کالم

دو کروڑ انسانوں کا قاتل

تاریخِ انسانی عبرت سے بھری پڑی ہے۔ وہ جو خود کو طاقتور ترین سمجھتے تھے، وقت کے ایک تھپیڑے نے ان کی عزت، عظمت اور اقتدار کو خاک میں ملا دیا۔ انہی میں ایک نام جوزف سٹالن کا بھی ہے۔یہ وہی سٹالن ہے جس نے نوجوانی میں پادری بننے کا ارادہ کیا تھا، مگر دہریت کی گلی میں ایسا بھٹکا کہ خدا کے تصور سے نفرت کرنے لگا۔ اس کے نزدیک مذہب افیون تھا، اور خدا کا نام لینا جرم۔ اس کا ظالمانہ نظام ایسا تھا کہ جو شخص نماز پڑھتا، کسی آسمانی کتاب کو ہاتھ لگاتا یا مذہب کی بات کرتا، وہ ریاست کا مجرم بن جاتا۔ کلیساؤں اور مسجدوں کو شراب خانوں اور مویشیوں کے باڑوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ ہر وہ چیز جو روحانیت سے جڑی تھی، اس کی آنکھ میں کانٹے کی طرح چبھتی تھی۔جدید محققین کا کہنا ہے کہ اس کے دور میں کم از کم بیس ملین (دو کروڑ)انسان قتل کیے گئے۔ ان میں سے اکثر وہ تھے جو مذہب یا آزاد رائے پر یقین رکھتے تھے۔ کسی کے پاس قرآن ملا، کسی کے پاس بائبل، کسی نے عبادت کی تو وہ سیدھا سائبیریا کے کیمپس یا برف کے بیابانوں میں بھیج دیا جاتا، جہاں وہ بھوک، سردی اور اذیت سے مر جاتے۔ سٹالن کی موت بذاتِ خود ایک عجیب کہانی ہے۔ ایک رات شراب پی کر فلم دیکھنے کے بعد اپنے کمرے میں چلا گیا، اور پھر کئی دن تک کمرے سے باہر نہ نکلا۔ گارڈز کو سختی سے منع تھا کہ وہ اسے تنگ نہ کریں۔ بالآخر جب کمرہ کھولا گیا تو وہ زمین پر گرا ہوا تھا، اپنے ہی پیشاب میں لت پت، زبان بند، آنکھوں میں دہشت، جسم مفلوج۔اس کی بیٹی سویتلانہ کہتی ہے:میرے باپ نے موت سے پہلے آسمان کی طرف اشارہ کیا، جیسے وہ کسی نادیدہ طاقت سے معافی مانگ رہا ہو، مگر زبان نے ساتھ نہ دیا۔قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے:چکھ لے(عذاب کا مزہ) تو ہی تو تھا جو بڑا معزز اور زبردست بنا پھرتا تھا، الدخان :٩٤اسی طرح سورة الحاقہ:٣٣ میں ہے”وہ تو عظمت والے اللہ پر ایمان ہی نہیں رکھتا تھا۔سٹالن کی بیٹی بعد ازاں امریکہ چلی گئی، اور اپنے باپ کے الحاد سے تائب ہو کر عیسائیت قبول کی۔ اس کا بیان تھا:میں نے اپنے باپ کی آنکھوں میں وہ خوف دیکھا جو کسی سزا یافتہ مجرم کی آنکھوں میں ہوتا ہے۔ وہ خدا جسے وہ جھٹلاتا تھا، آخری وقت میں اس کا سامنا اسی کو کرنا پڑا۔یہ واقعہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ دنیا کی طاقت، اقتدار، بندوقیں، قید خانے، سب بے معنی ہو جاتے ہیں جب موت آتی ہے۔ نہ کوئی محافظ بچا سکتا ہے، نہ کوئی طاقت۔مولانا سید ابوالاعلی مودودی فرمایا کرتے تھے:ظلم جب حد سے بڑھ جاتا ہے تو خود فنا کا ذریعہ بن جاتا ہے۔اور علامہ اقبال نے خوب کہا تھا:
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا ہم کہیں ایسا نظام تو نہیں چلا رہے جو بظاہر مہذب ہو، مگر اس کی جڑوں میں ظلم چھپا ہو؟ کیا آج بھی ہمارے رویوں میں وہی روش تو نہیں جس نے سٹالن کو پیدا کیا؟ کیا کسی پر صرف اس کی سوچ، رائے، یا عقیدے کی بنا پر سختی تو نہیں کی جا رہی؟ کیا اختلاف کو جرم سمجھا جا رہا ہے؟یہ سوال کسی خاص حکومت، جماعت یا شخص کیلئے نہیں، یہ انسانیت کے ضمیر سے ہے۔ ہم سب کیلئے ہے۔اگر کبھی تاریخ ہمیں سکھاتی ہے، تو وہ یہ کہ ظلم کی عمر کبھی طویل نہیں ہوتی۔ وہ درخت جو ظلم کی بنیاد پر اگایا جائے، ایک دن اپنی جڑوں سمیت اکھاڑ دیا جاتا ہے۔قرآن کہتا ہے:اور تم ہرگز یہ نہ سمجھو کہ اللہ ظالموں کے کاموں سے غافل ہے۔ عمر خیام نے کیا خوب کہا تھا:
ہر صبح نئی زندگی کی دہلیز پر ہے
ہر شام کو محشر کا سایہ سا لگتا ہے
دنیا کا ہر آمر، چاہے وہ کسی نظریے کا ہو، انجام کے لمحے میں تنہا ہوتا ہے۔ سٹالن کی طرح زبان بند، آنکھیں خوف زدہ، اور فرش پر اوندھا گرا ہوا۔لہٰذا، وقت ہے کہ ہم تاریخ کو آئینہ سمجھ کر دیکھیں۔ ہم خود سے سوال کریں کیا ہم کہیں بے حسی کی حدوں کو نہیں چھو رہے؟ کیا ہم سچ کے بجائے طاقت کے ساتھ کھڑے ہو گئے ہیں؟ہمیں چاہیے کہ اپنے دل، اپنی زبان، اور اپنے قلم کو حق کیلئے وقف کریں۔ کیونکہ حق وہ روشنی ہے جس کے آگے سٹالن جیسے ہزاروں چہرے مٹ چکے، اور آئندہ بھی مٹ جائیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے