کالم

دنیا میں جو آئے گا وہ جائے گا

اگر کسی کی گردن میں سر یا آ جائے، غرور ہو جائے تو وہ اسپتال اور قبرستان کا وزٹ کیا کرے۔ایسا کرنے والے کو یقین ہو جائے گا کہ زندگی کیا ہے اور زندگی کو چلا نے والا کون ہے اور ہم کیا ہیں کیا کر رہے ہیں۔ اس سے قبل ہم یہی سمجھتے رہتے ہیں کہ یہ سب کچھ جو ہمیں ملا ہے یہ میری محنتوں کا نتیجہ ہے۔ جب کہ ایسا نہیں ہے۔آپ اس زات کی مرضی رضا کے بغیر پیسوں کے ڈھیر ہونے کے باوجود کچھ کھا پی چل پھر نہیں سکتے۔ دنیا میں آنے اور دنیا سے جانے کا طریقہ ایک جیسا ہے۔ یعنی خالی ہاتھ آئے تھے اور خالی ہاتھ جائیں گے۔ قبر میں اسے سہولیات ملیں گی جسکے دنیاوی کرتوت ٹھیک ہونگے ایسے لوگ مرنے کے بعد دنیا سے اچھے طریقے سے رخصت ہوتے ہیں ۔ قبر میں امیر غریب بادشاہ فقیر سبھی ایک کفن میں اترتے ہیں۔ان میں بھی کچھ ایسے بدنصیب ہوتے ہیں جن کو کفن نصیب نہیں ہوتا اگر کچھ ساتھ لے کر نہیں جانا یا جا سکتے ہیں تو پھر دنیا میں دو نمبری سے پیسے بنانا جائیدادیں بنانا کیوں کر ہیں ہے۔اگر کسی کو مرنے سے پہلے بیماریاں لگتیں ہیں تو سمجھ جائیں اس مریض کے گناہ ختم ہو رہے ہیں۔ وہ ذات چاہتی ہے کہ دنیا میں ہی اس کے گناہ دھل کر میرے پاس آئے۔ بیماریوں کا موت سے کوئی تعلق نہیں۔مجھے بھی کنسر جیسی بیماری سے واسطہ پڑا تھا اس کے بعد سے میرے اندر بہت سی تبدیلی اب آ چکی ہے۔ اب میری سوچ پہلی والی نہیں رہی بدل چکی ہے۔یہ خدا کے قریب لانے اور گناہ ختم کرنےکا بہانہ ہے۔ کیا تندرست آدمی نہیں مرتے یا وہی مرتے ہیں جو بیمار ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ موت کے مختلف روپ ہیں۔ لہٰذا مختلف طریقے سے موت آتی ہے اور دنیا سے لے جاتی ہے۔موت وہ ہے جس کا کسی کو پہلے سے علم نہیں ہوتاکہ وہ کب کہاں آئے گی ۔انسان بے بس ہے۔ جانے والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی۔روکنا تو دور کی بات ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ ہمارے اختیار میں سوائے اپنے کرتوتوں کو ٹھیک کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اگر ہم عبادات کے ساتھ سنت نبوی ﷺ پر عمل کریں گے تو یہ جہاں بھی اچھا ہو گا اور اگلا جہاں بھی۔ ورنہ سب برا ہی ہو گا۔ ہم نے تو یہی سن رکھا ہے کہ سب سے بڑی عبادت انسان سے پیار کرنا ہے۔ لیکن انسان سے پیار تو دور کی بات رمضان کے مبارک مہینے کا بھی کچھ لوگ خیال نہیں رکھتے۔ دشمنی میں اپنے مسلمان بھائی کی جان لے لیتے ہیں۔ کیمیکل سے دودھ بنا کر اپنے جیسے انسانوں کو فروخت کرتے ہیں۔ کم تولتے ہیں،ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔چوریاں ڈکیتیاں کرتے ہیں ناجائز قبضہ کرتے ہیں اور بعض اگلے ہی لمحہ موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ کیا اب جو بنایا تھا چھینا تھا کیا یہ مرنے کے بعد ساتھ لے کر جا سکیں گے۔ ان کے یہ کام آئیں گے ۔جیسے کسی کو کانٹا کے چھپ جانے سے تکلیف ہوتی ہے اور وہ ہائے اللہ کہتا ہے تو سمجھ جائیں کہ اس وقت مریض کے گناہ کم ہو رہے ہوتے ہیں۔ اس دنیا میں کچھ ایسے بھی ہیں جو ایک بیماری سے نکل کر دوسری پھر تیسری بیماری سے گزر رہے ہوتے ہیں اس لئے کہ مریض کے پاس اس دنیا کے لیے وقت کم ہوتا ہے اور اس دوران فوت ہو کر بندہ اللہ کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ ان جنتی مریضوں میں میری والدہ بھی تھیں جنھیں آخری وقت میں گردوں کی تکلیف سے دوچار تھی ڈالاسزز شروع تھے۔ تکلیف میں اپنی والدہ کو یاد اس طرح کرتیں جیسے کوئی بچہ کسی مشکل میں ماں کو یاد کرتا ہے۔ ایسا کرنے سے انہیں راحت ملتی تھی۔ رمضان میں سحری کے وقت اللہ کو پیاری ہوئیں۔ اس رمضان میں میرے ہم زلف ملک مظہر الحق کو رمضان سے پہلے برین ہیمرج ہوا۔ اس بیماری کے مریض نارمل ہو جاتے ہیں۔ انہیں بروقت اسپتال لے جایا گیا۔ تھا لیکن جانبر نہ ہو سکا رمضان کے مبارک ماہ میں بیوہ تین بیٹیوں بہن بھائیوں کو چھوڑ کر سفر آخرت پر روانہ ہو گیا۔ خوش قسمت ہے وہ مسافر جسے یہ مبارک مہینہ نصب ہوتا ہے۔ دل دماغ ابھی تک نہیں یقین آرہا کہ وہ اب ہمارے درمیان نہیں ہے۔سفر پر رواں دواں ہے۔ غور کیا کہ موت ہے کیا ؟ موت کارشتہ زندگی سے کیا ہے؟یہ تہہ ہے انسان دنیا میں مسافر ہے۔ جیسے دوست بس پر لاہور جارہا ہوتا ہے۔انہیں آپ بس پر سوار کرتے پھر بس دیکھتے ہی دیکھتے بس سٹاپ سے نکل کر انکھوں سے اوجھل ہو جاتی ہے جدائی میں افسردہ ہو جاتے ہیں۔ اب دوسری طرف لاہور میں فیملی لیے آئے ہوتی ہے وہ بس کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ وہ آ رہے ہیں۔ بس ایسا ہی ہم دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں وہ جو ہم سے دور چلے جاتے ہیں۔ دوسری طرف جہاں پہنچ جاتے ہیں وہی ابدی زندگی ہے۔ نیک لوگوں کو خوش امداد کہنے کو فرشتے کھڑے ہوتے ہیں اگر کہا جائے کہ موت ایک پرانی زندگی کا خاتمہ اور نئی زندگی کی شروعات کا نام ہے تو غلط نہ ہو گا۔ جانے والوں کے لیے مغفرت کی دعا کرتے رہا کریں۔ انہیں یاد کرنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔ ہمیں زندگی کے معملات درست رکھنے کی ضرورت ہے۔ بد دعاں اور آں سے بچا کریں۔آزمائش سے ہم گزرتے رہتے ہیں۔ کبھی دے کر اور کبھی لے کر وہ از ماتا ہے۔ ہر حالت میں ہمیں اس ذات کا شکر ادا کرتے رہنا چاہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے