وطن عزےز کے شہری ہر دن کی ابتداءنئی امےدوں ،آرزوﺅں اور خواہشوں کے ساتھ کرتے ہےں کہ شائد آج کوئی حوصلہ افزاءخبر سننے کو ملے لےکن اے بسا آرزو کہ خاک شد ۔ اس تےز رفتار زمانے مےں عوام کے مشکلات و مصائب مےں اتنی تےزی سے اضافہ ہو رہا ہے کہ ہماری حکومتوں ،سےاستدانوں اور نوکر شاہی کو تو اس کا احساس ہی نہےں ہوتا ۔ہر دن کے اختتام پر متاثرہ عوام اپنی امےدوں کو راکھ کے ڈھےر مےں تبدےل ہوتا دےکھتے ہےں لےکن خود کو بے بس پاتے ہےں ۔غربت، بے روزگاری اور افراط زر مسلسل بڑھ رہا ہے ۔ لوگوں کی قوت خرےد جواب دےتی جا رہی ہے ۔ عوام مستقبل سے انتہائی دلبرداشتہ اور ماےوس ہو چکے ہےں ۔غرےب لوگ معاشی اور دےگر مسائل کی وجہ سے پاگل پن کی حدود سے بھی تجاوز کر گئے ہےں ۔ان کا رونا دھونا صدا بصحرا ثابت ہوتا ہے ۔غرےب نواز منصوبہ سازوں کو تو کبھی فرصت ہی نہےں ملتی کہ وہ جانوروں کی طرح زندگی گزارنے والے ان انسانوں کو کبھی بالمشافہ دےکھ ہی لےں ۔1937ءمےں دانائے راز ڈاکٹر علامہ اقبالؒ نے اےک خط مےں قائد اعظمؒ کو بتاےا تھا کہ مسلمان بہت غرےب ہےں ۔قائد اعظمؒ بھی تحرےک پاکستان کے دوران اکثر فرماےا کرتے تھے کہ وہ غرےب مسلمانوں کےلئے اپنا خون پسےنہ اےک کر رہے ہےں ۔قےام پاکستان کے بعد وہ گورنر جنرل بنے تو وہ تنخواہ نہےں لےتے تھے اور انہوں نے اپنی ساری جائےداد قوم کے نام وقف کر دی تھی۔ہمارے پہلے وزےر اعظم لےاقت علی خان جب شہےد ہوئے تو ان کی جےب اور بےنک سے کچھ نہ نکلا اور ان کی بنےان جو انہوں نے شہادت کے وقت پہنی ہوئی تھی پرانی اور پھٹی ہوئی تھی ۔ےاد رہے کہ لےاقت علی خان نواب زادہ تھے لےکن قوم کی خاطر انہوں نے رضاکارانہ طور پر غربت اختےار کر رکھی تھی لےکن افسوس قائد اعظمؒ اورلےاقت علی خان کے بعد کوئی اےسا حاکم نہ آےا جو اپنے اوپر رضاکارانہ طور پر غربت مسلط کرتا۔بعد کے حکمران بظاہر رونا تو غرےب لوگوں کا ہی روتے رہے لےکن در حقےقت وہ ان کا خون چوس کر ہی کھرب پتی بنتے رہے ۔ےہاں جو بھی آےا وہ اقتدار کی بھوک مٹانے کےلئے ہی آےا ۔قوم کو ہر حکومتی تبدےلی مےں امےد کی کرن نظر آتی ہے مگر انجام کار اس کے ساتھ پھر وہی دھوکہ ہوتا ہے ۔ہماری قےادت کی باگ ڈور جن ہاتھوں مےں رہی وہ اس اشرافےہ پر مشتمل ہےں جو اپنے منہ مےں سونے کے چمچ لے کر پےدا ہوئے ۔ان مےں کوئی وڈےرہ ہے تو کوئی کاروباری ےا رواےتی وڈےرہ۔کسی انگرےزی شاعر نے کہا تھا کہ :
Not gold, but only men can make a people great and strong
قومےں سونے سے عظےم اور مستحکم نہےں بنا کرتےں بلکہ ےہ مقام انہےں باکردار لوگوں کی بدولت حاصل ہوتا ہے ۔برادر مسلم ممالک ملائےشےا،اےران اور ترکی کی مثالےں ہمارے سامنے ہےں جہاں کی مخلص اور دےانت دار قےادت نے انہےں کہاں سے کہاں پہنچا دےا ۔ ہمارے سابقہ وزےر اعظم جناب عمران خان اپنی تقارےر مےں اکثر جدےد ملائےشےا کے اصل معمار مہاتےر محمد کا ذکر کرتے ہےں جنہوں نے اپنی بے لوث خدمت کے ذرےعے اپنے ملک کو جنوب مشرقی اےشےاکا ٹائےگر بنا دےا ۔ترکی کے وزےر اعظم طےب اردگان سادگی،اےمان داری اور دےن داری کی دولت سے مالا مال ہےں اور ہوس زر اور اقتدار کے نشے سے کوئی واسطہ نہےں رکھتے ۔وہ خود کو عوام کا حکمران نہےں بلکہ خادم سمجھتے ہےں ۔ےہی وجہ ہے کہ آج ترکی مےں تےز رفتار ترقی کا عمل تےز رفتاری سے آگے کی طرف بڑھ رہا ہے ۔آج ملکی حالات کے تناظر مےں مجھے اےک چےنی حکایت ےاد آرہی ہے ۔پچھلے زمانے، تےسری صدی عےسوی مےں چےنی بادشاہ نے اپنے بےٹے شہزادہ تائی کو مندر کے گرو جی پان کو سے تعلےم حاصل کرنے کےلئے اس وقت مندر بھےجا جب اس نے موت کے قدموں کی چاپ اپنے آس پاس سنی ۔اسے اس فکر نے دامن گےر کےا کہ مےرے مرنے کے بعد سلطنت کا نظم و نسق کون سنبھالے گا ۔” پان کو گروجی“ نے لڑکے کو اےک اچھے حکمران کے بنےادی اصول سکھانے کےلئے جنگل مےں تنہا بھےج دےا ۔ اےک سال بعد شہزادے نے کوئل کی گنگناہٹ ، پتوں کی سرسراہٹ،پرندوں کی چہچہاہٹ ، گھاس کی سرسراہٹ اور مکھےوں کی بھنبھناہٹ کے بارے مےں بتاےا ۔استاد نے اسے واپس جنگل جانے کا حکم دےا ۔وہ بڑا پرےشان ہوا کہ اب وہ کس چےز کا مشاہدہ کرے اور کےا بتائے ۔ کئی دن اور رات تک نوجوان شہزادہ جنگل مےں اکےلا بےٹھا غور سے آوازےں سنتا رہا ۔اےک دن شہزادے نے صبح کے وقت چند اےسی آوازےں سنےں کہ اسے اےسا لگا کہ ےہی وہ آوازےں تھےں جو گرو جی کی مطلوبہ تھےں ۔اس آگہی کے احساس کے ساتھ ہی وہ فوراً پلٹا ۔استاد نے پوچھا بتاﺅ اب کےا دےکھا اور سنا ؟ شہزادے نے احترام سے جواب دےا ” جب مےں نے بہت زےادہ قرےب ہو کر سنا تو مےں پھولوں کے کھلنے کی نہ سنائی دےنے والی آواز ،سورج کے زمےن گرم کرنے کی آواز کو اور صبح کی شبنم کے ساتھ گھاس کی بھی آوز سن سکتا تھا ۔استاد نے تصدےق کرتے ہوئے کہا ” نہ سنائی دےنے والی آواز سننا “ اےک اچھا حکمران بننے کا سنہری اصول ہے کےونکہ رےاستوں کا زوال اسی وقت ہوتا ہے جب اےک حکمران لوگوں کے دل کی آواز ،غےر بےان شدہ احساسات ،تکلےفےں جن کا اظہار نہےں کےا گےا اور شکاےات جن کا ذکر نہےں ہو ،قرےب سے سننا سےکھ نہےں لےتا تو وہ لوگوں مےں کبھی بھی اپنا اعتماد قائم نہےں رکھ سکتا جس سے قوم تباہی کی طرف گامزن ہوتی ہے ۔حالےہ انتخابات اپنے جوش و خروش کے ساتھ ختم ہو گئے ہےں جو خوش قسمت تھے وہ کامےاب ہو گئے ، خوش قسمت اس لےے کہ کامےابی کےلئے ےا تو قابل اور اہل ہونا ضروری ہوتا ہے ےا پھر خوش قسمت اور وہ لوگ خوش قسمت ہی ہےں جن کی بےن الاقوامی ،ملکی ،قومی اور مذہبی معلومات مختصر اور مالی طور پر بہت آسودہ ہےں وہ منتخب ہونے کے بعد کےسے جان سکتے ہےں کہ ہماری عوام کےا سوچ رہی ہے ،کس کے گھر کا چولہا ٹھنڈا پڑا ہے اور کب سے؟ان کے بچے ننگے پاﺅں پھر رہے ہےں ےا نہےں ان کے تن پر کپڑا اور سر پر چھت ہے ےا نہےں حالانکہ عوام انہےں اس لےے منتخب کرتے ہےں کہ ےہ عوام کے مسائل کو زےادہ قرےب سے جانےں لےکن کرسی ملتے ہی وہ عوام کو بھول جاتے ہےں اور ےہ منتخب اراکےن اپنے آپ کو خواص مےں شامل کر لےتے ہےں اور پھر عوام کے پاس رب سے شکوہ کرنے کے سوا کچھ نہےں رہتا ۔خدا ہمےشہ اپنے بندوں کو وسےلہ بنا کر آزماتا ہے اور ےہ وسےلہ خزانے کے امےن ےہی ہمارے خدائی فوجدار ہوتے ہےں ۔ان انتخابات مےں کامےاب ہونےوالے خوش نصےبوں کےلئے راقم کا دل چاہتا ہے کہ انہےں تخت شاہی پر بٹھانے سے پہلے مندروں مےں ”گروپان کو“ کے پاس اچھے حکمران کی تربےت کےلئے بھےجا جائے تاکہ وہ ان کی شہزادے کی طرح اےسی تربےت کرےں کہ وہ اقتدار کو اپنے مفاد کی خاطر نہ استعمال کرےں بلکہ عوام کی اکھڑتی سانسوں سے ان کی اذےتوں کا اندازہ لگا کر ان کے دکھوں کا مداوا کرنے کا وسےلہ بن سکےں ۔ان کی نبض شناسی سے ان کے مرض کا ادراک کر سکےں ۔غرےبوں کو دور سے دےکھ کر آپ ان کے ہمدرد نہےں بن سکتے ۔آپ کو ان کا ےقےنی ہمدرد بننے کےلئے ان کی حالت زار کو محسوس کرنا ہو گا اور حاکم کےلئے ےہی طرےقہ ہے اور وہ ےہی ہے کہ آپ حضرت عمر بن عبدالعزےز ؒ کی راہ پر چلےں ۔ اسلام کی ےہ عظےم ہستی خلےفہ بننے سے پہلے اےک شہزادہ تھی ۔انہوں نے خلےفہ بنتے ہی رضاکارانہ طور پر فقر کی راہ اختےار کی۔اگر آپ بھی غرےبوں اور مظلوموں کے ساتھی بن کر تارےخ مےں اپنا نام ہمےشہ کےلئے چھوڑنا چاہتے ہےں تو آپ اپنی ساری جائےداد غرےبوں اور مظلوموں کےلئے وقف کر دےں اور صرف اپنے لےے اےک گھر رکھےں اور پھر دےکھےں کہ قوم کس طرح آپ پر قربان ہوتی ہے ۔