کالم

رہنما ئے اعظم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم

گزشتہ سے پیوستہ
اس غزوہ پر سوة الانفال میں اللہ کی طرف سے تبصرہ ہوا ہے۔ اس کے مطالعہ سے قاری کو ساری تفصیل سے آگاہی ہو سکتی ہے۔ بدر کی شکست سے مشرکین، یہود اور منافقین غم و غصہ سے جل بھن گئے۔ قرآن اس پر نقشہ کھینچا ہے کہ” تم اہل ایمان کا سب سے زیادہ دشمن یہود کو پاﺅ گے، اور مشرکین کو“ )سورة الانفال ۔ آیت۔(82 بدر کی شکست پر ابو سفیان اگلے سال پھر جنگ کی دھمکی دے کر گئے تھے۔ ایک مشرک خمیر بن جمہی، جو قریش کے شیطانوں میں سے تھا۔ اس کا بیٹا جنگ بدر میں قیدی بنا لیا گیا تھا۔ وہ رسول اللہ کو قتل کرنے کی غرض سے مدینہ پہنچا۔ اسے پکڑ کر حضرت عمرؓ نے رسول اللہ کے سامنے پیش کیا۔ رسول اللہ کو وحی کے ذریعے معلوم ہوگیا تھا کہ وہ آپ کو قتل کرنے مدینہ آیا ہے۔ وہ رسول اللہ کے سامنے چھوٹ بول رہا تھا،کہ میں اپنے بیٹے کی رہانی کی درخواست کرنے آیا ہوں۔ رسولؒ اللہ نے اس کی ساری سازش کو اس کے سامنے بیان کر دیا۔ وہ ششدر رہ گیا کہ یہ تو صرف اسے اور ایک دوسرے شخص کو پتہ تھا۔ وہ فوراً اسلام لے آیا۔ رسول اللہ نے اس کے بیٹے کو رہا کر دیا۔غزوہبدر کی شکست کے بعد یہودی قبیلہ بنو قینقاع نے دیکھا کہ مسلمانوں کا رعب بڑھ گیا ہے۔ اس یہودی قبیلے نے معاہدے کی خلاف وردی کی۔ کعب بن اشرف اس میں سب سے آگے تھا۔ یہودی قبیلے قینقاع نے اپنے بازار میں ایک مسلمان کو ناحق قتل کر دیا۔ اس پر رسول اللہ نے ان پر حملہ کر دیا۔ عبداللہ بن ابی منافق کی سفارش پر انہیں سزا دینے کے بجائے مدینہ سے نکل جانے دیا گیا۔ ایک بات قابل نوٹ ے کہ غزوہ بدر کی فتح پر ایک مغربی دانشو نے کہا کہ بدر سے پہلے اسلام ایک مذہب تھا۔ بدر کی فتح کے بعد وہ ریاست مدینہ کا مذہب بن گیا۔غزوہ بدر کے ایک سال بعد غزوہ اُھد پیش آیا۔ قریش مکہ تین ہزار کا لشکر لے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ سواری کیلئے تین ہزار اونٹ، دو سو گھوڑے اور سات سو زریں تھیں۔ اُحد کے مقام پر لشکر قریش نے پڑاﺅ ڈالا۔ مسلمانوں کا لشکر ایک ہزار پر مشتمل تھا۔ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی اپنے تیس سو ساتھیوں سمیت جنگ سے بہانہ بنا کر علیحدہ ہو کر واپس مدینہ چلا گیا۔ جنگی چال کے طور پر رسول اللہ نے ایک درے پر کچھ تیر انداز مقرر فرمائے۔ ان کو ہدایات دین کہ کسی بھی طور ر اس درے کو خالی نہیں کرنا۔ مگر جب قریش کو جنگ میں شکست ہوئی اور مسلمان مال غنیمت جمع کرنے میں لگے تو ان تیر اندازوں نے اپنی جگہ چھوڑ کر مال غنیمت لوٹنے میںمصروف ہو گئے۔خالد بن ولید نے بارنے والی فوج کو جمع کر اس درے سے مسلمانوں پر حملہ کر دیا۔ جنگ کا نقشہ بدل گیا۔حضرت حمزہؓ اس جنگ میں شہید ہوئے۔ رسول اللہ کی شہادت کی جھوٹی خبر پھیلائی گئی۔ اس جنگ کے خوف سے ابی بن خلف مرگیا۔اس غزوہ میں مسلمان عورتوں نے شرکت کی اور زخمیوں کو پانی پلایا۔ اس غزہ میں ستر مسلمان شہید ہوئے۔قرآن نے اس جنگ پرسورةآل عمران میں ساٹھ آیتیں نازل کیں، ان کے مطالعہ سے تفصیل معلوم ہو سکتی ہے۔ پھر شوال 5 ہجری غزوہ احزاب یعنی جنگ خندق پیش آیا۔ یہودی مسلمانوں کے بڑھتے ہو ئے قدموں سے پریشان تھے۔ چوںناچہ یہودی قبیلے بنو نصیر قریش کے بیس لوگوں کاجتھا مسلمانوں کو ختم کرنے کیلئے تیار کیا۔ انہوں نے پورے عرب کا چکر لگا کر مخالفین کی فوج تیار کی۔ رسول اللہ نے صحابی سلمان فارسیؓکی تجویز پر مدینہ کی حفاظت کیلئے خندق کھووائی۔ مشرکین سارے عرب کی، دس پزار اتحادی فوجوں کےساتھ کفار مکہ مدینہ پر حملہ آورہوئے۔ جبکہ مسلمانوں فوج کی تعداد صرف تین ہزار تھی۔ اس جنگ میں مسلمانوں کے دل بڑھنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کئی نشانیاں ظاہر ہوئیں۔ اس جنگ میں بھی یہودہ قبیلہ بنو قریظہ کفار کے ساتھ شریک تھا۔ اس جنگ کا سورة الحزاب میں ذکر ہوا ہے وہاں تفصیل دیکھی جاسکتی ہے۔رسول اللہ کی جنگی چال سے اتحادی فوجوں میں پھوٹ پڑھ گئی۔ اللہ کی مدد آئی اور ایک ذبردست طوفان نے اتحادی فوجوں کے خیمے اُ کھار دیے۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ کے فرشتوں نے اتحادی فوجوں کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔ اس موقعہ پررسول اللہ نے فرمایا، آیندہ یہ تم پر حملہ نہیں کر سکیں گے ۔ اب ہم ان پر حملہ کریں گے۔ جنگ کے بعد یہودی قبیلہ بنو قیظہ کی عین جنگ کے موقعہ پر غداری کی سزا دے کر ختم کر دیا گیا۔ پھرذی قعدہ 6 ھ میں صلح حدیبیہ پیش آیا۔ جنگوں سے فراغت ملی تو رسول اللہ نے اسلام کی تبلیغ کے لیے بیرون عرب بادشاہوں کو خطوط لکھے۔ حبشہ کے باشاہ نجاشی، مقوقسشاہِ مصر،شاہ فارس خسرو پرویز، قیصر شاہ روم، مینذر بن سادی، ہوذہ بن علی یمامہ، حارث حاکم دمشق اور شاہ عمان وغیرہ شامل ہیں ۔ اس کے بعد رسول اللہ نے حدیبیہ معاہدے میں شریک صحابہؓ خصوصاً اور دوسرے کے ساتھ عمرہ قضاءادا کیا۔ اس کے بعد غزوہ مکہ رونما ہوا۔ رسول اللہ دس ہزار صحابہؓ کی لشکر کے ساتھ مکہ روانہ ہوئے۔ آپ نے جنگی چال کے طور پر مکہ سے باہر مرالظہران کے مقام پر پڑھاﺅ کیا اور سب صحابہؓ کو علیحدہ علیحدہ آگ کے جلانے کا حکم دیا۔ اس سے قریش مکہ خوف زدہ ہو گئے۔ ابو سفیان اس موقعہ پر ایمان لے آیا۔ رسول اللہ اپنے لشکرکےساتھ مکہ میں شان کے ساتھ مختلف سمتوں سے داخل ہوئے۔ مکہ جنگ کے بغیر ہی فتح ہو گیا۔ معافی کا اعلان کرتے ہوئے اپنی جانی دشمنوں سردارانِ قریش کو حضرت یوسف ؑکی سنت پر عمل کرتے ہوئے معاف کر دیا۔پھر عام معافی کا اعلان جاری کیا کہ، جو خانہ کعبہ میں داخل ہو جائے، جو گھروں سے باہر نہ نکلے۔ جوابو سفیان کے گھر میں داخل ہو جائے، ان سب کو معاف کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ نے حضرت بلالؓ کو خانہ کعبہ کی چھٹ پر چڑھ کر اذان دینے کا کہا۔ خانہ کعبہ میں رکھے ہوئے تین سو ساٹھ(360) بتوں کو توڑ دیا۔ چند دشمن دین کے لیے کہا کہ یہ خلافِ کعبہ سے بھی لپٹے ہوئے تو انہیں ہلاک کر دیا۔ ان میں بھی بعض کو صحابہؓ کی سفارش پر معافی دے دی۔پھر غزوہ حنین پیش آیا۔اس غزوہ میں آپ کے ساتھ باراہزار ا(12000) لوگ شامل تھے۔کچھ کم تربیت یافتہ تھے۔اسس جنگ میں ہوزن اور بنو ثقیف کے تیر اندازوں کی وجہ سے بڑا نقصان ہوا۔ بھگڈر مچ گئی لوگ اِدھر اُدھر بھاگ گئے۔ رسول اللہ پہاڑ کی چٹان کی طرح جنگ میں کھڑے رہے۔رسول اللہ حضرت عباسؓ سے کہا مسلمانوںکو اکھٹا کرو۔ حضرت عباسؓ نے پکارا،اے درخت والے!یعنی بیعت رضوان والو!الے انصاریو! رسول اللہ نے موقعہ پر ایک مٹھی مٹی کی دشمنوں کی طرف پھینکی۔ پھر اللہ نے ان کے چہرے بگاڑ دیے اور ان کو شکست ہوگئی۔آخر میں غزوہ تبوک پیش آیا۔ روم و ایران اس وقت بڑی قوتیں تھیں۔مدینہ میں اُبھرتی ہوئی اسلامی قوت کو ختم کرنے کیلئے ہر قل شاہ روم نے چالیس ہزارا(40000) کا لشکر تیار کیا ہوا تھا۔سارے عیسائی دنیا کو اپنے جھنڈے تلے جمع کر لیا۔ رسول اللہ نے بھی اعلان کر دیا کہ روم سے لڑائی ہیں۔ مسلمانوں تیار ہو جاﺅ۔ اللہ کی طرف سے سورة توبہ میں اس جنگ کی تیاری پربحث ہوئی ہے۔ اس کی رفصیل دیکھی جا سکتی ہے۔ اس جنگ سے پہلے ہی رومی بھاگ گئے۔ پھر رسول اللہ نے 9ھ کو حضرت ابو بکرؓ کو امیر حج بنا کر مکہ روانہ کیا۔ اعلان کرایا کہ آیندہ کوئی مشرک حج کو نہ آئے۔ نہ کوئی ننگا آدمی خانہ کعبہ کا طواف کر سکتا ہے۔اگر غزوات کی بات کی جائے اور ان کا گھرائی سے مطالعہ کیا جائے تو رسول اللہ ایک بہترین کمانڈر کے طور پر ان غزوات کی کمانڈ کی، یہ دنیا کی تاریخ کا ایک لازوال اور عظیم واقعہ ہے۔ رسول اللہ، مالکِ کائنات کا پیغام ان کے بندوں تک پہنچا کر اس دنیا سے سے ظلم و جور ختم کر کے انصاف کا نظام قائم کرنے کے مشن پر لائے گئے تھے۔ اللہ کے رسول نے ہرموقعہ پرصحابہؓ کی تربیت کرتے رہے۔ جنگوں میں شکست کھانے کے بعد لوگ دین میں فوج درجوج داخل ہونے لگے۔ا للہ تعالیٰ نے رسول اللہ کو اپنا پیغمبر بناتے وقت فرمایا تھا” اے(محمد) جو کپڑا لپٹے پڑے ہو۔ اُٹھو اور ہدایت کرو۔(سورة المدثر ۔آیات1 ۔2) پھر کیا تھا اللہ کے پیغمبر اُٹھ کھڑے ہوئے۔ دنیا کو واعظ ونصیحت کے ذریعے ڈارایا۔ جو واعظ ونصیحت سے نہ مانے ان کے ساتھ جنگیں کیں۔ حج الوادع کے موقع پر یہ کام انجام کو پہنچا۔ آپ نے اپنے خطبے میں ایک لاکھ چالیس ہزار(140000) صحابہؓ کے مجمع میںانسانیت کے فاہدے کی ساری ہدایت فرما دیں۔آپ نے فرمایا کیا میں نے آپ تک اللہ کا پیغام پہنچا دیا ۔ سارے صحابہ ؓ نے یک زبان ہو کر کہا جی ہاں آپ نے اللہ کا پیغام ہم تک پہنچا دیا پھر رسول اللہ نے آسمان کی طرف انگلی کر کے کہا کہ، اے اللہ تری بندے گواہی دے رہے ہیں کہ میں نے تیرا پیغام تیرے بندوں تک پہنچا دیا۔ آپ بھی اس پر گواہ رہیں ۔پھر اللہ کی طرف قرآن میں کہا گیا”آج مےں نے تمہارے لےے تمہارا دےن مکمل کر دےا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لےے اسلام کو بحےثےت دےن پسند کر لےا“ (المائدہ آیات3)۔ اس کے بعد آپ^ بیمار ہوئے۔ آپ12ربیع الاول11ھ کو 63 سال کی عمر میں مالکَ حقیقی سے جاملے۔ اب رہتی دنےا تک ےہ ہی دےن غالب رہے گا ۔حضرت محمد صلی اللہ علےہ و سلم اللہ کے آخری پےغمبر ہےں اور ےہ دےن آخری دےن ہے۔ قےامت تک نہ کوئی نےا نبی نہیں آئے گا اور نہ نےا دےن آئے گا۔ اب اس دےن کو دوسری قوموں تک پہنچانے کا کام امت مسلمہ کرےگی۔ لہذا ہمارے لےے سبق ہے کہ ہم اپنے اعمال ٹھےک کرےں۔ مسلمان حکمرانوں نے اسلام کے دستور مےں جتنی بھی خواہشات داخل کر دی گئےں ہےں، انہےں اےک اےک کر کے اپنے دستو ر عمل سے نکال دےں اور اپنے اپنے ملکوںمےں حکومت الہیہ، اسلامی نظامِ حکومت، نظام مصطفےٰ( جو بھی نام ہو) اس کو قائم کرےں او ر پھر اس اسلامی دستور کو دنےا کے تمام انسانوں تک پہنچائےں۔ جنت کے حق دار بنےں اور جہنم کی آگ سے نجات پائےں، جو کافروں کے لےے تےار کی گئی ہے۔ اپنی آخری منزل جنت مےں داخل ہوں۔ جہاں ہمیشہ ہمےشہ رہنا ہے ۔جہاں نہ موت ہو گی نہ تکلےف ہو گی اللہ مومنوں سے راضی ہو گا اور ےہی کامےابی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے