(گزشتہ سے پیوستہ)
وہ حالت جنگ میں تھا ،جانتا تھا کہ پیچھے ایران ہے ،لیکن وہ ایران پر براہِ راست حملہ کرنے کا جواز نہیں رکھتا تھا۔دمشق حملے کے بعد ایران کو فوری طور پر بالواسطہ اس سے بڑا اور نقصان پہنچانے والا حملہ کرنا چاہیئے تھالیکن ایران نے براہ راست علامتی حملہ کر کے اسرائیل کو بین الاقوامی طور پر جواز فراہم کر دیا ہے کہ وہ ایران پر اچانک خطرناک حملہ کر گزرے۔سب سے پہلے اسرائیل نے امریکہ کو باقاعدہ آگاہ کر دیا کہ وہ ایران پر جوابی حملہ ضرور کریگا ۔ ایران نے انتباہ جاری کیا تھا کہ اگر ایران کو نشانہ بنایا گیا تو وہ پوری قوت سے جواب دے گا۔ امریکہ نے ایک آنکھ دباو¿ کر اسرائیل سے تحمل ، صبر اور جوابی حملہ کرنے سے گریز کی اپیل بھی کر رکھی تھی ایسی میسنی اپیل ایک طرح سے اجازت اور ترغیب ہوا کرتی ہے ۔اسرائیل نے علامتی جواب دینے کے لیے ایرانی دفاع کے نازک مقام اصفہان کا انتخاب کیا ۔اصفہان طویل عرصے نصف جہان کہلانے کے علاہ ایرانی ایٹمی تنصیبات ، میزائیل اور ڈرون طیاروں کی تیاری کے خفیہ مراکز اور جنگی ہوائی اڈے کا بار بھی اٹھائے ہوئے ہے۔اسرائیل نے اپنی غلیل کا پتھر یہاں تک پہنچا کر ایران کےساتھ ساتھ دنیا کو بھی دو طرح کے پیغامات ارسال کر دیئے ہیں ۔اول یہ کہ یار کے جسم کا ہر حصہ اور مقام میری رسائی میں ہے۔اور دوم یہ کہ ہم دونوں ملک پاگل ضرور ہیں ، لیکن اتنے پاگل بھی نہیں کہ دوسرے کےساتھ ساتھ خود کو بھی تباہ و برباد کر لیں۔اسرائیل کی طرف سے غزہ پر کیے گئے مظالم کو پس منظر میں دھکیل کر ایران نے اسرائیل کو جو مدد فراہم کی ہے ،اسے اسرائیل کیسے بھول سکتا ہے۔دونوں ممالک میں اپنے اپنے مذاہب کے انتہا پسند حکمران ہیں ۔میری پختہ رائے یہ ہے کہ مذاہب کی بجائے انسانیت کو تنازعات کی بنیاد ہونا چاہیئے،عالم انسانیت نے غزہ پر ہونے والے مظالم پر ایک ظالم ملک کی شدید مذمت کی۔اب ایران اسرائیل کی طرف سے اصفہان پر کسی قسم کے میزائیل یا ڈرون حملے کو اس لیے تسلیم کرنے سے گریزاں ہے کہ کہیں اسے پھر اس کا موثر جواب نہ دینا پڑ جائے۔ پوری دنیا بشمول امریکہ اس حملے پر بات کر رہے ہیں ،لیکن ایران سر کھجانے کے علاہ کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں ۔امریکی وزیرخارجہ اینٹونی بلنکن نے جی سیون ممالک کے اجلاس کے موقع پر اسرائیل کے ایران پر حملے کی خبروں کی تصدیق سے گریز کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس حملے سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ۔گویا سفارتی مہارت سے اسرائیلی حملے کی تصدیق بھی کردی۔ایران پہلے خاموش رہا ، پھر ایران کی سرکاری خبررساں ایجنسی نے بتایا کہ جمعہ کو صبح سویرے منہ اندھیرے اصفہان کے قریب دھماکے کی آوازیں سننے کے بعد ایران کے فضائی دفاعی میزائل سسٹم کو چوکس کردیا گیا تھا اور اس چوکس دفاعی ردعمل نے اصفہان کے ائربیس کی طرف داغے گئے تینوں ڈرونز کو تباہ کردیا گیا۔یہ وضاحت بھی کر دی گئی تھی کہ اس حملے میں ایران کے ایٹمی سے متعلق عمارات بالکل محفوظ ہیں۔ اسرائیل بھی ٹھگ ماری شکل بنا کر بیٹھا رہا ،تا آنکہ اب اس نے رفاہ پر تباہ کن حملہ کرکے اور اٹھارہ فلسطینیوں کو لقمہ اجل بناکر اپنی غارت گری کے تسلسل کو بحال کر لیا ہے۔ دو ممالک کے بیچ حکمت اور حرکات کا یہ انجماد کسی بہتر نتیجے کی طرف اشارہ کرتا دکھائی نہیں دیتا۔یہ بات درست ہے کہ خطے کے عرب ممالک میوزیکل کنسرٹ کروانے، مندر بنوانے اور ہندووں کی میزبانی کرنے میں مصروف ہونے کے باعث فلسطینیوں کے قاتل ملک پرحملہ نہیں کر سکتے۔ایسا حملہ کرنے کےلئے بھی امریکہ ہی سے درخواست کرنی پڑے گی، اور امریکہ مانے گا نہیں۔تو سمجھ لیں کہ عرب شیوخ عیش و عشرت اور مذہب فروشی کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کر سکتے۔انہیں اس ضمن میں معذور سمجھا جائے۔ وہ اب امریکہ کے اشارے پر اسرائیل کےساتھ مراسم استوار کرنے کےلئے کوشاں ہیں۔لیکن ایران کی بظاہر اسرائیل دشمنی بھی اسرائیل کی بقا ، سلامتی اور امریکہ و یورپ کے التفات کامل کی بنیاد ثابت ہو رہی ہے ۔ حکمت اور حرکات کا یہ انجماد تبدیلی چاہتا ہے ۔ایران کو اپنے ہمسایہ ممالک ،خصوصا پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو خالص بناتے ہوئے ہندوستان کے ساتھ اپنے مراسم کو سختی کے ساتھ دوطرفہ بنانے کی طرف توجہ دینی چاہیئے۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ایران نے ہندوستان کو پاکستان کے ساتھ اپنے شوق پورے کرنے کےلئے وسیع رسائی اور مواقع فراہم کر رکھے ہیں۔ایران کو یاد رکھنا چاہیئے کہ افراد ہوں یا اقوام، محبت ہمیشہ دو طرفہ ہوتی ہے ، یک طرفہ محبت حماقت اور خود فریبی کے سوا کچھ نہیں ہوا کرتی۔ایران میں بھارتی آپریٹرز کی موجودگی اور تعامل پاکستان کےلئے ضرر رساں ہے ۔ ایران کو اس طرف ترجیحی بنیادوں پر توجہ دینی ہو گی ۔
کالم
دوستانہ حملوں کی نئی ٹیکنالوجی
- by web desk
- اپریل 25, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 172 Views
- 8 مہینے ago