کالم

دہشتگردوں سے مذاکرات

سنجیدہ مبصرین کے مطابق اسلام آباد میں سہیل آفریدی کے خیبر پختونخوا کا نیا وزیرِاعلیٰ منتخب ہونے پر شدید تشویش پائی جاتی ہے اور یہ تشویش بلاوجہ نہیں، کیونکہ تحریکِ انصاف ان تمام عناصر، گروہوں اور حتیٰ کہ ممالک کے ساتھ فکری ہم آہنگی رکھتی نظر آتی ہے جو وفاقی حکومت اور افواجِ پاکستان کے خلاف صف آراء ہیں۔ مبصرین کے مطابق یہ وہی قوتیں ہیں جو درحقیقت ریاستِ پاکستان کے وجود اور استحکام کیخلاف سرگرمِ عمل ہیں ۔ یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ سہیل آفریدی عمران خان کے انتہائی وفادار سمجھے جاتے ہیں، اور موجودہ سیاسی حالات میں عمران خان کی پالیسی یہی ہے کہ وفاق اور اسٹیبلشمنٹ کے ہر اقدام کی ہر سطح پر مخالفت کی جائے۔ اسی تناظر میں بجا طور پر یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ نئے وزیرِاعلیٰ صوبائی پالیسی کو بھی اسی سیاسی بیانیے کے تابع رکھیں گے۔ ان کے حالیہ اسمبلی خطاب نے بھی ان خدشات کو تقویت دی ہے، جہاں انہوں نے وفاقی حکومت کی دہشت گردی کے خلاف حکمتِ عملی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔سفارتی و سیکیورٹی ماہرین کے بقول، اس وقت خیبر پختونخوا کی صورتحال نہایت نازک ہے۔ افغانستان سے بڑی تعداد میں دہشت گرد سرحدی اضلاع میں داخل ہو چکے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ جھڑپیں معمول بن چکی ہیں۔ بنوں، ڈی آئی خان، کرک اور لکی مروت جیسے اضلاع، جو کبھی نسبتاً محفوظ سمجھے جاتے تھے، اب دہشت گردی کے نشانے پر ہیں۔ مبصرین کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے سابقہ دور میں دہشت گردوں کے بارے میں نرمی نے انہیں دوبارہ منظم ہونے کا موقع دیا ۔ یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ اگر ان حالات میں چند دنوں کیلئے بھی فوجی آپریشن میں تعطل آیا تو دہشتگرد پورے صوبے میں پھیل سکتے ہیں اور افغانستان سے مزید جنگجو خیبر پختونخوا میں داخل ہونے کا امکان بڑھ جائیگا ۔ اس صورتِ حال میں دہشتگردی کیخلاف کارروائی مزید مشکل اور مہنگی ہو جائے گی اور صوبے کا امن ایک بار پھر دائوپر لگ سکتا ہے ۔ یاد رہے کہ سہیل آفریدی ماضی قریب میں بارہا اس موقف کے حامی رہے ہیں کہ دہشتگردوں سے مذاکرات کیے جائیں، مگر وہ اس تلخ حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں کہ ماضی میں ہونیوالے تمام امن معاہدے دہشتگردی کے پھیلاؤ کا باعث بنے۔ شَکئی،شمالی وزیرستان، سوات اور بعد ازاں 2021 کے مذاکراتی عمل نے دہشتگردوں کو مزید طاقتور کیا ۔ہر بار جب جنگ بندی ہوئی، دہشتگردوں نے اپنے زیرِ اثر علاقے بڑھائے ، اپنی صفوں کو منظم کیا اور نئے بھرتی مراکز قائم کیے ۔ایسے میںیہ امر خصوصی غور کا متقاضی ہے کہ پی ٹی آئی قیادت بار بار یہ دعویٰ کرتی رہی کہ ان کے دور میں امن رہا، مگر حقائق اس سے مختلف ہیںکیونکہ 2018 میں جب پی ٹی آئی اقتدار میں آئی تو پاک فوج کے مسلسل آپریشنز کے نتیجے میں فتنہ خوارج کا تقریباً خاتمہ ہو چکا تھا ۔ سوات، جنوبی وزیرستان اور مالاکنڈ میں فوجی یونٹس کی واپسی امن کی علامت تھی لیکن جلد ہی عمران خان نے افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی راہ اختیار کی۔ یہ اقدام دہشت گردوں کیلئے کسی نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہ تھا ۔ ماہرین کے مطابق، ان مذاکرات کے نتیجے میں تقریباً پانچ ہزار قیدی دہشت گرد رہا ہوئے ، جن میں سے بیشتر دوبارہ اپنے پرانے مراکز میں واپس چلے گئے ۔ نتیجتاً دہشت گردی کی نئی لہر نے سر اٹھایا ۔ یوں پی ٹی آئی حکومت نے اپنے ساڑھے تین سالہ دور میں اُن کامیابیوں کو زائل کر دیا جو پچھلی حکومتوں اور مسلح افواج نے بے شمار قربانیوں کے بعد حاصل کی تھیں ۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ سہیل آفریدی وفاقی حکومت کی افغان پالیسی کے بھی شدید ناقد ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو طالبان حکومت سے براہِ راست سیاسی بات چیت کرنی چاہیے، مگر یہ نقط نظر زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا کیونکہ پاکستان پہلے ہی سفارتی، مذہبی اور سکیورٹی سطح پر کابل سے بھرپور رابطے کر چکا ہے۔ جولائی 2022 میں ممتاز عالمِ دین مفتی تقی عثمانی کی قیادت میں ایک علما وفد کابل گیا تاکہ طالبان کو پاکستان میں حملے روکنے پر قائل کیا جا سکے۔اسی تناظر میں ستر رکنی قبائلی جرگہ بھی امن کے پیغام کے ساتھ کابل گیا۔ 22 فروری 2023 کو وزیرِ دفاع خواجہ آصف اور اُس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطحی وفد نے کابل کا دورہ کیا۔جولائی 2024 میں وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی کی سربراہی میں ایک اور وفد نے افغانستان میں انسدادِ دہشت گردی پر تعاون کیلئے مذاکرات کیے۔سفارتی ماہرین کے بقول یہ تمام کوششیں ظاہر کرتی ہیں کہ پاکستان نے امن کیلئے ہر دروازہ کھٹکھٹایا، مگر کابل کی حکومت نے دہشتگرد گروہوں کی پشت پناہی بند نہیں کی۔ایسے میںیہ امر خصوصی تشویش کا حامل ہے کہ سہیل آفریدی اپنی عمران خان سے وفاداری اور وفاق سے دشمنی کے بیانیے میں کہیں پورے صوبے کو دہشتگردوں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑ دیں۔ اطلاعات کے مطابق صوبے میں کئی وزراء اور اراکینِ اسمبلی دہشت گرد گروہوں کو بھتہ ادا کرتے ہیں جبکہ کچھ غیر قانونی کاروبار اور اسمگلنگ میں بھی ملوث ہیں۔ ان کیلئے سرحد پر کمزور نگرانی دراصل ایک معاشی مفاد رکھتی ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کے عوام ایک بار پھر بدامنی کے خطرے سے دوچار ہیں ۔ اگر صوبائی قیادت نے اپنی ذمہ داریوں کا ادراک نہ کیا تو ممکن ہے کہ آنیوالے مہینوں میں دہشتگردی کی نئی لہر پورے ملک کو متاثر کرے۔مبصرین کے مطابق، پی ٹی آئی کی سیاسی ضد اور ریاستی پالیسیوں کی مخالفت دراصل دہشتگردوں کیلے ایک غیر علانیہ سہولت کاری ہے ۔ آخرکار، یہ سوال شدت سے ابھر رہا ہے کہ کیا خیبر پختونخوا کو ایک بار پھر میدانِ جنگ بنایا جائے گا؟اور کیا سہیل آفریدی تاریخ کی ان غلطیوں سے سبق سیکھ پائیں گے جنہوں نے ہزاروں پاکستانیوں کی جان لی؟ یہ بات یقینی ہے کہ پاکستان کی سالمیت، اس کے اداروں کی قربانیاں اور عوام کا اطمینان اس سیاسی کھیل کی قیمت نہیں بننا چاہیے۔ایسے میں یہ توقع کی جانی چاہیے کہ کے پی کے موجودہ وزیر اعلیٰ اپنی موجودہ روش پر نظر کرینگے تاکہ ملک و قوم کسی نئی آزمائش سے دوچار نہ ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے