کالم

حسینہ واجد عدالتی کٹہرے میں

بنگلہ دیش نے بھارت سے کہا ہے کہ وہ سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کو عدالتی کارروائی کا سامنا کرنے کےلئے ڈھاکہ کے حوالے کر دے ۔ بھارت نے درخواست موصول ہونے کی تصدیق کی ہے، تاہم اس پر مزید تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ڈھاکہ میں طلباءکے زیر قیادت شیخ حسینہ کی حکومت کے خلاف پرتشدد مظاہروں کے دوران، سابق وزیر اعظم پناہ کی تلاش میں بھارت پہنچی تھیں اور تب سے نئی دہلی میں مقیم ہیں۔ انہیںاپنے ملک میں انسانیت کے خلاف جرائم کے متعدد الزامات کا سامنا ہے۔بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ کے مطابق بھارت سے باضابطہ طور پر درخواست کر دی گئی ہے کہ وہ سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کو ملک واپس بھیج دے۔نئی دہلی میں رہتے ہوئے شیخ حسینہ متعدد بار محمد یونس کی انتظامیہ پر تنقید کرتی رہی ہیں اور ان پر اقلیتوں بالخصوص ہندوو¿ں کے تحفظ میں ناکام ہونے کا الزام لگاتی ہیں۔بھارت بھی وقتاً فوقتا اس حوالے سے بنگلہ دیش پر تنقید کرتا رہا ہے، جس کے جواب میں بنگلہ دیش نے کہا کہ ہندوو¿ں پر حملے کے حوالے سے واقعات میں مبالغہ آرائی سے کام لیا جا رہا ہے اور بھارت تو خود اپنی اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کے لیے بدنام ہے۔حال ہی میں بنگلہ دیش میں ایک ہندو مذہبی رہنما کی گرفتاری کے بعد کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ واضح رہے کہ ڈھاکہ میں قائم گھریلو جنگی جرائم کی عدالت اس سلسلے میں پہلے ہی حسینہ اور ان کے قریبی ساتھیوں کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر چکی ہے۔ بنگلہ دیش کی حکومت نے بین الاقوامی پولیس تنظیم انٹرپول سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ حسینہ کو گرفتار کرنے میں مدد کرے۔بھارت نے ہنگامی طبی ویزوں کے علاوہ بنگلہ دیشی شہریوں کو ویزا جاری کرنا بھی بند کر دیا ہے اور انفراسٹرکچر پراجیکٹس پر کام کرنے والے بہت سے بھارتی شہری سکیورٹی خطرات کی وجہ سے بنگلہ دیش چھوڑ کر واپس آگئے ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور بنگلہ دیش میں عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس کے مابین قاہرہ میں ہونے والی ایک ملاقات میں دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کو فروغ دینے پر مکمل اتفاق رائے ظاہر کیا گیا۔یہ اتفاق رائے بنگلہ دیش کے اس کے ہمسایہ ملک بھارت کے ساتھ بہت زیادہ سرد مہری کا شکار موجودہ روابط کےلئے ممکنہ طور پر ایک نیا امتحان ثابت ہو گا۔ اس لیے کہ پاکستان اور بھارت جنوبی ایشیا کی دو ہمسایہ ایٹمی طاقتیں اور ایک دوسرے کے ایسے روایتی حریف بھی ہیں، جو آپس میں متعدد جنگیں لڑ چکے ہیں۔اس پس منظر میں پاکستان کی بنگلہ دیش سے قربت، جو ڈھاکہ میں موجودہ عبوری حکومت کے اقتدار میں آنے سے قبل سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کے دور میں بھارت کے بہت قریب رہا تھا، نئی دہلی کے لیے ایک نئی لیکن سیاسی پیش رفت کے طور پر خوش آئند نہیں ہو گی۔ایسا اس لیے بھی اہم ہے کہ شیخ حسینہ نے ابھی تک بھارت میں پناہ لے رکھی ہے اور ڈھاکہ میں ملک کی عبوری حکومت چاہتی ہے کہ نئی دہلی شیخ حسینہ کو ملک بدر کر کے بنگلہ دیش کے حوالے کر دے، جس سے بھارت اب تک انکاری ہے۔بنگلہ دیش، جو ماضی میں مشرقی پاکستان کہلاتا تھا اور 1971ء میں ایک خونریز جنگ کے بعد باقی ماندہ پاکستان سے علیحدہ ہو گیا اور ایک آزاد ریاست بن گیا تھا، اپنی آزادی کے بعد سے بھارت کے بہت قریب رہا تھا۔اب لیکن اس سال اگست میں طلبہ کی قیادت میں ہونے والے ملک گیر مظاہروں کے نتیجے میں شیخ حسینہ کے ملک سے فرار کے بعد سے بھارتی بنگلہ دیشی تعلقات میں کافی زیادہ کشیدگی آ چکی ہے جبکہ ڈھاکہ اور اسلام آباد کے مابین روابط میں گرمجوشی اور مزید قربت کی خواہش نمایاں ہے۔اس پس منظر میں قاہرہ میں دونوں ممالک کے رہنماو¿ں کی جو ملاقات ہوئی، اس کا سبب مصری دارالحکومت میں ہونے والا آٹھ مسلم اکثریتی ممالک کے گروپ ‘ڈی ایٹ‘ تنظیم برائے اقتصادی تعاون کے رہنماو¿ں کا اجلاس تھا۔محمد یونس نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ وہ آٹھ جنوبی ایشیائی ممالک کی تنظیم برائے علاقائی تعاون (سارک) کی بحالی کی بھرپور خواہش رکھتے ہیں۔ یہ تنظیم اپنے دو بڑے رکن ممالک پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی کے باعث برسوں سے عملی طور پر تعطل کا شکار ہو چکی ہے۔بنگلہ دیش کی نئی خارجہ پالیسی بھارت کے لیے نیا چیلنج، بھارت کی کٹھ پتلی شیخ حسینہ کی بھارت فرارکے بعد بنگلہ دیش کی حکومت کی نئی خارجہ پالیسی، بھارت بنگلہ دیش کی خودمختاری کو نقصان پہنچانے کے لیے متعدد خفیہ حربے استعمال کررہا ہے ۔ بنگلہ دیش کی خارجہ پالیسی میں حالیہ تبدیلیاں بھارت کے لیے تشویش ناک ثابت ہورہی ہیں۔ بھارت میں بنگلہ دیشی قونصلیٹ پر حملے کے باعث دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات کشیدگی کا شکار ہوچکے ہیں ، گودی میڈیا گمراہ کن معلومات کو استعمال کر کے بنگلہ دیش کو غیر مستحکم کرنے کی سازش میں مصروف ہے ۔ دوسری جانب چٹاگانگ میں پاکستانی کارگو جہاز کی آمد اور پاکستانی درآمدات کے لیے کسٹم کے معائنے میں نرمی ڈھاکہ اور اسلام آباد کے درمیان گہرے تعلقات کا اشارہ ہے ۔ بنگلہ دیش اور پاکستان کے بڑھتے تعلقات بھارت کے لیے گہرے خدشات کا باعث بن رہے ہیں ۔ پاکستان کی نفرت میں اور مودی کے سائے تلے شیخ حسینہ نے اپنی ہی عوام پر ظلم کا بازار گرم رکھا۔ بنگلا دیش کی عبوری حکومت نے بھارت سے ٹیلی کام کا وسیع البنیاد معاہدہ منسوخ کرنے کا بھی حکم دے دیا ہے ۔بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان غیر قانونی امیگریشن، مذہبی اقلیتوں کے حقوق اور پانی کی تقسیم کے معاہدوں جیسے مسائل پر بھی کشیدگی بڑھ رہی ہے ۔ بنگلہ دیش میں بڑھتے ہوئے بھارت مخالف جذبات کی وجہ سے صورتحال اب مزید خراب ہو چکی ہے ۔ بھارت، بنگلہ دیش پر دوبارہ اثر و رسوخ قائم کرنے کےلئے مظاہروں اور میڈیا کا سہارا لے رہا ہے۔بنگلہ دیش کے عوام نے اپنی آزادی کا گلا گھونٹنے والی شیخ حسینہ کو ملک سے نکال کر بھارت کو منہ توڑ جواب دے دیا ہے۔بنگلہ دیش کی نئی خارجہ پالیسی بھارت کیلیے نیا چیلنج بن چکی ہے۔ بھارت کی کٹھ پتلی شیخ حسینہ کے بھارت فرارکے بعد بھارت بنگلہ دیش کی خودمختاری کو نقصان پہنچانے کیلئے متعدد خفیہ حربے استعمال کررہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے