اداریہ کالم

حکومت سازی میں تاخیر کسی کے مفاد میں نہیں

ملک میں 8 فروری کے عام انتخابات کے انعقاد کو دس دن سے زائد کا وقت گزر گیا ہے لیکن حکومت سازی کا عمل کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ جن سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں نمایاں سیٹیں ملی ہیںوہ ابھی تک پاور شیئرنگ کے کسی فارمولے پر متفق نہیں ہو سکی ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے سامنے پاور شیئرنگ کا جو فارمولا رکھا گیا اسے انہوں نے ایک بار پھر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے آخری 2 سال مجھے وزیراعظم بننے کا کہا گیا میں نے اسے مستردکردیا ہے،ان نے کہا ہے کہ عوام منتخب کریںگے تو وزیراعظم بنوں گا،ورنہ نہیں۔چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کا یہ بھی کہنا ہے کہ جو ہمارے پاس ووٹ مانگنے آئے ، ان سے وزارتیں نہیں لیںگے، عوام کا فائدہ دیکھیں گے جبکہ صدارتی الیکشن میں آصف علی زرداری ہمارے امیدوار ہونگے۔ وہ اپنے اس موقف پر کہاں تک سٹینڈ کریں گی اس بارے کچھ نہیں کہا جاسکتا،تاہم بظاہر انہوں نے سخت موقف اختیار کر رکھا ہے۔ دوسری جانب ن لیگ کے خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کیساتھ ملکر حکومت بنائیںگے،پنجاب میں مسلم لیگ (ن)کو سادہ اکثریت حاصل ہے ۔دونوں جماعتوں کے درمیان بات چیت جاری ہے ۔ اسحاق ڈارکا کہنا ہے حکومت سازی کیلئے مذاکرات جلد مکمل کرلیںگے، پیپلزپارٹی کے قمرزمان کائرہ کا کہنا ہے کہ وفاقی کابینہ میں شامل ہونے کا ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا،امید کی جا رہی ہے کہ آئندہ ہفتے اتحادی حکومت بن جائے گی، آئندہ وزیر اعظم کےلئے قائد نواز شریف کی جانب دستبرداری کے بعد سے شروع ہونے والے سیاسی جوڑ توڑ کی بیل تسلی بخش طریقے سے منڈھے چڑھتی دکھائی نہیں دے رہی۔سیاسی مبصرین کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کو اقتدار سے دور رکھنے کے لیے اسے ایک سیاسی جماعت کے طور پر مکمل مفلوج کر دیا گیا تھا،لیکن انتخابات میں عوام کے ریسپانس نے سب کو حیران کر دیا اور اب یہی امر اگلی حکومت سازی کی راہ میں بڑی رکاوٹ بھی بن رہا ہے،انہیں اندازہ ہو گیا ہے کہ مہنگائی کے قابو نہ آنے والے جن کی وجہ سے ایک مضبوط اپوزیشن انہیں کیسے تگنی کا ناچ نجائے گی۔ انتخابی نتائج پرالزامات کی بھر مار کے بعد ن لیگ، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور دیگر جماعتوں کو خود پر اعتماد کا واضح فقدان محسوس کیا جا سکتا ہے،اسی لئے وہ ملکی سیاسی واقتصادی صورتحال اور عوامی رد عمل کے پیش نظر فاق میں حکومت بنانے سے گریز کرتی نظر آرہی ہیں۔یوں سیاسی جماعتوں کے درمیان پائی جانے والی بداعتمادی بھی ایک وجہ ہے۔ماہرین کا ماننا ہے کہ اس صورتحال نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ سب کے لئے بظاہر شدید مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔خزانہ خالی ہے اور جو بھی پارٹی وفاق میں حکومت بنائے گی اسے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد، نئے ٹیکسوں کا نفاذ اور نجکاری سمیت کئی مشکل فیصلے کرنا پڑیں گے۔پھر اس جماعت کو ان فیصلوں کی سیاسی قیمت بھی چکانا پڑے گی۔پھر یہاں ایک نئی افتاد یہ آن پڑی ہے کی ہفتے کے روز کمشنر راوالپنڈی لیاقت چٹھہ کے انکشافات نے نون لیگ کی قیادت کو بھی تنہااقتدار لینے سے متعلق دوبارہ سوچنے پر مجبورکر دیا ہے۔ پاکستان کے سیاسی منظر نامے کے لیے اگلے چند دن یقینابہت اہم ہیں۔ تجزیہ کاروں کی عمومی رائے یہی ہے کہ بے یقینی اور عدم استحکام کی اس کیفیت سے مل جل کر نمٹا جائے۔ورنہ اس کا ناقابل تلافی نقصان پوری قوم کوہوگا۔ وقت کا ناگزیرتقاضا ہے کہ ایک مستحکم اور پر اعتماد حکومت کے قیام کےلئے پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم سمیت جو جماعتیں بھی حکومت سازی میں تیار ہیں وہ پوری طرح حکومت کا حصہ بن کر قومی مفاد میں باقاعدہ شریک ہوں اور قوم کو مشکلات سے نکالیں۔درپیش حالات کے تیور بتارہے ہیں کہ سیاسی پارٹیوں نے مل جل کر ملک کے مفاد میں سر نہ جوڑا تو سیاسی درجہ حرارت بڑھ سکتا ہے۔
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ ملک کیلئے سود مند
پاکستان نے اپنی سرزمین میں انتہائی تاخیر کا شکار گیس لائن منصوبے کو دو مرحلوں میں مکمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور سب سے پہلے گوادر سے پائپ لائن کا 80کلومیٹر حصہ بچھانے کا منصوبہ تیار کر لیا ہے تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ اسلام آباد کے حکام اس میگا پراجیکٹ کے بارے میں کتنے سنجیدہ ہیں۔پاکستان جرمانے سے بچنے کے لیے پہلے مرحلے کے تحت گوادر سے ایرانی سرحد تک 81کلومیٹر پائپ لائن بچھائے گا خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل نے 781کلومیٹر کی کل پائپ لائن کے حصے کے طور پر پہلے 81کلومیٹر بچھانے کے منصوبے کی بھی منظوری دی جسے بعد کے مراحل میں نواب شاہ سے منسلک کیا جائے گا۔ ایران نے پہلے ہی پاکستان کو 180دن کی ڈیڈ لائن میں ستمبر 2024تک توسیع کر دی ہے اور اس سلسلے میں پیٹرولیم ڈویژن جلد ہی وفاقی کابینہ سے 81 کلومیٹر پائپ لائن بچھانے کے لیے انتظامی منظوری طلب کرے گا اور وزارت خزانہ جی آئی ڈی سی کے بورڈ سے مطلوبہ فنڈنگ کا بھی بندوبست کرے گی۔ منصوبے کے مطابق 81 کلومیٹر طویل پائپ لائن گوادر کو آئی پی گیس لائن منصوبے سے منسلک کرے گی اور ابتدائی طور پر گوادر میں گیس استعمال کی جائے گی۔ اگر امریکا نے کسی قسم کی پابندیاں نہ لگائیں تو پائپ لائن کو گوادر سے نواب شاہ سندھ تک بڑھایا جائے گا۔ اگر واشنگٹن پابندیاں لگاتا ہے تو پاکستان کے پاس اس منصوبے کو ترک کرنے کی معقول وجوہات ہوں گی اور اس طرح وہ 18ارب ڈالر کے جرمانے اور ثالثی عدالت کی کارروائی سے بچ جائے گا۔ تاہم ایران نے پہلے ہی پاکستان کو 180 دن کی ڈیڈ لائن میں ستمبر 2024 تک توسیع کر دی ہے کیونکہ وہ انتہائی تاخیر کا شکار آئی پی گیس لائن منصوبے پر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور اگر اسلام آباد کے حکام مثبت جواب دینے میں ناکام رہے تو تہران پیرس میں قائم بین الاقوامی ثالثی سے 18ارب ڈالر کے جرمانے کا مطالبہ کرے گا۔ تاہم، ایران نے ساتھ ہی پاکستان کو اپنی قانونی اور تکنیکی مہارت کی پیشکش بھی کی کہ وہ 180 دن کی ڈیڈ لائن کے اختتام سے قبل مشترکہ طور پر جیت کی حکمت عملی پر کام کرے جس کے تحت اس منصوبے کو اس طرح عملی شکل دی گئی ہے کہ ثالثی سے بچا جا سکے اور پاکستان ایران پر عائد امریکی پابندیوں کے کسی بھی اثر سے محفوظ رہے۔پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ پاکستان کےلئے سود مند ہے۔پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کا معاہدہ امریکہ کی ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے سے پہلے ہوا تھا۔خطے میں تیزی سے رونما ہوتی تبدیلیاں ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں کہ یہ پاکستان کے مفاد میں ہے کہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو جلد از جلد مکمل کیا جائے۔
دہشتگردی کی کوشش ناکام
ڈیرہ اسماعیل خان میں تھانہ چودھوان پر دہشتگردوں نے رات کے وقت اچانک حملہ کردیا، جدید ہتھیاروں سے فائرنگ کی گئی ، اس دوران مقامی مساجد میں دہشتگردوں کےخلاف اکٹھا ہونے کے اعلانات کئے گئے جس کے بعد مقامی لوگو ںنے پولیس کےساتھ مل کر دہشتگردو ں کےخلاف لشکر کشی کی بعد میں تھرمل کیمروں میں نظر آنے والے دہشتگرد فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔کوئی بھی دہشتگردی سہولت کاری کے بغیر نہیں ہوتی آخراس کے پیچھے کوئی اورہاتھ بھی کارفرماہوتے ہیں۔دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو دشمن کی آشیر باد حاصل ہوتی ہے۔ دہشت گردی کے مکمل خاتمے کےلئے سب سے پہلے دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا خاتمہ ناگزیر ہے۔ ہمارے اداروں کا ہر اقدام اسی طرف بڑھ رہا ہے۔ڈیرہ اسماعیل خان میں پہلے بھی تھانے پر حملہ کیا گیا پھر پولیس کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا۔ دشمن ہر صورت پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ نئی حکومت کو دیگرچیلنجوں میں سب سے بڑاچیلنج دہشتگردی کا ہوگا اس پر سب کو متحد ہونا ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے