جیل میں پورے ہو نہیں سکتے اور وہ ایک رات بھی جیل میں نہیں کاٹ سکتے۔ پہلے عمران خان نے کہا ہم کل سے جیل بھرو تحریک کا آغاز کریں گے پھر دوسرے دن اپنی مشہور زمانہ عادت پر یو ٹرن لیتے ہوئے کہا رضاکاروں کی رجسٹریشن کے بعد جیل بھرو تحریک کی تاریخ دوں گا۔
اگر تاریخ کی تاریک گزرگاہوں سے گزریں تو پتہ چلتا ہے کہ جیل بھرو تحریک برصغیر میں سیاسی حکمت عملی کا پرانا حربہ رہا ہے ۔اس حربے کو انگریزوں کے خلاف پاکستان اور بھارت کی آزادی سے قبل مقامی طور پر آزمایا جاتا رہا۔پھر اگر حقیقت کو اور قریب سے دیکھیں تو یہ بھی علم ہوتا ہے کہ عمران خان ایک بہت بڑا رِسک لے رہے ہیں کیونکہ وہ اپنے کارکنوں کو پولیس کے حوالے کر رہے ہیں۔ پولیس جس قسم کا جسمانی اور نفسیاتی دبا ڈالتی ہے اس دوران بہت سے لوگ معافی نامہ دے کر بھاگ جاتے ہیں۔شہباز گل،فواد چودھری ، اعظم سواتی اور شیخ رشید کا رونا دھونا ٹی وی سکرینوں پر اک زمانہ دیکھ چکا ہے۔دیکھنے والوں نے دیکھا کہ کس طرح پی ٹی آئی کی بڑے بڑے لیڈر ایک دو روز کی گرفتاری کے بعد رو پڑے۔ ایسی صورت میں پی ٹی آئی کے وہ نوجوان جو ایک مخصوص اور آسائش کی زندگی گزارتے ہیں، ان کےلئے جیل میں رہنا بڑا مشکل اور کٹھن ہو گا۔ پھر وہ کیا کریں گے ؟ جیل بھرو جیسی تحریک چلانے کےلئے سخت جان لوگ درکار ہوتے ہیں جن کو دیکھ کر اور کارکنان بھی سامنے آسکیں اور گرفتاریاں دیں۔جب پی ٹی آئی کی نوجوان نسل نے فواد چودھری اور دوسروں کو روتا دیکھا ہو گا تو وہ کیا سوچتے ہوں گے ۔
اس میں کوئی کلا م نہیں کہ اپریل 2022 میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد پی ٹی آئی کے کارکنوں نے دھرنے دیے۔ مئی 2022 اور نومبر 2022میں اسلام آباد تک آزادی مارچ بھی کیا ۔لیکن ان دھرنوں اور ننھے منھے مارچوں میں ماحول رنگین اور پکنگ کا ہوتا تھا ،جبر و قہر یا پولیس کی لاٹھی و گولی کا انہیں سامنا نہیں کرنا پڑا۔اب جیل بھرو تحریک میں موسیقی،ہلہ گلہ ،ناچنا اور تھرکنا تھوڑی ہو گا کہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بھاگے بھاگے آئیں اور خوشی خوشی جیل چلے جائیں۔ عمران خان جتنا مرضی مذہب کارڈ کا استعمال کریں اور اپنی خود پسندی اور نجی مفاد کےلئے جیل بھرو تحریک کو جہا دکا نام دیں لیکن نوجوان نسل اتنی آسانی یا جلدی سے کشاں کشاں جیل جانے کےلئے آمادہ نہیں ہوگی۔جیل بھرو تحریکیں جری اور جانباز لوگ ہی چلایا کرتے ہیں جو اعلی مقصد اور ارفع مشن رکھتے ہوں۔زمان پارک کے بنکر میں بیٹھ کر اور لوگوں کو ڈھال بنا کر اپنے آرام دہ کمرے میں فضول اور فالتو لیکچر دینے والے ایسے معرکے نہیں مارا کرتے۔ جن لوگوں کا مقصود و مطلوب یہ ہو کہ ہاں ہاں کسی طرح مجھے دوبارہ وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بٹھا دیا جائے ، چاہے اس کےلئے ملک و قوم کو ڈھانچہ ہی کیوں نہ تباہ ہو جائے۔ایسے لوگ اپنی شخصی انا کی تسکین کےلئے جیل بھرو تحریک کے شوشے تو چھوڑ سکتے ہیں مگر خود جیل نہیں جا سکتے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے