دنیا کی خاموشی چیخ چیخ کر انسانیت کے زوال کا اعلان کررہی ہے غزہ جہاں کبھی بچے پتنگیں اڑاتے تھے آج وہی بچے ملبے تلے دبے ملتے ہیں جہاں مسجدوں سے اذانوں کی صدائیں گونجتی تھیں آج وہاں صرف دھماکوں کی گرج میں انسانون کی لاشیں ہوا میں اڑتی نظر آتی ہیں یہ کوئی پرانی کہانی نہیں بلکہ ہمارے سامنے روز بہ روز لکھی جا رہی المناک داستان ہے۔ فلسطین کے شہید نہ صرف زمین میں دفن ہو رہے ہیں بلکہ دنیا کے ضمیر میں بھی 2023 کے آخر سے شروع ہونے والی اسرائیلی جارحیت نے جس سفاکیت سے مظلوم فلسطینیوں کو نشانہ بنایا اس کی مثال تاریخ میں کم ہی ملتی ہے بمباری میں تباہ ہونے والے اسپتال، اسکول، پناہ گاہیں اور سب سے بڑھ کر انسانی اجسام سب کچھ بین الاقوامی اصولوں اور ضمیروں کی موت کا اعلان ہیں ہزاروں بچے، جن کی عمر کھیلنے کی تھی، آج قبروں میں سکون ڈھونڈتے ہیں۔اقوامِ متحدہ کی رپورٹیں چیخ چیخ کر کہتی ہیں کہ یہ نسل کشی ہے مگر بڑی طاقتیں صرف مذمت کی رٹی رٹائی لائن دہرا کر خاموش ہو جاتی ہیں کیونکہ جن کے ہاتھوں میں اختیار ہے وہی ظالم کے ساتھ کھڑے ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ہم، جو اپنی ٹی وی اسکرینز پر شہادتوں کے مناظر دیکھ کر ایک لمحے کو آنکھیں نم کر لیتے ہیں اور اگلے ہی لمحے وہی برگر کھاتے ہیں جس کی آمدنی ممکنہ طور پر انہی بمباریوں کی پیٹھ تھپتھپاتی ہے۔پاکستان میں ایسی درجنوں کمپنیاں اور برانڈز ہیں جن کی عالمی وابستگی اسرائیل یا اس کے حامی اداروں سے ہے ان میں مشہور ترین نام سرفہرست ہیں ان کمپنیوں نے براہ راست یا بالواسطہ اسرائیلی افواج یا معیشت کو سپورٹ کیا ہے یا اسرائیل میں بڑی سرمایہ کاری رکھتی ہیں۔یہ برانڈز محض کھانے پینے یا روزمرہ استعمال کی چیزیں فراہم نہیں کرتے یہ ایک سوچ، ایک نظام، اور ایک تسلط کی علامت بن چکے ہیں ایسی مصنوعات کا استعمال صرف سہولت نہیں بلکہ شعور کا امتحان ہے کیا ہمیں اب بھی یہ سمجھنے میں دیر ہے کہ ہم کس طرف کھڑے ہیں؟یہ معاملہ صرف بائیکاٹ کا نہیں بلکہ اختیار اور اختیار کے استعمال کا ہے اگر ہم واقعی فلسطین کے ساتھ ہیں تو ہمیں صرف سوشل میڈیا پر پوسٹ لگانے سے آگے بڑھ کر عملی قدم اٹھانا ہو گا ہمیں ان برانڈز کا بائیکاٹ کرنا ہوگا جن کا منافع مظلوموں کے خون سے سیراب ہوتا ہے ہمیں مقامی اور متبادل مصنوعات کو ترجیح دینی ہوگی اور اپنی آنے والی نسل کو شعور دینا ہوگا کہ جس قیمت پر یہ سہولتیں مل رہی ہیں وہ کسی معصوم کے لہو سے لکھی گئی ہے۔فلسطین کے بچوں کی چیخیں ہم سے سوال کر رہی ہیں”کیا تمہیں ہماری زندگی سے زیادہ اپنی خواہشیں عزیز ہیں؟”یہ وقت ہے کہ ہم بحیثیت قوم اور امت، بیدار ہوں صرف رمضان یا کسی مخصوص دن کی یادداشت میں نہیں بلکہ ہر روز، ہر خریداری، ہر فیصلہ میں یہ بات شامل ہو کہ ہم ظالم کا ہاتھ مضبوط نہیں کریں گے اور ہم مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوں گے، خواہ وہ آواز کمزور ہو اور سچائی پر پردے پڑے ہوں۔
قارئین میری بات کو یاد رکھیں،یہ کالم بھی محض الفاظ کی ترتیب ہے جب تک آپ اسے اپنے عمل کا حصہ نہ بنائیں۔آیئے فلسطین کے شہیدوں کی یاد میں ان کے خون کی حرمت کے لیے ہم آج ایک عملی قدم اٹھائیں بائیکاٹ صرف ایک احتجاج نہیں ایک بیدار دل کی گواہی ہے۔ورنہ تاریخ ہمیں بھی خاموش مجرموں کی فہرست میں لکھ دے گی۔
کالم
” خونِ مظلوم اور جہادِ بائیکاٹ "
- by web desk
- اپریل 17, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 29 Views
- 3 دن ago