اسرائیل سات اکتوبر سے غزہ پر قیامت صغری ٰڈھا رہا ہے۔اسرائیل اس بھیڑیا جیسے ہے جو بھیڑ کو کہتا ہے تم پانی کو گندلا کر رہی ہو جبکہ پانی دوسری سمت بہہ رہا تھا۔اسے کھانے کےلئے کوئی بہانہ کر رہا تھا۔ یاد رہے اسرائیل غزہ کا وہ علاقہ ہے جہاں تیل اور گیس کے زخائر سے مالا مال ہے۔ان پر یہ سب مل کر قبضہ کر رہے ہیں۔اس جنگ کو روکنے کے بجائے جلتی پر تیل ڈالنے کیلیے بھارتی نڑاد ہندو برطانوی وزیر اعظم رشی سونک اسلحہ سے بھرے ہوئے فوجی طیارے پر اسرائیل پہنچا۔ دنیا نے ایسا منظر اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا کہ کسی ریاست کا وزیر اعظم اس انداز سے ہنگامی دورے پر اسلحہ سمیت کسی کی مدد کو پہنچا ہو۔ جبکہ اسرائیل انسانیت کے خلاف جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے یہ اسے مزید نہتے مسلمانوں کے خلاف اسلحہ دینے پہنچا ہے۔ اس منظر کو فلمایا گیا تاکہ مسلمانوں کو ڈرایا گیا کہ جان لو ک ہم سب اکٹھے اور متحد ہو کر فلسطین کے مسلمانوں کو تباہ کرنے اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔ برطانیہ اور مغرب جس طرح ان ظالمانہ کاروائیوں پر اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں اس کی اجازت و مثال تو کسی وحشیانہ قانون میں بھی نہیں۔±ماضی قریب و بعید کی تاریخ میں ایسی مثال کہیں نہیں ملتی۔برطانیہ وہی ہے جس نے اسرائیل کو فلسطینیوں کے ساتھ بسایا۔یہ وہی ملک ہے جس نے پاکستان کی آزادی میں کشمیر کو متنازع قرار بنایا تاکہ یہ چین کی زندگی بسر نہ کریں۔کبھی کشمیریوں پر مظالم کرنے کیلئے بھارت کے ساتھ یہ کھڑے ہوتے ہیں اور کبھی فلسطین کے مسلمانوں کو تباہ کرنے کیلئے اسلحہ لیکر پہنچ جاتے ہیں۔ مسلم ممالک اتنا تو کر سکتے ہیں ان کے باشندوں کو ملک بدر ہی کر دیں۔ جبکہ انہوں نے مسلمانوں کو بتادیا ہے کہ جنہیں وہ گلے لگاتے ہیں وہ انسانیت کے مجرم مظلوموں کے قاتل اور فلسطین کو مٹا دینے کا عزم رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں کرنا ہے جو کر لو۔ہمارے حکمران وہ ہیں جو فارن فنڈنگ بھارت اور اسرائیل سے لیتے ہوئے شرم محسوس نہیں کرتے۔مسلمان کے مقابلے میں یہودی سالے کو سپورٹ کرتے ہو? برا نہیں سمجھتے اور عام شہری ہمارے چند ٹکوں کی خاطر اپنے مسلمانوں بھائیوں انسانوں کو کیمکل سے بنایا ہوا دودھ فروخت کرتے ہیں، کھانے پینے کی اشیا میں ملاوٹ کرتے ہیں۔ جھوٹ بولتے ہیں۔ دکھاوے کی عبادات کرتے ہیں ، انصاف کو بیجتے ہیں۔ایسا کر کے کوئی شرم محسوس نہیں کرتے مگر ہیں مسلمان۔یعنی جیسے حکمران ویسے ہی عوام۔ کون نہیں جانتا کہ اس وقت فلسطین میں خون کی ہولی اسرائیل کھیل رہا ہے۔ زندہ انسانوں کو زمین کھود کر ہاتھ باندھ کر پہلے گراتے ہیں پھر ان پر گولیاں برساتے ہیں۔ کوئی ان کو روکنے والے ہاتھ نہیں۔ اس وقت دنیا میں انسانی حقوق کی تنظیموں کی انکھیں کان بند ہیں ہونٹ سلے ہوئے ہیں۔ انصاف کی عدالتوں پر تالے ہیں۔ اس لئے کہ یہ سب تنظیمیں ان کے تابع کام کرتی ہیں۔۔دنیا میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون نافذ ہے۔ جس کو یہ قانون دکھائی نہیں دیتا وہ غزہ کا علاقہ جا کے دیکھ لے۔ کس طرح زبردستی قبضہ کر رہے ہیں دن رات غزہ کی ابادی پر بم برسائے جا رہے ہیں۔ پھر بھی دنیا کے تمام ترقی یافتہ انسانی حقوق کے چمپین علمبردار مملک ان کا ساتھ دے رہے۔ ان کے ممالک میں جلوس نکل رہے ہیں اور یہ ممالک پھر بھی اسرائیل کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ اسرائیل کی وحشیانہ بمباری سے جہاں نہ اسپتال محفوظ ہیں نہ یو این کی پناہ گاہیں محفوظ ہیں نہ سکول محفوظ ہیں نہ کوئی عبادت گائیں محفوظ ہیں۔نہ عورتیں نہ بچے نہ بوڑھے محفوظ ہیں۔ غزہ میں پینے کا پانی نہیں مگر انسانی خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں۔ زمین سرخ ہے مگر دنیا کے مسلمان سوا ئے گالیاں، بد دعائیں دینے کے کچھ نہیں کر رہے۔ یہودیوں کا ہر شعبہ زندگی پر ساری دنیا پر کنٹرول ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ نوبل انعام ان کے حصے میں آتے ہیں۔ دنیا کی ہر فیلڈ میں یہ یہودی چھائے ہوئے ہیں۔ میڈیا، فلم انڈسٹری، سیاست،آ ئی ٹی معاشی اداروں پر ان کا کنٹرول ہے۔ اس وجہ سے یہ دوسرے ممالک کو چلاتے بھی ہیں۔ حکومتوں کو بناتے بھی ہیں،یہ دنیا کے کنگ میکر ہیں۔اگر ہم اج مسلم ممالک اپنے مذہب اسلام پر عمل کررہے ہوتے زندگیاں گزار رہے ہوتے تو جو کچھ فلسطینیوں اور کشمیریوں پر ظلم ہو رہے ہیں وہ نہ دیکھ رہے ہوتے۔لگتا یہی ہے مسلم ممالک کے باشندے نام کے ہی مسلمان ہیں۔ جس کی وجہ سے اسرائیل کے مظالم فلسطین غزہ پر اور بھارت کے مظالم کشمیریوں پرجاری ہیں۔ ماضی دوہزار چھ میں بھی لبنان پر ایسے ہی اسرائیل مظالم کرچکا ہے۔اس وقت بھی اقوام متحدہ کے کمپاونڈ کے پناہ گزینوں پر وحشیانہ بمباری کی گئی تھی۔اس وقت بھی کوئی جنگی جرائم اس پر نہیں لگے تھے۔ کل بھی اسرائیل ویسا ہی ظالم تھا آج بھی مسلمان ویسے ہی مظلوم ہیں۔ہم نے مشکل وقت میں ہمیشہ غیبی مدد کی امید رکھی ہے جب کہ کہا جاتا ہے کہ غیبی مدد نہ کبھی اسرائیل کا قیام روکنے کےلئے آئی، نہ بابری مسجد کے وقت آئی، نہ عراق اور شام کے وقت آئی، نہ کشمیر کو ازاد کرانے کےلئے آء۔یاد رہے کہ غیبی مدد ماضی میں آتی رہی ہے جیسے جنگ بدر میں آئی۔ جب 1000 کے مقابلے میں 313 میدانِ جنگ میں مسلمان ا±ترے تھے ۔ غیبی مدد جنگ خندق میں آئی جب اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے محبوب نے پیٹ پر 2 پتھر باندھے اور خود خندق کھودی اور میدانِ جنگ میں ا±ترے ۔جبکہ آج کا مسلمان بددعائیں کر کے غیبی مدد کے منتظر ہے۔ ہم مسلمان سب کچھ اللہ تعالیٰ کے ذمہ کر کے غیبی مدد کے منتظر رہتے ہیں۔ اپنے حق کیلئے کھڑے ہونے سے ڈرتے اور کتراتے ہوئے آسمانوں سے فرشتوں کے نازل ہو کر مسلمانوں کی غیبی مدد کے منتظر رہتے ہیں۔