خودسازاورتاریخ ساز لوگوں کی عادات واطواراور رویوں میں بظاہر بڑا معمولی سامگرحقیقتاً زمین،آسمان کا فرق ہوتا ہے۔اس فرق کو جاننے سے قبل یہ چھوٹا سا قصہ پڑھئے۔مسزمارگریٹ تھیچر1975میں برطانیہ کی معروف سیاسی جماعت کنزرویٹوپارٹی کی سربراہ مقرر ہوئیں ۔ 1979 تا 1990دو بار برطانیہ کی مشہورِ زمانہ وزیرِاعظم رہیں ۔ جون 1983کے جنرل الیکشن میں کنزرویٹوپارٹی کامیاب ہوئی ۔ مسزمارگریٹ تھیچردوبارہ برطانیہ کی وزیرِاعظم مقررہوئیں تو اس کامیابی کے فوری بعد مسزتھیچرنے پہلا کام یہ کیا کہ اپنی پارٹی کے ایک انتہائی اعلیٰ دماغ،اور محنتی عہدیدار مسٹر فرانسس پم کو حکومت سے علیحدہ کردیا ۔حالانکہ مسٹرفرانسس ایک بڑے سیاسی خاندان کے فرد ہونے کے ساتھ ساتھ برطانیہ کے دوبار کامیاب وزیرخارجہ اور کنزرویٹوپارٹی کے مختلف عہدوں پہ فائز رہ چکے تھے۔ انہیں عہدے سے ہٹانے کی وجہ صرف یہ تھی کہ انھوں نے 1985کے جنرل الیکشن کی مہم کے دوران اپنی ایک تقریرمیں چھوٹی سی اصلاحی بات کردی تھی۔ جسے مسزتھیچرنے اپنے اوپر تنقیدجانا اور اسے ناقابلِ برداشت سمجھا اس پاداش میں وزیرِاعظم بنتے ہی جماعت کے ایک اعلیٰ دماغ اور مخلص عہدیدارکو وزرات سے فارغ کردیا۔ پھر اس کا نتیجہ وہی نکلا جو تیسرے درجے کی جماعتوں کا ہوتاہے۔ قابل اوراعلیٰ فکر کے لوگ کسی بھی جماعت،تنظیم اورادارے کےلئے بڑا سرمایہ ہوتے ہیں۔ ویسے توانسان کی یہ عام کمزوری ہے کہ وہ تنقیدبرداشت نہیں کرتا۔مگرہماری سیاسی و مذہبی جماعتوں ، اداروں کے اکثرذمہ داران میں یہ کمزوری پوری قوت کے ساتھ موجود ہے۔اس کمزوری کا سب سے بڑانقصان یہ ہوتا ہے کہ ایساآدمی اچھے ساتھیوں سے خودتومحروم ہوتا ہی ہے۔اس کے علاوہ وہ جس جماعت یا ادارے کا سربراہ ہوتا ہے اسکی تنگدلی کی وجہ سے وہ جماعت یا ادارہ بھی تیسرے درجے کا ادارہ بن جاتاہے۔ کوئی بھی اعلیٰ کام اور تاریخ سازکارنامہ اعلیٰ قابلیت کے ساتھیوں کی مددکے بغیرسرانجام نہیں دیا جاسکتا۔یہ اعلیٰ لیاقت کے ساتھی اور دوست اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہوتے ہیں۔اعلیٰ قابلیت کے ساتھیوں کو اپنے ساتھ جوڑنے کی واحدتدبیریہ ہے کہ ان سے خوشامدکی توقع نہ رکھی جائے بلکہ انکی مثبت اوراصلاحی تنقیدکو برداشت کیا جائے۔انکے پرُخلوص اختلاف ِرائے کو رحمت گردانا جائے ۔ کیونکہ اعلیٰ ذہن کے صاحبان اپنے غوروفکراور اپنی ذہنی وفکری آزادی کومقیدنہیں کرسکتے ۔ اب اگر سربراہِ ادارہ وتنظیم وسیع الظرف انسان ہوگا تو وہ اپنے باصلاحیت ساتھیوں کی فکری آزادی اورانکے اختلاف کو بُرانہیں مانے گا ۔ اس طرح وہ ایسے تمام لوگوں کوایک ساتھ جوڑے رکھے گا۔اسکے برعکس اگرسربراہ تنگ نظر،اورخودساز انسان ہوگا تووہ ایسے لوگوں کی قدرکی بجائے خوشامدی لوگوں کوپسندکرے گا۔اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کی جماعت،تنظیم یاادارہ تیسرے درجے بلکہ درجہ چہارم کے لوگوں کی ٹولی بن کے رہ جائے گا۔ایسی جماعت سے وابستہ لوگ ممکن ہے سماج کی اِیلیٹ کلاس سے اچھے تعلق وروابط تو قائم کرلیں ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے وہ اچھا مال پانی بھی بنالیں حتیٰ کہ وہ ملکی اقتداروحکومت سے بھی کچھ نہ کچھ حصہ وصول لیں مگرملک وقوم اور دین وملت کےلئے کوئی خاطرخواہ اور قابلِ ذکر،تاریخ سازکارنامہ سرانجام نہیں دے سکتے۔تاریخ سازانسان کی نظراسکے مشن پہ ہوتی ہے وہ صرف اپنی تعریف کا متمنی نہیں ہوتا۔وہ مثبت تنقیدکو اپنی اصلاح کا ذریعہ بنالیتاہے۔تاریخ ساز انسان ہرموقع پہ کرسیِ صدارت کا شوق پسندنہیں ہوتابلکہ حقیقت پسندانسان ہوتا ہے ۔ بس یہی شوق پسندی اورحقیقت پسندی کا فرق ہی ایک خودسازانسان اورتاریخ سازانسان میں ہوتا ہے۔ کاش ہماری جماعتوں،اداروں اور تنظیمات کے ذمہ داروں کونہ سہی کارکنوں ، عہدیداروں،اور معاونین کوہی اس خودسازی اورتاریخ سازی کے فرق کی سمجھ آجائے تویقیناً کوئی نہ کوئی قابلِ رشک تاریخ سازکام ہوسکتا ہے۔ خودساز انسان نرگسیت اور خودپسندی شکار ہوتا ہے ۔ خودساز انسان خود غرضی ، خودنمائی، خوشامد پسندی کے امراض کا شکار ہوتا ہے۔خودپسندی یا نرگسیت کیا ہے؟کالنز انگلش ڈکشنری کے مطابق اس کا مطلب ہے اپنے آپ کوخاص طور پر اپنے روپ میں غیر معمولی دلچسپی اور اس سے متاثر ہونا ۔ خود پسندی اپنی اہمیت اور صلاحیتوں کے حد سے بڑھے ہوئے احساس اور اپنے آپ میں دلچسپی کا دوسرا نام ہے۔ خودپسندی کے کچھ ایسے پہلو ہیں جو کسی حد تک شاید ہم سب میں موجود ہیں لیکن زیادہ تر معاملوں میں یہ ایک بیماری کی شکل میں سامنے آتی ہے،جیسے نارسیسٹک پرسنیلیٹی ڈس آرڈر (این پی ڈی) یعنی یہ خیال ہونا کہ میں بہت ہی اہم ہوں۔نرگسیت یا خود پسندی کے مریض کی پہچان کےلئے ماہرین ِنفسیات نے باقاعدہ علامات بیان کی ہیں ۔ ایک برطانوی کنسلٹنٹ