کالم

دوحہ امن معاہدہ،نیا موڑ یا پرانا سبق؟

دوحہ کی سرزمین ایک بار پھر عالمی نگاہوں کا مرکز بنی، جب پاکستان اور افغانستان کے درمیان جامع امن معاہدے پر دستخط ہوئے۔ قطر کی میزبانی اور قطر و ایران کی ضمانت نے اس معاہدے کو محض رسمی اعلامیے سے بڑھا کر عملی فریم ورک میں ڈھالنے کی کوشش کی۔ لیکن سوال یہ ہے: کیا یہ فریم ورک زمینی حقائق میں ڈھل سکے گا یا یہ بھی محض عارضی وقفہ ثابت ہوگا؟یہ معاہدہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دونوں ممالک کے تعلقات بداعتمادی اور سرحدی کشیدگی کے بھنور میں پھنسے ہوئے تھے۔ چمن اور تورخم جیسے حساس مقامات پر بارہا جھڑپیں ہوئیں، جبکہ پاکستان نے متعدد مرتبہ یہ مقف دہرایا کہ افغان سرزمین انتہاپسند عناصر کی محفوظ پناہ گاہ بنتی جا رہی ہے۔ اسی تناظر میں پاکستان نے اپنی قومی سلامتی کے خدشات کھل کر بیان کیے۔ دوسری جانب افغان مہاجرین کے حوالے سے پاکستان کی دہائیوں پر محیط انسانی ہمدردی اور فراخ دلی ایک روشن مثال رہی ہے یہی تضاد اس معاہدے کی معنویت کو دوچند کر دیتا ہے۔معاہدے کا مرکزی نکتہ یہی ہے کہ افغانستان اپنی سرزمین کسی تیسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا۔ اگر یہ یقین دہانی محض کاغذی نہ رہی، اور اس پر موثر عملدرآمد ہوا تو یہ دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کی نوعیت ہی بدل سکتا ہے۔ تاہم، ماضی کے غیر مؤثر وعدے ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ صرف الفاظ سے امن نہیں آتا؛ اس کے لیے مستقل مزاجی، شفاف نگرانی اور اعتماد سازی کی ٹھوس کوششیں ناگزیر ہیں۔یہ معاہدہ دراصل افغان قیادت کے لیے کڑا امتحان ہے۔ کیا وہ اپنے اندرونی منظرنامے میں موجود ان دہشت گرد گروہوں کے خلاف سنجیدہ کارروائی کر سکے گی، جن کی سرگرمیاں سرحد پار عدم استحکام کا باعث بنتی ہیں؟ اگر افغان حکومت اس ضمن میں مثر کردار ادا کرے تو یہ معاہدہ محض سفارتی فتح نہیں بلکہ ایک حقیقی سنگِ میل بن سکتا ہے۔قطر اور ایران کی حیثیت بطور ضامن غیر معمولی ہے۔ ان کی ذمہ داری صرف معاہدے کی گواہی تک محدود نہیں بلکہ انہیں تکنیکی، سیاسی اور سفارتی سطح پر اس کے نفاذ میں کردار ادا کرنا ہوگا۔ بالخصوص قطر، جو ماضی میں طالبان اور امریکہ کے مابین ثالثی کا کامیاب تجربہ رکھتا ہے، اس کی ساکھ اس معاہدے کی سنجیدگی کو تقویت بخش سکتی ہے بشرطیکہ موثر نگرانی اور عملدرآمد کا مکینزم ساتھ ہو۔ امن محض عسکری کارروائیوں کے خاتمے کا نام نہیں یہ باہمی اقتصادی روابط، سرحدی تعاون، عوامی سطح پر رابطوں کی بحالی اور مہاجرین کے مسئلے کے مستقل حل سے جڑا ہوا ہے۔ پاکستان نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر40 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو پناہ دی، مگر اب وقت آ گیا ہے کہ ان کے مسئلے کا ایسا حل تلاش کیا جائے جو انسانی وقار اور قومی مفادات، دونوں کے تقاضے پورے کرے۔معاہدے میں شامل وہ شقیں جو جنگ بندی، علاقائی خودمختاری کے احترام اور دہشت گردانہ کارروائیوں کے خاتمے کی بات کرتی ہیں، خوش آئند ضرور ہیں۔ لیکن ان کے ثمرات حاصل کرنے کے لیے نیت، عمل اور تسلسل یہ تین بنیادی عناصر درکار ہوں گے۔ ان میں سے کسی ایک کی کمی معاہدے کو صرف اچھی کاوش تک محدود کر سکتی ہے۔علاقائی تناظر میں بھی یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ معاہدہ صرف دو ممالک تک محدود نہیں۔ اس میں پڑوسی ریاستوں، علاقائی طاقتوں اور بین الاقوامی برادری کا کردار کلیدی ہوگا۔ ان تمام عناصر کو یکجا ہو کر اعتماد سازی، نگرانی اور سفارتی معاونت کے عمل کو آگے بڑھانا ہوگا۔دوحہ معاہدہ یقینا حوصلہ افزا آغاز ہے، مگر اس آغاز کو انجام تک پہنچانے کے لیے ہمیں نعروں سے نکل کر عمل کی دنیا میں قدم رکھنا ہوگا۔ پاکستان نے اپنی سنجیدگی دکھائی ہے، اب وقت ہے کہ افغان قیادت، ضامن ممالک اور عالمی برادری بھی پوری سنجیدگی اور خلوص کے ساتھ اس معاہدے کو کامیاب بنانے میں کردار ادا کریں۔دعا یہی ہے کہ یہ معاہدہ صرف عارضی مفاہمت نہ ہو بلکہ برادر اسلامی ممالک کے درمیان مستقل امن، استحکام اور ترقی کی بنیاد بنے۔ ورنہ تاریخ گواہ ہے کہ لفظوں سے عمل تک کا فاصلہ اکثر بہت طویل، پیچیدہ اور خاردار ہوتا ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے