کالم

ذہنی پستی کی انتہا

محکمہ پولیس ،ٹریفک،ڈولفن، محافظ اور وہ ادارے جن کا براہ ِراست عوام کا واسطہ پڑتارہتا تھا نہ جانے ان کے اہلکاروں اور افسروںکی تربیت کس میکنزم کے تحت کی جاتی ہے کہ وہ جہاںغریب، مجبور اور کمزور وں کو دیکھتے ہیں ان کی آنکھوں میں وحشت ناچنے لگتی ہے اور وہ وحشی ہوکر تمام حدود وقیود سے تجاوزکرجاتے ہیں حالانکہ ان میں سے زیادہ کا تعلق لوئرمڈل کلاس سے ہوتاہے لیکن عام آدمی سب سے زیادہ انہی کے متاثرین میں شامل ہیں۔ روزانہ ہمارے چاروں اطراف اتھری پولیس کے کارناموں اور ظلم کی داستانوںکا ایک نہ ختم ہونیوالا سلسلہ درازہے جس نے عام آدمی کیلئے وردی کو خوف کی علامت بناکررکھ دیاہے سوشل میڈیا اور صحافت کاڈر نہ ہو تو اتھرے اور منہ زور اہلکارمعاشرے میںجنگل کے قانون کوبھی مات دے دیں اور کسی مقبوضہ علاقے میں ہونیوالے مظالم سے بھی زیادہ خوفناک مناظر دل دہلادیں ۔چند روز میںرونما ہونیوالے واقعات کی ایک جھلک ہی ہر ذی شعور کے رونگٹے کھڑے کردینے کیلئے کافی ہے ۔ایک انتہائی خوفناک اور ذہنی پستی کی انتہاہے جس میں ایک پولیس اہلکار نے مزاحمت کے دوران گرفتار ہونیوالی خاتون کے سامنے پینٹ کی زپ کھول دی۔باریش موٹروے پولیس اہلکار کی غنڈہ گردی کی وہ ویڈیو تو سب نے دیکھی ہوگی جس میں جس کی لاٹھی اسکی بھینس والے قانون کی مثال قائم کرتے ہوئے ایک نوجوان کی جوتوںسے پٹائی کی جارہی ہے جسے ایک صحافی نے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا تھا۔ پولیس اور عوام کے درمیان میں کشیدگی کیوں بڑھتی جا رہی ہے۔ ہمارے معاشرے میں پولیس کا بنیادی کردار ٹریفک قوانین کا نفاذ اور عوام کی سہولت کو یقینی بنانا ہے ، لیکن اکثر کمزور یا غریب طبقے کے ساتھ پولیس کا رویہ سخت محسوس ہوتا ہے۔ ایسے واقعات عوام کے اعتماد کو متاثر کرتے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ساکھ پر سوال اٹھاتے ہیں۔ مجھے وہ نوجوان بھلائے بھی نہیں بھولتا جس نے ٹریفک اہلکاروں کے رویہ سے دلبرداشتہ ہوکر اپنے موٹرسائیکل کو ہی آگ لگادی یا وہ حالات سے پریشان بیروز گار شخص جس نے وارڈن کو چالان نہ کرنے کی التجا کرتے ہوئے کہا وہ بیروز گارہے لیکن انہوں نے ایک نہ سنی تنگ آکر اس نے اپنے اوپر پٹرول چھڑک کر خود کو آگ لگانے ہی والا تھا کہ لوگوں نے منت مساجت کرکے اسے بچائو لیا۔ گزشہ دنوں سوشل میڈیا پروائرل ہونیوالی ویڈیونے دل مسوس کرکے رکھ دیا ہے ” پاپا جی اندر جاؤ، شلوار پہن لو” — جوان بیٹی کی اپنے باپ سے فریادمنڈی بہائوالدین کی تحصیل پھالیہ میں پولیس کی جانب سے چادر اور چار دیواری کی بیحرمتی کا افسوسناک واقعہ جب پولیس ایک گھر میں گھس کر کی جانیوالی گرفتاری کے دوران ہاتھا پائی شدت اختیار کر گئی۔ افسوسناک صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب عمر رسیدہ، سفید بالوں والے بزرگ کو عزتِ نفس مجروح کرتے ہوئے برہنہ کر دیا گیا۔ یہ منظر نہ صرف اس خاندان کیلئے صدمہ ہے بلکہ پورے معاشرے کیلئے باعثِ شرمندگی ہے۔ مردان کے چارسدہ چوک میں ٹریفک پولیس کی مبینہ غیر قانونی کارروائیوں کیخلاف ایک اور المناک واقعہ پیش آیا ہے جب ایک غریب ڈرائیور نے اپنے اوپر عائد کیے گئے مبینہ ناجائز چالان کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنی تیز رفتار گاڑی کو آگ لگا دی۔ یہ واقعہ ٹریفک اہلکاروں کی غیر قانونی ڈیمانڈز اور بڑھتے ہوئے مہنگائی کے دور میں عوام کی بے بسی کی ایک واضح مثال ہے۔عینی شاہدین کے مطابق، مذکورہ ڈرائیور مسلسل اپیل کرتا رہا کہ اس پر لگایا گیا جرمانہ ناجائز ہے لیکن کوئی شنوائی نہ ہوئی ۔ اس بے حسی اور لاپروائی نے ڈرائیور کو ایسا سخت قدم اٹھانے پر مجبور کیا جو نہ صرف اس کیلئے تباہ کن تھا بلکہ معاشرے میں ایک سوال بھی کھڑا کر گیا۔یہ محض چند دنوں میںعوام پر ہونیوالے ظلم کی کہانیاں ہیں۔ کہی ان کہی حقیقتیں اس کے علاوہ ہیں جو پورے پاکستان کے گلی کوچوںمیں جابجا بکھری پڑی ہیں حالات کے تناظرمیں دیکھا جائے تو یہ پہلا موقع ہرگز نہیں ہے جب عوام نے قانون نافذ کرنیوالے اہلکاروں کے ظالمانہ رویے ۔ غیر انسانی سلوک اور غیر قانونی مطالبات کیخلاف انتہائی قدم اٹھایا ہو سچ تو یہ ہے تواتر سے رونما ہونیوالے ایسے واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اختیارات کے ناجائز استعمال سے عوم کس قدر تنگ آ چکے ہیں۔ اختیارات سے تجاوز آج پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکاہے جس کی وجہ سے قانون نافذ کرنیوالے ہی جہاںغریب مجبور اور کمزور وں کو دیکھتے ہیں ان کی آنکھوں میں وحشت ناچنے لگتی ہے اور وہ وحشی ہوکر تمام حدود وقیود سے تجاوزکرجاتے ہیں جس کا تدارک انتہائی ضروری ہے۔حکومت کو اندازہ ہونا چاہیے کہ عوام اس وقت پہلے ہی مہنگائی، غربت ، ٹیکسزکی بھرمار اور بیروزگاری کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں، اور ایسے حالات میں عام آدمی کی عزت ِ نفس کو مجروح کرنا ۔ غیر انسانی رویہ ، بھاری بھرکم چالان اور مطالبات ان کیلئے مزید مشکلات کا باعث بن رہے ہیں۔ ایک طرف زندگی کی ضروریات پوری کرنا مشکل ہو رہا ہے اور دوسری طرف ان اداروں کی طرف سے غیر قانونی ڈیمانڈز عوام کو ذہنی اذیت میں مبتلا کر رہی ہیں جس سے ان کے دل و دماغ میں بے چینی بڑھ رہی ہے ۔یہ ایک سنگین مسئلہ بن چکاہے جو عوا کو بغاوت اور خانہ جنگی کی طرف بھی مائل کر سکتاہے۔ ایسے میں، یہ سوال اٹھتا ہے کہ ایک عام شہری کہاں جائے اور کس سے انصاف کی امید رکھے۔ کیا عوام کو احتجاج کے ایسے راستے ہی اختیار کرنے پڑیں گے؟ حکومت کو بھی چاہے کہ وہ ٹریفک پولیس کو چالانوںکا ٹارگٹ یا ریونیو اکٹھا کرنے کی حوصلہ شکنی کریں اس سے بڑے سماجی مسائل پیدا ہورہے ہیں اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ایسے واقعات قانون نافذکرنے والے اداروں اور ٹریفک پولیس کیلئے ایک لمحہ فکریہ ہے اور اعلیٰ حکام کو اس پر فوری نوٹس لینا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے