کالم

حکومت سازی مشکل !جوڑ توڑ

انتخابات کے بعد حکومت سازی کی سر گرمیوں میں تیزی آگئی ہے ۔ شہباز شریف اور آصف زرداری ملاقاتوں کے نتیجے میں آنے والے دنوں میں بننے والی مرکزی اور صوبای حکومتوں کے خدوخال واضح ہونے شروع ہو گے ہیں نواز شریف نے شہباز شریف کو وزارت عظمی کا امیدوار نامزد کر دیا ہیے۔ ایم کیو ایم کے وفد نے جاتی امرا میں نواز شریف سے تفصیلی ملاقات کی متحدہ کے وفد نے اپنے مطالبات ن لیگ کے سامنے رکھے اور پی ایم ایل ن کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ۔ شہباز شریف آصف زرداری اور متحدہ کا وفد حکومت سازی کے سلسلے میں ق لیگ کے سربراہ چوہدرری شجاعت کے گھر گیا جہاں مختلف مکتبہ فکر کے سیاست دانوں کی بڑی بیٹھک ہوی جس میں مرکز اور پنجاب کی حکومت بنانے کے بارے میں مختلف آپشنز پر غور کیا گیا آصف زرداری نے پریس کانفرنس میں مرکز اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ پی پی پی مسلم لیگ ن سے کچھ آینی عہدے اور بلوچستان کی حکومت سازی میں مدد مانگ رہی ہیے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا نقطہ نظر واضع نہیں بلاول بھٹو مرکز میں پی ایم ایل این کا ساتھ دینے لیکن حکومت میں شریک نہ ہونے کی بات کر رہیے ہیں جبکہ آصف زرداری سب کو ساتھ لے کر چلنے کا کہہ رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کو بھی شہباز شریف نے اتحادی حکومت میں شامل ہونے کی دعوت دی لیکن جے یو ای نے اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔ پی ٹی آی کے رہنما شیر افضل مروت کے مطابق آصف زرداری نے آزاد امیدواروں سے رابطے کے ہیں۔ ملک بھر میں قومی اور صوبای اسمبلیوں کے انتخابات بڑے پرامن ماحول میں منعقد ہویے۔ قومی اسملی میں مسلم لیگ ن سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری جب کہ دوسرے نمبر پر پاکستان پیپلز پارٹی رہی۔ ان انتخابات کی اہم بات یہ ہیے کہ پی ٹی آی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے بھی 96 سے زیادہ سیٹیں حاصل کر لیں اور مرکز میں بیرسٹر گوہر حکومت بنانے کا دعوی کر رہیے ہیں پی ٹی آی نے عمر ایوب کو وزیراعظم کا امیدوار نامزد کیا ہیے اور یہ بھی کہا کہ صدر مملکت انہیں حکومت بنانے ک دعوت دیں گے۔ اس کے ساتھ ہی ٹی آی نے نتاج رکوانے اور از سر نو گنتی کے لے عدالتوں کا رخ کر لیا ہیے اس طرح پی ٹی آی وہی ماحول بنانے جا رہی ہیے جو کہ 2013 میں شکست کھانے کے بعد عمران خان نے بنایا تھا۔ کبھی 35 پیکنچر لگانے کی بات کی جاتی تھی اور کبھی کچھ حلقوں کے بیگز کھولنے کا مطالبہ کیا جاتا تھا۔ ملک بھر میں مبینہ دھاندلی اور نتاج میں تاخیر اور ردو بدل کے خلاف پی ٹی آی جے یو آی اور جماعت اسلامی کی طرف سے سندھ اور بلوچستان میں بھر پور طریقے سے احتجاج جاری ہیے ۔ پی ٹی آی کی قیادت نے ملک بھر میں احتجاج کی کال دی ہیے۔ ادھر امریکی حکومت کے ترجمان میتھیو نے انتخابات پر تحفظات کا اظہار کیا ہیے اور کہا ہیے کہ دھاندلی کی تحقیقات ہونی چاہیں نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ امریکہ برطانیہ اور یورپی یونین کے کہنے پر تحقیقات نہیں کرا سکتے کیونکہ ان کا یہ مطالبہ صرف سوشل میڈیا رپورٹس کی بنیاد پر کیا جا رہا ہے۔