ایسی صورت میں غیبی مدد نہیں آتی۔ بھوک افلاس، زلزلے اور سیلاب ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری، جھوٹ، کم تولنا، ملاوٹ کی شکل میں ہم پر یہ عزاب نازل ہے۔ اسرائیل کے مظالم پر گالیاں بددعائیں تقریریں فوٹو سیشن کرتے ہیں ۔ جبکہ ہماری دعائیں ہمارے کرتوتوں کی وجہ سے بےاثر ہو چکی ہیں۔ کہا جاتا ہے ابراہیم بن ادہم بصرہ کے بازار سے گزرے تو لوگ ان کے اردگرد اکٹھے ہو گئے اور کہنے لگے: حضرت! کیا وجہ ہے کہ ہم دعائیں کرتے ہیں مگر قبول نہیں ہوتیں؟!فرمایا: کیونکہ تمھاری دس عادتوں کی وجہ سے تمہاری دعائیں قبول نہیں ہوتیں ۔ پوچھا وہ دس عادات کون سی ہیں؟ کہا 1۔ تم نے اللہ کو پہچان تو لیا مگر اس کا حق ادا نہیں کرتے۔2۔ تم دعوے کرتے ہوکہ تمھیں رسول اللہ سے محبت ہے ۔ مگر اس کے باوجود تم نے ان کے راستے کو چھوڑ دیا ہے3۔ تم نے قرآن تو پڑھا مگر اس پر عمل نہیں کیا4۔ تم اللہ کی نعمتیں کھاتے ہو مگر ان کا شکر ادا نہیں کرتے! 5۔ تم کہتے تو ہو کہ شیطان تمھارا دشمن ہے، مگر بات بھی تم اسی کی مانتے ہو!.6۔ تم یہ مانتے ہو کہ جنت بر حق ہے مگر اس کےلئے عمل کرتے نہیں!7۔ تم تسلیم کرتے ہو کہ دوزخ بر حق ہے مگر اس سے بچنے کی تگ ودو کرتے نہیں! 8۔ موت کو ایک حقیقت سمجھتے ہو مگر اس کی تیاری نہیں کرتے! 9۔ نیند سے بیدار ہوتے ہو تو لوگوں کی عیب جوئی کرنے لگتے ہو اور اپنے عیب بھول جاتے ہو!10۔ تم اپنے ہاتھوں سے مردے دفن کرتے ہو مگر اس سے عبرت نہیں پکڑتے!لگتا ہے ہر مسلمان کے اندر یہ دس عادات موجود ہیں جن کی وجہ سے دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ ہم تو اب تک یہی سمجھتے رہے فلسطین پر یہودیوں کا قبضہ ہے باقی سارے اسلامک مملک ازاد ہیں لیکن اب اسرائیل کی موجودہ جنگ سے سمجھیں ہیں کہ فلسطین ازاد ہے باقی اسلامک ممالک پر یہودیوں کا قبضہ ہے۔ کہا تو یہ بھی جا رہا ہے غزہ پر قبضہ کرنے کےلئے حماس سے یہ حملہ کروایا گیا۔ جس طرح عراق کو کمزور کرنے کےلئے عراق کا کویت پر قبضہ کروایا گیا تھا پھر اسے جواز بنا کر عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔ جسے سب نے دیکھا بھی مگر مسلم ممالک سبق نہیں سیکھتے۔ کیا حماس کو نہیں معلوم تھا کہ اس کے بعد فلسطین اور غزہ کے رہنے والے مسلمانوں کے ساتھ کیا ہو گا؟ کاش ہوش سے کام لیتے۔ ہم دماغ کا استعمال کرتے نہیں قران کو سمجھ کر پڑھتے نہیں۔ کسی شاعر نے قرآن مجید کے بارے میں کیا خوب کہا!
قران طاقوں میں سجایا جاتا ہے
آنکھوں سے لگایا جاتا ہے
تعویذ بنایا جاتا ہے
دھودھو کے پلایا جاتا ہے
یاد رکھیں!! قرآن کو پڑھنے سے سمجھنے سے اور اس پر عمل کرنے سے ہی بہتری آ سکتی ہے ۔ ورنہ ڈرامے کرو گے تو ڈرامے ہی ہونگے۔
کالم
دعاﺅں میں اثر کیوں نہیں رہا؟
- by web desk
- نومبر 16, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 327 Views
- 1 سال ago
