کالم

دہشتگردی اور انتہا پسندی کیخلاف پاکستان کی کاوشیں

پاکستان اپنی جغرافیائی اہمیت، نظریاتی اساس اور خطے میں کلیدی کردار کے باعث ہمیشہ عالمی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ قیامِ پاکستان کے فورا بعد ہی دشمن قوتوں نے اس ملک کو غیر مستحکم کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ خاص طور پر 1979 کے بعد افغانستان میں سوویت مداخلت اور پھر نائن الیون کے بعد شروع ہونے والی عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ نے پاکستان کو براہِ راست متاثر کیا۔ ملک میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کی ایسی لہر اٹھی جس نے ریاستی ڈھانچے، معیشت، معاشرت اور امن عامہ کو شدید نقصان پہنچایا۔ اس نازک صورتحال میں حکومتِ پاکستان اور افواجِ پاکستان نے بے مثال قربانیاں دیں اور دہشت گردی کے خلاف ایک کامیاب جنگ لڑی۔ دہشت گردی کا عفریت اچانک پیدا نہیں ہوا بلکہ یہ کئی دہائیوں کے سیاسی، سماجی اور بین الاقوامی عوامل کا نتیجہ ہے۔ افغان جنگ کے دوران مختلف گروہوں کو مسلح کیا گیا، اور بعد ازاں یہی گروہ غیر ریاستی عناصر کے طور پر خطے میں تباہی مچانے لگے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ کی قیادت میں "وار آن ٹیرکے دوران پاکستان فرنٹ لائن اسٹیٹ بن گیا۔ پاکستان کو نہ صرف بیرونی دبا برداشت کرنا پڑا بلکہ اندرونی طور پر خودکش دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں کی صورت میں شدید جانی و مالی نقصانات بھی اٹھانے پڑے۔ ایک وقت ایسا آیا جب ملک کا ہر شہر دہشت گردوں کے نشانے پر تھا اور عوام خوف و ہراس میں زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔افواجِ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف سب سے نمایاں اور مثر کردار ادا کیا۔ فاٹا، سوات، وزیرستان اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں نے اپنے ٹھکانے قائم کر لیے تھے جہاں سے وہ ملک بھر میں حملے کرتے تھے۔ ان ٹھکانوں کو ختم کرنے کے لیے افواجِ پاکستان نے متعدد آپریشنز کیے جن میں آپریشن المیزان، راہِ راست، راہِ نجات، ضربِ عضب اور ردالفساد شامل ہیں۔آپریشن ضربِ عضب (2014) ایک فیصلہ کن مرحلہ ثابت ہوا جس کے نتیجے میں دہشت گردوں کے بڑے نیٹ ورکس ٹوٹ گئے، ان کے مراکز تباہ ہوئے اور ہزاروں شدت پسند ہلاک یا گرفتار کیے گئے۔ اس آپریشن کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں نمایاں کمی آئی۔حکومتِ پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے صرف عسکری اقدامات پر انحصار نہیں کیا بلکہ سیاسی اور انتظامی سطح پر بھی اہم فیصلے کیے۔ 2014 میں آرمی پبلک اسکول پشاور پر دہشت گرد حملے کے بعد پورے ملک میں قومی اتفاقِ رائے سے نیشنل ایکشن پلان مرتب کیا گیا۔ اس منصوبے میں دہشت گرد تنظیموں پر پابندی، ان کے مالی ذرائع کا خاتمہ، مدارس کی رجسٹریشن، نفرت انگیز تقاریر پر پابندی اور انسدادِ دہشت گردی قوانین کو مثر بنانا شامل تھا۔ حکومت نے دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے خلاف بھی کارروائیاں شروع کیں تاکہ ان کے لیے زمین تنگ کر دی جائے۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں پاکستانی عوام نے دی ہیں۔ ہزاروں بے گناہ شہری خودکش دھماکوں اور حملوں میں شہید ہوئے۔ کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوئیں، تعلیمی ادارے بند ہوئے اور کھیلوں کی دنیا ویران ہوگئی۔ لیکن پاکستانی عوام نے صبر و استقامت سے حالات کا مقابلہ کیا اور افواج و حکومت کے ساتھ کھڑے رہے۔ یہی عوامی عزم اور اتحاد دہشت گردی کے خلاف کامیابی کی بنیاد بنا۔دہشت گردی نے پاکستان کی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کو پچھلی دو دہائیوں میں دہشت گردی کے باعث 150ارب ڈالر سے زائد کا نقصان اٹھانا پڑا۔ بیرونی سرمایہ کاری رکی، سیاحت کا شعبہ تباہ ہوا اور ملکی معیشت غیر یقینی کیفیت کا شکار رہی۔ مگر ریاستی اداروں کی مسلسل جدوجہد اور پالیسیوں کے نتیجے میں حالات بتدریج بہتر ہونا شروع ہوئے، اگرچہ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان نے شاندار کامیابیاںحاصل کی ہیں، لیکن انتہا پسندی ایک ایسا چیلنج ہے جو ابھی تک پوری طرح ختم نہیں ہوا۔انتہا پسندی صرف ہتھیاروں کے ذریعے نہیں بلکہ نظریات اور ذہنی رجحانات کے ذریعے پروان چڑھتی ہے۔ تعلیمی اداروں میں اصلاحات، نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنا اور معاشرتی انصاف قائم کرنا ہی وہ عوامل ہیں جن کے ذریعے انتہا پسندی کو جڑ سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ حکومت نے اس ضمن میں مختلف پروگرامز شروع کیے ہیں تاکہ نوجوان نسل کو مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب کیا جا سکے۔ اقوامِ متحدہ، یورپی یونین اور کئی بڑے ممالک نے پاکستان کی قربانیوں کو سراہا۔ امریکہ اور نیٹو فورسز کے لیے سپلائی لائن کی سہولت بھی پاکستان نے فراہم کی۔ اسکے باوجود بعض اوقات پاکستان پر ڈو مورکا دبا ڈالا گیا، لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ پاکستان نے سب سے زیادہ نقصان اٹھایا اور سب سے زیادہ قربانیاں دیں۔پاکستان کے لیے یہ ضروری ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے مستقل بنیادوں پر پالیسیز بنائی جائیں۔ سرحدی انتظامات کو مزید مثر بنانا، جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے دہشت گردوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا، اور علاقائی تعاون کو فروغ دینا وقت کی ضرورت ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ قومی اتحاد کو ہر قیمت پر برقرار رکھا جائے کیونکہ دہشت گردی کے خلاف کامیابی صرف اس وقت ممکن ہے جب حکومت، افواج، ادارے اور عوام سب ایک پیج پر ہوں۔پاکستان نے دہشتگردی اور انتہا پسندی کیخلاف جنگ میں بے مثال کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے