دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا بلکہ گمراہ کن تصور کو لالچ اور دبا¶ سے مسلط کیا جاتا ہے جب تک ہماری سوچ انفرادی سے اجتماعی نہیں ہوتی ہم اپنے وسائل اور مشکلات کے مکمل خاتمے کی جانب نہیں بڑھ سکتے پاکستان دہشتگردی کےخلاف جنگ میں ہزاروں عام شہریوں کے علاوہ پولیس اور فوج کے جوانوں اور افسروں کی قربانیاں دے چکا ہے لیکن جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی کامیابیاں بلا شبہ غیر معمولی ہیں لیکن یہ جنگ کا آخری مرحلہ ہے اور یہی وہ مرحلہ ہے جہاں ہمیں پہلے سے زیادہ چوکنا ہونےکی ضرورت ہے کہ دشمن ہماری کامیابیوں کا اثر زائل نہ کرسکے تا انکے پاکستانی قوم مکمل امن کی منزل سے ہمکنار ہو اور ترقی کی طرف سے تیزی سے پیش قدمی کرے ریاست بلا شبہ پوری طاقت سے دہشتگردی کے خلاف نبرد آزما ہے۔ ہمیں ہمیں سوچنا ہوگا کہ کمی کہاں پائی جاتی ہے؟ کیوں ہم اتنی قربانیوں کے باوجود اب تک اس لعنت سے چھٹکارا نہیں پاسکے کیونکہ افغانستان میں طالبان کی حکومت دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم کرنے میں ناکام ہوئی ہے سب سے پیچیدہ اور مشکل مرحلہ پاک افغان سرحد پر عالمی معیار کے مطابق نظم وضبط قائم کرنا ہے لیکن گزشتہ چالیس برس میں آر پار آنے والے والے اس نظم وضبط کو ماننے کو تیار نہیں ہیں یہ وہ جھول ہے جو پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی میں بہتر بڑا کردار ادا کرتی ہے پاکستان تو سرحدی نظام کو موثر بنانے کے لئے پر عزم نظر آتا ہے لیکن کابل میں اس عزم کی کمی واضح طور پر دیکھنے میں آرہی ہے سوال یہ بھی ہے کہ لاہور کراچی پشاور یا کوئٹہ اور افغانستان کے درمیان سہولت کاری کی شکل میں ایسا کون سا پل موجود ہے جو دہشت گردوں کے رابطوں اور ان کی سرگرمیوں کو مکمل طور پر ختم نہیں کرسکا پاکستانی ریاستی اداروں کو سہولت کاری اور رابطہ کاری کے نیک ورک کا یہ پل ہر صورت توڑنا ہوگا اور افغانستان کو بھی چاہیے کہ وہ اس پل کو توڑنے میں پاکستان کی مدد کرے اس کیلئے پاکستان سے ملحقہ افغان سرحدی علاقوں میں بھرپور فوجی آپریشن کے ذریعے دہشتگردوں کا مکمل طور خاتمہ ناگزیر تھا جو پاک فوج بھرپور طور پر کر رہی ہے۔ پاک افغان سرحد پر تعینات پاک فوج کے افسران اور جوان جس بہادری اور جرات کا مظاہرہ کر رہے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی اتنے دشوار گزار اور مشکل علاقے میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنا ایک مشکل کام ہے اس کے ساتھ ساتھ اگر دہشتگردوں کو سرحد پار سے مدد مل رہی ہوتو کام مزید مشکل ہوجاتا ہے لیکن پاک فوج کے جوانوں نے ثابت کیا ہے کہ ان کی تربیت اعلی معیار کی ہے اور ان کے حوصلے چٹان کی مانند ہیں اور ان کے جذبے آسمان سے باتیں کر رہے ہیں پاکستان کے ریاستی اداروں کے لئے سب سے بڑا چیلنج دہشت گردوں اور پاکستان میں موجود اس کے سہولت کاروں سے نمٹنا ہے یہ بات طے ہے کہ دہشت گرد بغیر کسی سہولت کار اور ہینڈلر کی مدد کے پاکستانی شہروں میں واردات نہیں کرسکتے پاکستان شاید اس وقت دہشت گردوں سے زیادہ ان کے سہولت کاروں کے وجہ سے خطرات میں گھرا ہوا ہے خود کش حملہ آور تو محض ایک ہتھیار ہے ان خود کش حملہ آوروں کا تعلق بھی انتہائی غریب اور مفلس خاندانوں سے ہوتا ہے یا ایسے نوجوان خود کش حملہ آور بنتے ہیں جن کی برین واشنگ کی جاتی ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ یہ خود کش حملہ آور دہشت گرد خود کچھ بھی نہیں ہیں انہیں خود بھی پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور اپنے اس گھنا¶نے عمل کی وجہ سے کتنے بے گناہ انسانوں کی جانوں سے کھیل کر ہے ہیں۔ اصل دہشت گرد تو وہ ہیں جو ان خود کش حملہ آوروں اور دہشت گردوں کو رہنے سونے اور آرام کرنے کیلئے رہائش فراہم کرتے ہیں انہیں تربیت دینے کے لئے جگہ دیتے ہیں ان کے کھانے پینے کے اخراجات برداشت کرتے ہیں اور انہیں اپنے ٹارگٹ تک پہنچانے کیلئے ٹرانسپورٹ یا کوئی کیریئر فراہم کرتے ہیں یہ ایک پورا نیٹ ورک ہے اور اس نیٹ ورک کو چلانے کے لئے بے پناہ وسائل کی ضرورت ہوتی ہے پاکستان میں دہشت گردوں کے حوالے سے گومگوں پر مبنی بیانیہ گھڑا گیا ہے اس بیانیے کو آگے بڑھانے میں محضوص قسم کے نظریات کا سہارا لے کر دہشت گردوں کو برا بھی کہا جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اگر مگر جیسے الفاظ لگا کر معاملے کو الجھانے کی کوشش بھی کی جاتی ہے افغانستان میں طالبان کا اقتدار قائم ہوا تو پاکستان میں ایسا تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ جیسے افغانستان میں عوامی انقلاب آیا ہے طالبان کو گلوری فائی کرکے ان کی ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش کی گئی اور عوام او رملک کے کاروباری طبقے کو یہ باور کرایا گیا کہ افغانستان میں طالبان حکومت قائم ہونے سے پاکستان میں دہشت گردی کا خاتمہ ہوجائے گا کیونکہ افغانستان کی سابق حکومتیں امریکہ اور بھارت کی پٹھو تھیں ان حکومتوں نے دہشت گردوں کو افغانستان میں پناہ دی اور ان کے تربیتی کیمپ قائم کئے اب یہ سب کچھ ختم ہوجائے گا لیکن حالات نے اس ملمہ کاری سے پردہ اٹھا دیا ہے افغانستان میں قائم عبوری حکومت اب تک عالمی سطح پر اپنی نمائندہ ساکھ قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی افغان عبوری حکومت میں کئی گروپ شامل ہیں ۔
ہر گروپ کے اپنے اپنے مفادات اور نظریات ہیں افغانستان ایک طرح سے ابھی تک وار لارڈز کے زیر قبضہ ہے داعش اور القاعدہ جیسی تنظیمیں بھی وہاں فعال ہیں اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان بھی فعال ہے ممکن ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت میں شامل کچھ دھڑے دوہا معاہدے کی شرائط پر عمل درآمد کرنا چاہتے ہوں لیکن وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہورہے کیونکہ سخت گیر گروپ افغانستان کی حکومت میں اہم وزارتوں اور عہدوں پر قابض ہیں اور ان کی گروپوں کے باعث خطے میں پائیدار امن کے قیام میں مشکلات اور مسائل کا سامنا ہے ہماری سرزمین پر دہشت گردی کا جال پھیلانے والے سازشی عناصر کا کھوج لگا کر اور ان کی سرکوبی کے بغیر۱۱ دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں۔
کالم
دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں
- by web desk
- جون 9, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 151 Views
- 6 مہینے ago