زمانہ طالب علمی سے ہی علامہ اقبالؒ کے اکثر اشعار زبان زد عام ہونے کی وجہ سے ازبر ہو گئے ۔بعض علماءکرام نے علامہ کی زندگی مےں تو ان پر فتوے صادر کرنے سے گرےز نہ کےا اور ان کے خلاف محاذ آرائی جاری رکھی لےکن بعد ازاں علامہ کا کلام ان کو اےسا بھاےا کہ اپنی تقرےروں مےں ان کے اشعار مزےن کئے بغےر ان کی تقارےر با اثر اور کامل نہےں ہو پاتےں ۔ بلوغت کے قرےب پہنچے تو سےاستدانوں سے ان کی تقرےروں مےں علامہ کے اشعار اےک ترتےب سے سنے اور سنتے آ رہے ہےں ۔ان اشعار مےں زےادہ تر کا مقصد و محور سامعےن اور ووٹرز کی غےرت اور عزت نفس کا بےدار کرنا ،خواب غفلت مےں پڑے عوام کو جھنجوڑتے ہوئے جگانا اور خود کو ولولہ تازہ اور عزم نو کے ساتھ حکومت چلانے کا عندےہ دےنا ۔الےکشن کے دوران سےاستدان جہاں اپنی تقارےر مےں علامہ کے کلام کا اعادہ کرتے وہاں مختلف بےنرز پر بھی اےسے دےدہ زےب اشعار لکھواتے ۔پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی ےہ بات ، تو جھکا جب غےر کے آگے نہ تن تےرا نہ من ۔اےسے اشعار عوام کے دلوں کو گرماتے ،جوش دلاتے ۔عوام کی انا ،غےرت اور خودداری وقتی طور پر انگےحت ہوتی لےکن لےڈروں کی ہمےشہ ان پر عمل سے محرومی مقصد کو اکارت اور ضائع کرنے کا باعث بنتی رہی ۔ اس کی وجہ ےہی رہی کہ ہمارے سےاستدان جوش خطابت مےں اےسی باتوں اور اشعار کا سہارا لےتے ہےں جو ان کی اپنی زندگی کی اصلےت سے کوسوں دور ہوتے ہےں صرف ان کا مقصد ےہےں تک ہوتا ہے کہ تےر نشانے پر بےٹھا ہے ۔اقتدار کی بے دخلی پر بھی سےاستدان تقارےر مےں اقبالؒ کے اشعار کا ذکر شدو مد سے کرتے ہےں ۔اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی ،جس رزق سے آتی ہو پرواز مےں کوتاہی۔عمران خان جب اپوزےشن مےں تھے تو کہا کرتے تھے کہ اگر مےں پاکستان کا وزےر اعظم بن گےا تو آئی اےم اےف سے قرض لےنے کی بجائے خود کشی کرنے کو ترجےح دوں گا لےکن وزےر اعظم بننے پر انہوں نے آئی اےم اےف سے نےا معاہدہ کر کے قرض لےا اور آئی اےم اےف کی غلامی کو بہ رضا و رغبت شرف قبولےت بخشنے مےں کوئی عار نہ سمجھی ۔اتنا ہو ا کہ معاہدہ کرنے پر بہت سی دلےلےں ،منطقےں اور مجبورےاں بےان کی گئےں کہ خزانہ خالی تھا ۔وہ کشکول توڑنے کی باتےں ،باتےں ہی رہےں اور طائر لاہوتی لاہوت مےں ہی پرواز کرتا رہا۔ سنہرے اور دلفرےب خواب دےکھے جا سکتے ہےں ،ان پر کوئی قدغن اور پابندی تو نہےں لےکن بغےر محنت و مشقت ،کوشش اور منصوبہ بندی کے قارون کے خزانے نہےں ملتے اور جب حاملےن اقتدار بھی ان خزانوں کو خالی کرنے کے درپے ہوں ۔جو سونے کا چمچ منہ مےں لئے پےدا ہوتے ہےں ان کے مسائل کی نوعےت کچھ اور ہوتی ہے کےونکہ زندگی ان کےلئے پھولوں کی سےج ہوتی ہے ۔اےسے لوگوں کے نعرے زبانی اور عوام کوگرمانے کےلئے ہی ہوتے ہےں اور خود دو قدم چل کر مشکلات کے سامنے زمےن بوس ہو جاتے ہےں ۔ان کی باتےں محض خواب است و خےال است و جنوں کے علاوہ کوئی حقےقت نہےں رکھتےں ۔عوام بہتر جانتے ہےں کہ کشکول ٹوٹا ےا نہےں لےکن اب عوام کے ہاتھ کشکول تھامنے پر مجبور ہےں ۔اے مسافر سرراہ بھٹکنے والے ،ےوں تصور مےں چمکدار ستارے نہ بنا ،بس رہے ہےں ابھی خطہ تارےک مےں ہم ،اس حقےقت کو سمجھ اس سے نگاہےں نہ چرا۔ہمارا برادر ہمساےہ اےران نے مسلسل پابندےوں کا نشانہ بننے کے باوجود دست سوال دراز نہ کےا ،اپنی انا و غےرت کا سودا نہ کےا ۔رسوا تھے پر نہ اتنے ہوئے جب سے تنگدست ،تھوڑا بھرم بھی رہنے دےا نہ ادھار نے ۔سوچتا ہوں کہ وطن عزےز مےں کبھی اےسا وقت بھی آئے گا کہ ہم اپنے پاﺅں پر کھڑے ہوں ،اپنے وسائل پےدا کرےں ۔ہم زرعی اور معدنی دولت سے مالا مال ہےں لےکن دوسروں کے دست نگر اور محتاج ۔ اغےار حےران ہےں کہ ےہ کےسے جدےد بھکاری ہےں کہ ان کے حکمران قرضہ کے حصول کےلئے چارٹرڈ طےاروں مےں سفر کرتے ہےں ،مہنگے ترےن ہوٹلوں مےں قےام کرتے ہےں ،مہنگی ترےن گھڑےاں اور پوشاکےں پہنتے ہےں اور دوسری طرف علامہ کے ان اشعار کو جلسوں مےں گنگنانہ فرےضہ خےال کرتے ہےں ۔ مےرا طرےق امےری نہےں فقےری ہے ،خودی نہ بےچ غرےبی مےں نام پےدا کر ۔فقےری مےں نام کمانا تو مشکل ہوتا ہے لےکن ہمارے ہاں معاملہ برعکس ہے ۔ےہاں تو فقےری مےں نام کے ساتھ مال بھی کماےا جا سکتا ہے کےونکہ ہماری قوم کے سرکردہ لےڈر گداگر ہی ہےں ۔عوام سے ووٹ کی بھےک مانگتے ،حکومت مےں آ کر آئی اےم اےف سے قرضہ مانگتے اور اپنے بےنک بےلنس مےں بھی ساتھ ساتھ اضافہ کرتے جاتے ہےں ۔ اسی لئے شاید شاعر کو کہنا پڑا ۔کل شہر مےں نےلام ہوا اےک پلازہ ،تھا آخری بولی کا خرےدار گداگر ۔قائد اعظم کے سوانح نگار ہےکٹر پوےتھو نے لکھا ہے کہ جناح جب بچے تھے تو انہوں نے اےسے کھےل مےں شرےک ہونے سے انکار کر دےا تھا جس مےں ان کے ہاتھ مےلے ہونے کا امکان تھا ۔ےہ بہت اہم بات ہے ۔اپنے ہاتھوں کو صاف ستھرا رکھنے کا عزم صمےم انسانی شرافت اور عظمت کی بنےاد ہے ۔ہاتھ صاف ستھرے ہوں تو کردار پر کوئی دھبہ نہےں پڑتا ۔انسان کا تن ،من اجلے اجلے نکھرے پھول کی طرح ہوتا ہے مگر اس مےں بہت کچھ قربان کرنا پڑتا ہے ، آسائشوں کے دروازے اپنے اوپر بند کرنا پڑتے ہےں ،ہر قسم کے ہےر پھےر سے توبہ کرنی پڑتی ہے ، سےدھے راہ پر چلنا پڑتا ہے خواہ وہ کتنا طوےل ، کٹھن اور دشوار کےوں نہ ہو ۔اےک طرح کی غےرت اپنے اندر اجاگر کرنا ہوتی ہے اور پھر اس کی نگہبانی کےلئے باقاعدہ پہرہ دےنا پڑتا ہے ۔اس سے حمےت کا وہ احساس پےدا ہوتا ہے جو مال مفت پر آنکھ اٹھانے کی اجازت ہی نہےں دےتا ۔جنگی تجزےہ نگار لکھتے ہےں کہ ہٹلر کی شکست کا اےک سبب ےہ بھی تھا کہ اس نے اےک ساتھ ڈھےر سارے محاذ کھول دئےے تھے ۔کہےں وہ امرےکہ مخالف جذبات کو ہوا دےکر انہےں غلامی سے نجات دےنے کی آواز بلند کر تے تھے اور کہےں اداروں کے خلاف شعلہ بےانی سے کام لےکر اپنے کام کو بگاڑنے پر کمر بستہ رہے ۔معزز قارئےن آقا و غلام کا کھےل آج کا نہےں ۔ےہ غرباءجذباتی لوگ پہلے انگرےزوں کے غلام تھے ۔ انگرےزوں کے رخت سفر باندھنے کے بعد ےہ دےسی آقاﺅں کے غلام بن گئے ۔دےسی آقاﺅں مےں بھی حاکمےت اور کروفر کا وہی انداز تھا ۔ حکمرانوں کے محل ،ان کی بےرون ملک جائےدادےں اور اثاثے اور ان کا شاہانہ معےار زندگی اس حقےقت کے غماز ہےں ۔ہمارے غلام ہونے مےں تو کوئی شبہ نہےں ہم تو امرےکہ ،ےورپ سمےت ان برادر اسلامی اور دوست ممالک کے بھی غلام ہےں جو ہمےں قرض سے نوازتے اور ضرورت پڑنے پر مدد بھی کرتے ہےں ۔ہم آئی اےم اےف کے بھی غلام ہےں اور ورلڈ بےنک کے بھی ۔ہماری باگےں ان کے ہی ہاتھوں مےں ہےں بقول شاعر ،ترے معتوب تو دست و پا کٹھ پتلےاں ہےں ،ہمےں معلوم ہے آتی ہے مہنگائی کہاں سے ۔دراصل ہماری اس غلامی کا تعلق ہماری خراب معےشت سے ہے ۔عمران خان سے قبل بھی ہمارے حکمران ےہی کرتے رہے اور مستقبل کے حکمران بھی ےہ عمل دہراتے رہےں گے۔اصل غلامی سے نجات کا نسخہ معےشت کا خود انحصاری کی طرف گامزن کرنا ، امرےکہ اور عالمی مالےاتی اداروں پر انحصارکم کرنا اور حکمرانوں کو اپنے شاہانہ اطوار کو بدلنا ہوگا ۔