پی ٹی آی کے حمایت یافتہ امیدواروں نے خیبر پختون خواہ میں اتنی سیٹیں حاصل کر لی ہیں کہ وہ اکیلے حکومت بنا سکتے ہیں اور ان کی قیادت نے علی امین گنڈاپور کو خیبر پختونخواہ کا وزیراعلی نامزد کر دیا ہیے۔ مسلم لیگ ن اتحادی جماعتوں پی پی پی مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم مل کر مرکز میں حکومت بنا نے کا دعوی کر رہی ہیے جب کہ پنجاب میں پی ایم ایل این نے مطلوبہ نمبر پورے کر لیے ہیں ان کی وزیراعلی پنجاب کی امیدوار مریم نواز ہوں گی۔ انتخابات تو ہو گے لیکن سیاسی استحکام ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا کیوں کہ کسی بھی جماعت کو واضح مینڈیٹ نہیں ملا کہ وہ اکیلے حکومت بنا سکے۔ اسد قیصر کی قیادت میں پی ٹی آی کے وفد کی مولانا فضل الرحمن کے ساتھ ملاقات کے بعد دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے قریب آ رہی ہیں فاصلے قربتوں میں بدل رہیے ہیں الیکشنز کے بعد سپلٹ مینڈیٹ کی وجہ سے کوی جماعت بھی اس قابل نہیں کہ اکیلے حکومت بنا سکے حکومت سازی کے لے ایک دوسرے کا سہارا لینا پڑے گا۔ لیکن آزاد امیدواروں کی مبینہ طور پر منڈی لگی ہوی ہیے ہر پارٹی زیادہ سے زیادہ آزاد امیدواروں کو ساتھ ملا کر اپنے نمبرز پورے کرنا چاہتی ہیے تاکہ حکومت بنای جا سکے لیکن ابھی تک کسی بھی جماعت کو کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ آین کے تحت 29 فروری تک قومی اسمبلی کا اجلاس بلانا ضروری ہیے تاکہ قاد ایوان کا انتخاب کیا جا سکے 1970میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں تاخیر کا نتیجہ ہم بنگلہ دیش کی شکل میں دیکھ چکے ہیں ۔ ادھر مولانا فضل الرحمن کے اس بیان سے کہ جنرل باجوہ نے عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد روکنے کے لیے کہا تھا ایک نی بحث چھیڑ دی ہے۔ مولانا پی ڈی ایم کے سربراہ رہیے اور انہوں نے عمران حکومت کے خاتمے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا تمام سیاسی قوتوں کو ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنا چاہیے اور اگر پی ٹی آی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار نمبرز پوریے کر لیتے ہیں تو انہیں حکومت بنانی چاہیے ۔ پی ایم ایل این اور اس کے اتحادی اگر اپنے نمبرز پورے کرتے ہیں تو انہیں مرکز میں حکومت بنانی چاہیے۔ بڑی مشکل اور کوششوں سے انتخابات منعقد ہویے ہیں یہ ملک مزید کسی آینی بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا ملک اس وقت معاشی گرداب میں پھنسا ہوا ہے چھ ارب ڈالرز کے قرضوں کے لیے نئی حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا یہ سوال بھی اہم ہے کہ بھرپور انتخابی مہم نواز شریف نے چلای لیکن وزیراعظم کےلئے شہباز شریف کو نامزد کر دیا حالانکہ بطور اتحادی حکومت کے وزیراعظم ان کی کار کردگی سب کے سامنے ہے۔ اگر جے یو آی ف اور پی ٹی آئی الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگا رہی ہیں تو ان کے لئے عدالتوں کے دروازے کھلے ہیں مبینہ دھاندلی کی تحقیقاات کے لے عدالتی کمیشن بھی تشکیل جا سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے