کالم

راجستھان میں ہندو مسلم فسادات

بھارتی ریاست راجستھان کے شہر اودے پور میں 2 طالب علموں کے درمیان جھگڑے کے بعد ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے۔ چند روز قبل ریاست راجستھان کے شہر اودے پور میں دسویں جماعت (میٹرک) کے 2 طالب علموں کے درمیان جھگڑا ہوا جس میں سے ایک مسلمان تھا۔ طالبعلموں کے درمیان جھگڑے کے بعد معاملہ اس حد تک بڑھ گیا کہ شام تک شہر میں آتشزنی، پتھراو¿ اور توڑ پھوڑ کے واقعات رپورٹ ہوئے۔بھارتی میڈیا کے مطابق جھگڑے کے بعد میونسپل کارپوریشن نے مسلمان طالب علم کا گھر غیر قانونی قراردے کرگرا دیا جبکہ نابالغ مسلمان طالب علم کو والد سمیت حراست میں لے لیا گیا۔ واقعے کے بعد ہندو انتہا پسندوں نے مسلمانوں کی املاک اور مساجد پر حملے کیے اور کئی گاڑیوں کو بھی آگ لگا دی۔ اودے پور شہر میں انٹرنیٹ سروس تاحال معطل ہے اور شہر میں دفعہ 144 نافذ ہے۔پوجا پاٹھ (ہندو عبادات) اور نماز جیسی مذہبی سرگرمیاں گھر پر ہی ادا کی جائیں۔شہر کے بازار خوف کی فضا کی وجہ سے بند ہو گئے۔ اس دوران کئی سیاح جو ویک اینڈ پر اودے پور پہنچے تھے، شہر چھوڑ گئے۔اودے پور شہر میں سکول کے بچوں کے درمیان چاقو زنی کا واقعہ قابل مذمت ہے، مجرم کو قانون کے تحت سزا دی جائے، لیکن بی جے پی حکومت نے ایک نابالغ کے گھر پر بلڈوزر چلا کر مذہب پرستی کا زہر گھولنے کی کوشش کی ہے۔ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر بلڈوزر چلانا ملک کے مستقبل کو نفرت کی طرف دھکیلنا ہے۔ ریاستی حکام کا ‘چن کر نشانہ بنانے’ کا طریقہ بنیادی حقوق اور قدرتی انصاف کے اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔اس مقام پر 200 سے زیادہ مکانات تعمیر کیے گئے ہیں، لیکن حکام نے صرف اس نوجوان کے خاندان کو ہی نشانہ بنایا تاکہ کچھ شرپسندوں کی طاقت کی ہوس کو پورا کیا جا سکے جو اس طرح کے فرقہ وارانہ کشیدگی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔‘ یہاں تک کہ دوست اور رشتہ دار بھی پولیس کی کارروائی کے خوف سے بے گھر خاندان کے افراد کو پناہ دینے سے انکار کر رہے تھے۔یہ بچوں کی لڑائی تھی، اسے فرقہ پرست لوگوں کی طرف سے ہوا دی گئی۔ انتظامیہ بھی اسے روکنے میں ناکام رہی۔ لوگوں کو ٹارگٹ بنایا گیا، توڑ پھوڑ کی گئی اور آگ لگا دی گئی۔بھارت میں ہندوو¿ں کے مذہبی جلوسوں کے دوران مسلمانوں کے ساتھ آئے روز کی جھڑپیں تشویش کا باعث بنتی جا رہی ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کے لیے حکمران جماعت بی جے پی سمیت ہندو قوم پرست لوگ قصوروار ہیں۔ بھارتی دارالحکومت دہلی سے متصل ریاست ہریانہ میں جولائی کے اواخر میں سخت گیر ہندوو¿ں کے ایک گروپ کی جانب سے مسلم اکثریتی ضلع نوح میں مذہبی جلوس کے دوران مذہبی فسادات تشدد کا تازہ ترین واقعہ ہے۔ یہ تشدد گروگرام شہر تک پھیل گیا، جہاں ایک ہندو ہجوم نے ایک مسجد کو آگ لگا دی اور اس کے امام کو ہلاک کر دیا۔ فسادیوں نے شہر کے زیادہ تر مسلمان محنت کش طبقات کے حصے میں دکانوں اور گاڑیوں کو بھی نذر آتش کیا۔بی جے پی کی حکومت والی دیگر ریاستوں کی طرح ہی ہریانہ کے حکام نے بھی اس کا جواب مسلمانوں کی ملکیت والی دکانوں، عمارتوں اور عارضی ڈھانچوں کو مسمار کر دیا۔ حکومت کا دعویٰ تھا کہ انہیں غیر قانونی طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔بھارت میں بھاتیہ جنتا پارٹی کے مسلسل 2014 سے بر سر اقتدار آنے کے بعد سے بھارت کی شناخت جہاں سیکولر کے بجائے عملی طور پر انتہا پسندانہ ہندوتوا کا چرچا بڑھا ہے اور اقلیتوں کو کئی طرح کے مسائل کا سامنا رہا ہے وہیں بھارت کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کو بد ترین نفرت کا شکار بننا پڑ رہا ہے ۔ امریکہ میں قائم ایک تحقیقی گروپ کے مطابق بھارت میں سال 2023 کی دوسری ششماہی میں ابتدائی چھ ماہ کے مقابلے میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی یعنی ہیٹ اسپیچ کے واقعات میں 63 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ بالخصوص گزشتہ تین ماہ کے دوران غزہ میں جاری جنگ نے ان واقعات میں ہونےوالے اضافے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2023 میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی کے 668 واقعات ریکارڈ کیے گئے جن میں سے 255 گزشتہ سال کے ابتدائی نصف میں پیش آئے تھے۔ تاہم 2023 کے آخری چھ ماہ میں نفرت انگزی کے ایسے واقعات کی تعداد 413 تھی۔ نفرت انگیزی کے واقعات میں سے 75 فی صد یا 498 واقعات ایسی ریاستوں میں ہوئے ہیں جہاں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت ہے۔ مہاراشٹرا، اتر پردیش اور مدھیہ پردیش ایسی ریاستیں ہیں جہاں سب سے زیادہ ایسے واقعات ریکارڈ کیے گئے ہیں۔انڈیا ہیٹ لیب کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سات اکتوبر کو فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملے اور اسرائیل کی جوابی کارروائی کے بعد 31 دسمبر تک کے عرصے میں بھارتی مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی کے 41 واقعات پیش آئے جن میں اس جنگ کا حوالہ بھی دیا گیا تھا۔ 2023 میں بھارتی مسلمانوں کے خلاف ہونے والے نفرت انگیزی کے 20 فی صد واقعات اسی عرصے کے دوران پیش آئے ہیں۔اس کے علاوہ شدت پسند ہندوو¿ں کی جانب سے مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کی اپیل کے ساتھ لاو¿ڈ اسپیکر سے اذان اور حلال گوشت کی فروخت پر پابندی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ ایک عدالتی حکم سے کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں مسلم طالبات کے حجاب پہننے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔گزشتہ دنوں راجستھان کے کرولی، مدھیہ پردیش کے کھرگون اور دہلی کے جہانگیر پوری میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات ہوئے ہیں۔کھرگون میں مقامی لوگوں نے دعویٰ کیا کہ انتظامیہ کی جانب سے مبینہ طور پر فساد کرنے کے الزام میں مسلمانوں کی کم از کم 50 دکانوں اور مکانوں کو بلڈوزر سے منہدم کیا گیا۔ پولیس کے مطابق یہ کارروائی ناجائز تجاوزات کو ہٹانے کے لیے کی گئی۔دہلی کے جہانگیر پوری میں پولیس پر الزام ہے کہ اس نے یک طرفہ طور پر مسلمانوں کی گرفتاریاں کی ہیں۔ پولیس اس الزام کی تردید کرتی ہے۔ وہاں بھی تشدد کے بعد مبینہ ناجائز تجاوزات ہٹانے کی مہم شروع ہوئی جس پر فی الحال سپریم کورٹ نے پابندی عائد کر دی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے