کالم

دو قومی نظریہ زندہ تھا ، زندہ ہے اور زندہ رہے گا

آج کل پاکستان اور دنیا میں بنگلہ دیش میں دہشت گرد حسینہ واجد سابق زیر اعظم کے استعفے ،بنگلہ دیش سے بھارت سے فرار اور بنگلہ دیش کے موجودہ تبدیل شدہ حالات پر باتیں ہو رہی ہیں۔ خاص کر بنگلہ دیش کے طالبعلموں کی طرف سے چلائی گئی کامیاب تحریک اور شیخ مجیب کے بت( اسٹیجو) اور ہتھیار ڈالنے کی یاد گاربتوں( مورتیوں) کو کرینوں سے اُکھاڑ پھینکنے کی ویڈیو پر تبصرے ہو رہے ہیں۔ یہ ویسا ہی ہے جیسے سویٹ یونین کو اسلام پسند افغانیوں نے شکست دی تھی۔ برزنیف نے اصلاحات سے کیمونزم کو ختم کیا تھا۔ پھرلینن کے بتوں( مجسموں) کو کرینوں سے گرایا گیا تھا۔انقلاب کے بعد قیدیوں کی رہائی اور اور ان کی زبانی اذیتوں کی کہانیوں نے انصاف پسند طبقوں کے دلوں کو ہلا دیا ہے۔ بھارت کا غرور بھی چکنا چور ہوا۔ بھارت کی وزیر اعظم مرحومہ اندرا گاندھی نے پاکستان کے دو ٹکڑے کرنے پر کہا تھا۔ میں نے” مسلمانوں سے ہندوستان پر ہزار سالہ حکمرانی کا بدلہ لے لیا، دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میں ڈوبو دیا“ دو قومی نظریہ تو اُس وقت جنم لیا تھا جب رسول اللہ کی کمانڈ میںاسلام کی پہلی جنگ ، غزوہ بدر ہوئی تھی۔ اس حق و باطل کی جنگ میں باپ بیٹے سے، بیٹا باپ سے، بھائی بھائی سے اوررشتے دار،رشتے دار سے لڑے تھے۔ ایک طرف اسلام اور دوسری طرف کفر تھا۔ ایک حق طرف حق اور دوسری طرف باطل تھا۔ ایک طرف کفر کی قومیت تھی۔ دوسری طرف اسلام کی قومیت تھی۔پھر حق جیتا تھا اور باطل ہارا تھا۔بلکہ اُس سے بھی پہلے ابراھیم ؑ نے بھی اپنے باپ سے دو قومی لڑائی تھی۔ ایک طرف کفار باپ تھا اور دوسری طرف اسلام کا شیدائی ابراھیم ؑ تھا۔ وہاں بھی حق و باطل کی اس لڑائی میں بھی ابراھیم ؑ جیتا تھا۔اللہ نے ابراھیمؑ کو پھر اُمتوں کا امام بنایا تھا۔پاکستان بھی دو قومی نظریہ کا اعادہ ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کو اللہ نے پیدا ہی اس لیے کیا تھا کہ وہ برصغیر میں دو قومی نظریہ کی بنیاد رکھے۔ قومی نظریہ زندہ تھا، زندہ ہے اورہمیشہ زندہ ر ہے گا۔ قائد اعظمؒ نے بھی رسول اللہ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے آئینی اور قانونی پُر امن جد وجہد کر کے دو قومی نظریہ کی بنیاد پر پاکستان حاصل کیا۔کسی فوجی قوت نے پاکستان حاصل نہیں کیا تھا۔ پاکستان بل لکل مدینہ کی اسلامی ریاست کی طرح برصغیر کے مسلمانوں کو اللہ نے عطیہ کے طور پر پیش کیا تھا۔اللہ زندہ و جاوید حقیقت ہے۔ وہ دنیا کا نظام چلا رہا ہے۔ جب برصغیر کے لوگوں نے یک زبان ہو کر اعلان کیا تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا”لا الہ الا اللہ“ دستور کیا” شہریت رسول اللہ“۔ تو اللہ نے تعالیٰ نے اپنی سنت پر عمل کرتے ہوئے برصغیر کے مسلمانوں کو پاکستان ایک عطیہ کے طور پر پیش کیا تھا۔ یہ اس لیے بھی تھا کہ رسول اللہ کی حدیث کے مطابق ابھی غزہ ہند پیش آنا ہے۔خانہ کعبہ سے تین سو ساٹھ بتوں کو گرانا تھا تو فتح مکہ ہوا۔ اب غزہ ہند کے ذریعے کافر بھارت کو فتح کر کے وہاں کے کروڑوں بتوں ( مورتیوں) کو بھی گرانا ہے ۔ محمود غزنویؒ کی طرح بت شکن بننا ہے۔یہ تو کب کا ہو گیا ہوتا ۔ اگر پاکستان حاصل کرنے والی جماعت اپنے اللہ کے ساتھ کیے وعدے کو پورا کرتی۔ پھراللہ بھی اُس کی مدد کرتا۔ اس ملک میں اسلام کا بابرکت نظام حکومت قائم ہو جاتا ۔ قرآن کے مطابق آسمان سے رزق نازل ہوتا اور زمین اپنے خزانے اُغل دیتی۔ دولت کی ریل پیل ہوتی۔ انسان کا احترام ، عزت اور قدر ہوتی، مہنگاہی کا نام و نشان نہ ہوتا۔ امن و امان ہوتا۔ لوگ روپے ہاتھوں میں لیے لیے پھرتے مگر کوئی زکوٰة لینے والا نہ ہوتا۔ پوری آبادی خوشحال ہوتی۔ یہ اللہ کام رسول نے اللہ کے حکم کے مطابق، مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست قائم کر کے ساری دنیا کو رول ماڈل دیا تھا۔ پھر خلفائے راشدینؓ نے اسی دنیا میں مدینہ کی فلاحی ریاست کے ماڈل پر عمل کر کے دنیا کو دکھا یاتھا۔ پاکستان حاصل کرنےوالی جماعت نے وعدہ خلافی کی اور اللہ سے جو وعدہ خلافی کرتا ہے اللہ اُس کو سزا دیتا۔ اللہ نے پاکستان بنانے والی جماعت کو” الف سے ہی“ تک کئی ٹکڑوں میں بانٹ دیا۔پاکستان پر نا اہل حکمران مسلط کر دیے۔ پاکستان کی موجودہ بربادی کے ذمہ دار بھی یہی حکمران ہیں ۔ پاکستان کو اسلام ہی جوڑ کے رکھ سکتا تھا۔ ایک اسلامی حکومت ہی مغربی اور مشرقی پاکستان، دونوں حصوں کو ملا کر رکھ سکتا تھا۔ اسلامی پاکستان ہی بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوںکی پشتی بانی کر بھی سکتا تھا۔ مگر جب اسلام کا بابرکت نظام حکومت قائم نہیں ہوا ،تو پھر قومیتیوں نے سر اُٹھایا۔ اُن میں سب سے بڑی قومیت بنگالی قومیت تھی۔شاعر اسلام شیخ محمد علامہ اقبالؒ نے مسلمانوں کو پہلے سے ہی قومیتوں کی زہر سے خبردار کر دیا تھا:۔
اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومے رسول ہاشمی
شیخ مجیب نے بنگلہ قومیت کے نام پر مغربی پاکستان کے خلاف مشرقی پاکستان کے عوام کو اُکسایا۔ جس نے بلا آخر پاکستان کے دو ٹکڑے کر دیے۔ بنگالی قومیت کو شیخ مجیب نے ہی پروان چڑھایا۔ پاکستان کو قومیت کے نام سے ٹکڑے کرنے کےلئے بھارت سے مل کر اگر تلہ سازش تیار کی۔بھارت سے دہشت گردوںکی مدد حاصل کی۔ مکتی باہنی کے ذریعے پرتشدد کاروائیوں کرائیں۔ہر اُردو بولنے والے پاکستانی کو مشرقی پاکستان سے نکالنے ، قتل کرنے، اس کی عورتوں کی آبرو زیزی کرنے، اُن کی جائیدادوں، مکانوں ، کاروبار سب پر قبضہ کر لیا۔یہ کام شیخ مجیب نے بھارت سے آئے ہوئے دہشت گردوں کے ساتھ مل کر کیا۔شیخ مجیب اور بھارت نے اسلام دشمن قوتوں کے ساتھ مل کر، الٹا پاکستانی فوج اور پاکستان کو بچانے والے بنگالیوں پر اس دہشت کا الزام لگا دیا۔ محب وطن بنگالیوں نے اپنا وطن مشرقی پاکستان کو بھارت کی بنائی ہوئی مکتی باہنی سے بچانے کےلئے البدر اور الشمش تنظیمیں بنا کر پاکستانی فوج کا ساتھ دیا ۔اندرا گاندھی اورشیخ مجیب نے پاکستان کوبچانے والے بنگالیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے۔ شیخ مجیب نے بنگلہ دیش کو بھارت کی کالونی بنا دیا۔بنگلہ دیش میں ایک ایک کر کے سارے اسلامی نشانات مٹانے شروع کر دیے ۔ یہ حالات دیکھ محب وطن بنگالی فوج کے چند نوجوانوں نے شیخ مجیب کو سارے خاندان کے ساتھ قتل کر دیا۔ اس کی بیٹی حسینہ واجد اس لیے بچ گئی کہ وہ اس وقت بنگلہ دیش میں موجود نہیں تھی ۔بعد میں بنگلہ دیش آئی بھارت کی اشیر آباد پر سیاست شروع کی۔ جبر سے بنگلہ دیش میں پندرا سال سے مسلط رہی۔ پورا بنگلہ دیش بھارت کے کنٹرول میں دے دیا۔ سارے محب وطن سیاستدانوں کو ہٹانے کےلئے کئی کو جعلی مقدمات بنا کر پسے زنداں ڈال دیا۔ان میں خالدہ ضیاءسابق وزیر اعظم بنگلہ دیش بھی شامل ہیں ۔ جانبدار جعلی وار کرائم ٹریبونل بنایا۔ اس جعلی وار کرائم ٹریبونل کو دنیا کے انصاف پسند حلقوں نے رد کر دیا۔ جماعت اسلامی کے چھ مرکزی لیڈروں کو اس جعلی وار ٹریبینل سے سزائیں دلا کر پھانسیایوں پر چڑا دیا۔ سیکڑوں کو پابندسلاسل کر دیا۔مقافات عمل کے بنگلہ دیش کے طالب علموں نے ملک میں ان مظالم اور بھارت نوازی کے خلاف مظاہرے شروع کیے۔ان طالب علموں پر تشدد کیا گیا۔ ہزار سے زیادہ طالب علموں کو حسنہ واجد کی پولیس نے گولیاں چلا کر شہید کر دیا۔ ایک دن میں سو سے زیادہ طالب علم کو شہید کیا گیا۔ دہشت گرد حسینہ واجد نے فوج کو ان پر گولی چلانے کا حکم دیا مگر فوج نے اس کے خلاف قانون حکم کو نہیں مانا۔بلکہ اُسے کچھ منٹ دیے کہ وہ استعفے دے اور ملک سے چلی جائے۔ آخری تقریر کرنی چاہی مگر فوج نے روک دیا۔فوجی ہیلی کاپٹر، پھر سی ون طیارے میں سوار ہو کر بھارت بھاگ گئی۔ لندن اور دوسرے ملکوں میں سیاسی پناہ کی درخواست کی مگر ان ملکوں نے اس درخواست مسترد کر دی ۔ ابھی تک بھارت اپنے آقا کے پاس موجود ہے اور سازشیں کر رہی ہے۔ بنگلہ دیش میں نوبل انعام یافتہ یونس نے عبوری حکومت بنائی۔ ملک سے بھارت کے نام و نشان مٹائے جارہے ہیں۔ اندرا گاندھی کاتکبر زمین بوس ہو چکا ہے۔ دو قومی نظریہ کو بنگالی عوام نے پھر سے زندہ کر دیا ہے۔ دو قومی نظریہ زندہ تھا، زندہ ہے اور ان شاءاللہ ہمیشہ زندہ رہے گا۔ چاہے دشمنوں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے