رحمان عباس کا تازہ ناول ‘ ایک طرح کا پاگل پن’ میرے لیے کسی طور اجنبی نہیں ہے ، نہ محبت کی کسی ممنوعہ کہانی کے اعتبار سے اور نہ کسی بھی طرح کے پاگل پن کے حوالے سے۔ ہم دو مختلف ملکوں میں رہنے والے ،ایک ناول نگار ہے تو دوسرا ناول کا قاری،دونوں کا مکان مختلف سہی ، پر زمان ایک ہے ،یہی ایکتا ہماری ایک دوسرے سے جڑی توقعات کا تعین بھی کرتی رہتی ہے۔ایک بڑے ناول نگار کا یہ بنیادی منصب ہوتا ہے کہ وہ اپنے ناول میں پیش کی گئی زندگی کی لہروں کو اپنے عصر کی فراست اور تجربے کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کا سلیقہ اور طریقہ جانتا ہو۔ ہمارے اس خطے کے لوگوں کے گناہ ثواب بھی ایک جیسے ہیں، اور تشویش ناک بات یہ ہے کہ ؛دونوں میں کوئی نیا پن نہیں ہے۔یہ جانتے اور سمجھتے ہوئے کہ کسی بہت بڑی نیکی کا شرف بھی صرف اسی کو حاصل ہو سکتا ہے ،جس میں کوئی بڑا گناہ کرنے کی ہمت ، سکت اور جرات موجود ہو۔ایک ناول نگار کے طور پر رحمان عباس جرات اظہار اور دشوار گزار راستوں سے نہایت مہارت سے گزر جانے کا فن جانتے ہیں۔ دنیا بھر کی طرح دہشت گردی کا تجربہ برصغیر کے ملکوں کو بھی حاصل ہوا ، کہیں پر اسے مذہب کی ناپختہ فہم سے جوڑا گیا ،تو کہیں اسے اقلیم سیاست کے متبادل بیانیے کے طور استعمال کرنے کی کوشش کی گئی،اور کہیں پر اس کا تعلق نسل پرستی کی دیرینہ بیماری سے جڑتا نظر آتا ہے۔اپنی ہر صورت میں انتہا پسندی اور اس کے لازمی نتیجے کے طور پر سامنے آنے والی دہشت گردی نے آزاد اور خودمختار انسان کو مایوس ہی کیا ہے۔رحمان عباس مشکل موضوعات پر آسانی اور روانی سے لکھنے کا ہنر جانتے ہیں۔ ان کا یہ ناول یعنی ایک طرح کا پاگل پن حیات انسانی کے دو سطحوں پر حاوی پاگل پن کی کہانی کو ناول کے وسیع اور پرپیچ فریم میں بند کر کے پیش کرنے کی ایک کامیاب کوشش ہے۔
ناول ہی وہ واحد صنف ادب ہے ،جس کے ذریعہ محض ایک زندگی کا اثاثہ رکھنے والا انسان ،ایک دیگر اور مختلف قسم کی زندگی کا تجربہ اور لطف بھی لے سکتا ہے۔یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ ایک زندہ ناول "زندگی” سے تہی ہو۔ یہ سچ ہے کہ ایک بڑا ناول اپنے قاری کا انتخاب خود کرتا ہے، ناول اس دلاور قاری کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ، جو اس کے اندر زندگی گزارنے اور اسے سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو ۔ ویسے بھی ناول ہی وہ دلیر اور خود معاملہ صنف ادب ہے ،جو زندگی کے ہمہ جہت اور ہمہ طرف رجحانات ، امکانات اور مخفی جزئیات کو کھول کر بیان کر سکتی ہے ، اپنا عنوان بنا سکتی ہے۔ہاں مگر یہ ساری دلاوری اور شجاعت بنیادی طور پر ناول نگار کا وصف ہوتی ہے یا ہونی چاہیئے۔ رحمان عباس کا ناول ‘ ایک طرح کا پاگل پن ‘ اگرچہ ان کے سال 2009 میں منظر عام پر آنے اور مقبولیت حاصل کرنے والے ناول ‘ایک ممنوعہ محبت کی کہانی’ ہی کی تازہ تجسیم اور تعبیر پر مبنی ہے۔ لیکن اسی ایک کہانی کو دوبارہ نئے بیانیے کے ساتھ سامنے لانے کی ضرورت شاید اس لیے پیش آئی کہ ؛اس کہانی کا محور ممنوعہ محبت کا قصہ نہیں تھا ، بلکہ ایک طرح کے پاگل پن کی تفصیل اور بیان مرکزی موضوع تھا۔یہ پاگل پن اپنے اثرات کے اعتبار سے تباہ کن اور وحشت ناک ہے ۔ برصغیر میں ایک منقسم معاشرے میں برابری کی شیرینی بانٹنے والے نکتہ نظر نے معاشرے کے بچھڑے لوگوں کو متوجہ اور متاثر کیا تھا۔لیکن یہ کونسی جماعت الجماعت ہے جو لوگوں میں کفر کے فتوی بانٹ رہی ہے۔؟ ایسا نہیں کہ اس ناول میں ممنوعہ محبت کے متعلقات معمولی یا قابل ذکر نہیں تھے،لیکن یہ سب اس ناول کا "حال” شمار کیئے جا سکتے ہیں ، جبکہ اس ناول کا مرکزی موضوع اور مآل بڑھتی ہوئی مذہبی شدت پسندی اور اسی کے نتیجے میں جنم لینے والی دہشت گردی ہے ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ مذاہب کی نادان اور اپنے مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے من مانی تشریحات کو منوا لینے پر اصرار نے ہمارے یہاں کی صاف شفاف ذہنی فضا کو حد درجہ آلودہ کیا ہے۔ ایک ممنوعہ محبت کی کہانی کو دوبار کی اشاعت کے باوجود ،ازسر نو ایک نئے عنوان سے پیش کرنے کی زحمت کیوں کر اٹھانی پڑی؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے رحمان عباس لکھتے ہیں کہ؛ "۔۔۔ ناول میں کوکنی اور مراٹھی زبان کے بے شمار الفاظ تھے۔ پاکستان میں اس کی اشاعت کا مرحلہ آیا تو ذہن میں یہ بات آئی کہ مقامی الفاظ ترسیل میں مشکلیں پیدا کر سکتے ہیں۔ ان کی وضاحت ضروری ہے ۔ وہیں ناول کے مراٹھی، ہندی اور انگریزی ترجمے کے پیش نظر متن پر نظر ثانی کرنا ضروری سمجھا۔…میں نے ایک ممنوعہ محبت کی کہانی کو از سرنو لکھنا شروع کیا۔ البتہ ناول کی عمارت سابقہ ناول پر ہی کھڑی ہے۔ نئے ورژن کا نام ایک طرح کا پاگل پن رکھا ہے۔ ۔۔” میرا تاثر ہے کہ یہ صرف زبان و بیان کا یا اسلوب کا مسلہ نہیں ہوگا، کہ بعض نامانوس معرب و مفرس الفاظ کی شمولیت سے ناول کا لسانی رنگ و آہنگ بدل جائے، میرے نزدیک اصل وجہ اس اچھے اور بڑے ناول کے مرکزی خیال کی طرف مکرر توجہ ہو سکتی ہے ۔وہ جو مرزا غالب نے کہہ رکھا کہ ؛بہرا ہوں میں تو چاہیئے دونا ہو التفات سنتا نہیں ہوں بات مکرر کہے بغیر تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ناول کے معنی کی مکمل نقاب کشائی کرنے کی خاطر ہی ناول نگار نے "بات کو مکرر کہنے” کی طرف توجہ دی ہے ،یقینی طور پر اس ناول کی مکرر اشاعت اس التفات کی مقدار کو بھی دو گنا بلکہ سو گنا کر دے گی۔ دراصل ناول میں مذکور اور کہانی پر حاوی یہی پاگل پن اجاگر کرنے اور سامنے لانے کےلئے اس ناول کے محور کو ممنوعہ محبت کے دائرے سے نکال کر مذہبی شدت پسندی اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والی دہشت گردی کے دائرے کا مرکز بنانا ضروری خیال کیا گیا ۔میرے نزدیک اس طرح یہ موضوع اپنی معنویت کے اعتبار سے زیادہ اہمیت اور وقعت اختیار کر گیا ہے ۔ پاگل پن تو یوں بھی اچھی کیفیت نہیں ہوتی ،لیکن اگر اس کی بنیاد کوئی مذہب ، دھرم یا عقیدہ بن جائے ،اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والی حماقتوں کو ثواب خیال کیا جانے لگے تو پھر اس اجر وثواب سے جو کچھ بھی حاصل کیا جاتا ہے اسے صرف انتہا پسندی اور دہشت گردی ہی قرار دیا جا سکتا ہے ۔
(……..جاری ہے)
یاد رکھنا چاہیئے کہ پاگل پن اپنی شدت ، اپنی خود ترتیب حماقتوں ، اپنے خود تجویز کردہ دکھوں،اپنے پرشور طلاطم ،اپنے پرزور پچھتاوں ، نیز اپنے زیر سطح سکون اور کیفیات کے اعتبار کل انسانی آبادی سے بھی زیادہ اقسام اپنے اندر رکھتا ہے ۔اسے شمار کرنا یا ایسا کرنے کی کوشش کرنا بھی بجائے خود ایک طرح کا پاگل پن ہی شمار ہو گا۔ہاں مگر عقیدہ پر بنیاد کرتا جنون دنیا کا سب سے خطرناک پاگل پن شمار کیا کا سکتا ہے۔عقیدہ رکھنا معیوب بات نہیں ہے ، لیکن دوسروں کو جبرا منوانا پاگل پن اور جنون ہوتا ہے۔ مجھے اس بات کا صحیح طور پر اندازہ نہیں کہ رحمان عباس ہمارے یہاں کی تبلیغی جماعت کی کارگزاریوں سے پوری طرح سے واقف ہیں یا نہیں ، یا ہمارے یہاں مختلف ممالک کے ایما پر فرقہ پرستی کا فروغ اور اس کے اثرات کو جانتے ہیں؟ یا ہمارے یہاں پیدا کی گئی مصنوعی شدت پسندی اور ادھار کی دہشت گردی کے حال و مآل کو پوری طرح سے سمجھتے ہیں یا نہیں۔لیکن ناول ایک طرح کا پاگل پن پڑھ کر مجھے تو کچھ بھی نیا یا الگ نظر نہیں آیا ۔ہاں مگر یہ اندازہ ضرور ہوا کہ نادان اور ناپختہ مذہبی تناظر اور شدت پسندی کو صرف اور صرف تعلیم سے ختم یا مدھم کیا جا سکتا ہے ۔ایسے رجحانات کو یہ معاشرہ اپنے اجتماعی وجدان سے مکمل طور پر ختم بھی کر سکتا ہے ،اگر ایسے رجحانات یا ایسی سوچ کے فروغ کے پیچھے کوئی منظم طاقت موجود نہ ہو۔ خلیجی ممالک جانے والے مقامیوں کی معاشی حالت کے ساتھ ساتھ ثقافتی اور مذہبی احوال میں تغییر بھی کوئی اجنبی واردات نہیں ۔ گزشتہ صدی میں ستر کی دھائی کے دوران ایسی ہی تبدیلیاں ہمارے یہاں بھی وقوع پذیر ہوئی تھیں مگر ان میں سماجی تغیئر تو تھا ،مذہبی تناظر نہیں تھا یا اتنا شدید نہیں تھا، جب ناول بتاتا ہے کہ؛ "خلیجی ممالک سے لوگ ایک اور چیز اپنے ساتھ لائے اور وہ تھی عربوں کی ثقافت ۔ عورتوں کے لیے برقعے ، بزرگوں کے لیے مصلے اور اندھیرے میں چمکنے والی تسبیحیں آئیں ، مہین ٹوپیاں اور کرتے پاجاموں کے لیے سفید نفیس کپڑا لایا گیا۔ ہر سو مذہبی آداب کا ذکر ہونے لگا۔ عورتوں اور لڑکیوں کو نماز اور پردے کی تلقین کی جانے لگی۔ بعض نے اپنے بچوں کو مذہبی تعلیم دلانا لازمی قرار دیا۔ چوں کہ اس وقت قرب و جوار میں کوئی باضابطہ مدرسہ نہیں تھا۔ اس لیے نئے نئے امیر لوگوں نے اپنے بچوں کو دور دراز کے دینی مدارس میں بھی بھیجنا شروع کیا۔
مدارس سے فارغ طلبہ نے گاں میں اپنے مکتب فکر کی تبلیغ کو اپنا فرض سمجھا۔” تو اس کے دور رس اثرات کو سمجھنا مشکل نہیں رہتا۔اسی کے لازمی اثرات میں مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ اور جماعت الجماعت کا پھیلا اور معاشرے پر تصرف سامنے آتا ہے۔ ” پچھلے چند برسوں میں جماعت الجماعت کا اثر تیزی سے پھیلا تھا۔ سورل کی مسجد مرکز بن گئی تھی ۔ مختلف ریاستوں اور شہروں سے جماعت الجماعت سے وابستہ افراد یہاں آتے اور پھر آس پاس تبلیغ کے لیے چلے جاتے ۔ ہر جمعہ کو عصر کی نماز کے بعد جماعت الجماعت سے وابستگان گشت پر نکلتے، گھر گھر جا کر لوگوں سے ملتے ۔ انھیں مذہبی فرائض یاد دلاتے ۔ جنت اور جہنم کا فرق سمجھاتے اور زندگی کی بے معنویت ان پر اجاگر کرتے۔ مغرب کی نماز کے لیے مسجد میں بلاتے۔ نماز تفصیلی بیان ہوتا اور لوگوں کو جماعت سے جڑنے کی دعوت دی جاتی۔اس طرح گویا ایک متوازن اور باہم منسلک معاشرے میں افتراق نے ہر شے کو تبدیل کر کے رکھ دیا ۔جو امن ، سکون اور تواضع پہلے تھی ،وہ اب نہ رہی؛ ” یہ لوگ نکاح سے پہلے لمبی لمبی تقریریں کرتے اور شادیوں میں رائج رسوم کو مشرکین سے موسوم کرتے ۔ رفتہ رفتہ شادی بیاہ کی رسموں سے لوگوں نے دوری اختیار کرنا شروع کیا۔ چند سال بعد شادی اور سوگ میں کوئی فرق نہ رہا۔اس منتشر ہوتے ماحول کے متوازی عبدالعزیز کا کردار ہے ۔جس کے خیالات اور سروکار بالکل الگ اور نہایت متوازن تھے۔ "۔۔۔ اس کے لیے خدا انسان کا نجی معاملہ اور دلوں کو قریب لانے کا وسیلہ تھا۔ مسجد مندر خالصتا عبادت کے لیے مختص مقدس مقامات ہیں ۔ ان کا استعمال مذہبی سیاست کے لیے کیا جائے گا ،اس نے سوچا نہیں تھا۔ بلکہ اب سے پہلے اس کا اپنا مذہب اور دوستوں کا مذہب اس کے لیے مسئلہ نہیں تھا اور نہ ہی مذہب کوئی دیوار تھی ان کے درمیان۔ چنانچہ عبادت گاہوں اور مذہبی سیاست کے درمیان کس نوعیت کارشتہ ممکن ہے اسے اس بات کا اندازہ نہیں تھا۔ وہ اس بات سے واقف نہیں تھا کہ بعض مذاہب دوسرے عقائد کو باطل تصور کرتے ہیں، انھیں صفحہ ہستی سے مٹانا اپنا نصب العین سمجھتے ہیں۔ صرف ہم مذہب لوگوں کو مساوی آدمی سمجھتے میں باقی کو کافر، ناستک ، مشرک ، ملحد ، شتر و بت پرست ، گمراہ، بے دین، اسفل، جاہل اور دوزخی۔” اور پھر پاگل پن کی ترویج ماحول کو اس قدر آلودہ کر دیتی ہے کہ سارا توازن اور اعتدال قصہ پارینہ بن کر رہ جاتا ہے ۔یہی اس ناول کا المیہ ہے۔ محبت کی کہانی لکھتے ہوئے رحمان عباس کی طلسم نگاری اپنے عروج پہ نظر آتی ہے ، وہ جملہ کیفیات کو اپنے طلسمی بیان کی زینت بنانے کے لیے علامتوں کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں، وہ ذہن کے ساتھ ساتھ جسم کو بھی متاثر کرنے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں۔ ناول کی کہانی میں ایک بیاہتا جوان عورت،جس کا میاں موثر نہیں ہے ،کسی شادی کی تقریب میں ایک بالکل نوجوان لڑکے کے ساتھ رات کے کسی پہر اتصال کرتی ہے۔اس میں سانپ، مینڈک، چھپکلی، ہرن، اور عہد قدیم کی اپسرا کی علامتیں استعمال کی گئی ہیں۔ "سکینہ اس کے دل کی تیز دھڑکن کو سن رہی تھی اور جانتی تھی اس دھڑکن میں خواہش شامل ہے۔ خدا جانے یہ اس کی اپنی جسارت تھی یا ستاروں اور سیاروں کی منفر د ترتیب کا اثر تھا۔ اس کی کایا پوری طرح پلٹ گئی۔ کچھ دیر کے لیے وہ سانپ بنی رہی، پھر کچھ دیر کے لیے مینڈک ،کچھ دیر کے لیے چھپکلی، کچھ دیر کے لیے ہرن اور پھر بالآخر وہ عہد قدیم میں لکھی گئی اساطیری کہانیوں کی اپسرا میں بدل گئی جس نے عبدالعزیز کو اپنے وش میں، اپنے اختیار میں کر لیا۔” یہ پہلے اتصال کا قصہ تھا، یہی اتصال سکینہ کے تصور محبت کی تشکیل جدید بھی کرتا ہے ۔ "۔۔۔جہاں محبت ہو ، وہاں ڈر کھونے کا نہیں بلکہ حاصل کرنے کا ہوتا ہے۔ محبت ہو تو کھونا کیا؟ ساتھ نہیں ہونے کا مطلب کھو دینا تو نہیں ہوتا ، جس طرح ساتھ جینے کا مطلب پا لینا نہیں ہوتا ۔” رحمان عباس کی جادو نگاری کی دیگر قابل ذکر مثال ناول کے صفحات 274 سے 278 پر ملاحظہ کی جا سکتی ہے ۔ ممنوعہ محبت اور کئی طرح کے پاگل پن سے معمور یہ ناول بنیادی طور پر ایک الم نامہ بھی ہے۔اس کا انجام کسی اچھے آغاز کی طرف اشارہ نہیں کرتا ۔لیکن شاید اس ناول کا یہی سب سے بڑا منصب بھی نظر آرہا ہے کہ یہ ہمیں بطور سماج اجتماعی طور پر تنگ نظری، شدت پسندی اور دہشت گردی کی گہری کھائیوں کی طرف جانے سے روک سکتا ہے ۔اگر ایسا ہو جاتا ہے، تو یہ رحمان عباس کی بہت بڑی فتح ہوگی۔