کالم

سانحہ اے پی ایس خون کے آنسو رلاتا ہے

riaz chu

16 دسمبرایک ایسا کربناک اور غمناک دن کہ ہمارا ایک بازو ہم سے جدا ہوا ۔ ابھی ہم اس بازو بنا سنبھل ہی رہے تھے کہ دشمن نے اسی دن ایک اور کاری ضرب لگا دی ۔ 16 دسمبر 2014کو پشاور کے آرمی پبلک سکول میں دن دیہاڑے دہشت گردوں نے ظالمانہ اور سفاکانہ کارروائی کرتے ہوئے ننھے منے بچوں کو ان کے اساتذہ سمیت ہمیشہ کی نیند سلا دیا۔ دہشت گردوں نے معصوم بچوں کو جس بربریت کے ساتھ شہید کیا تاریخ انسانیت میں اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔آج جب سانحہ آرمی پبلک سکول کی آٹھویں برسی منائی جا رہی ہے تو ہر آنکھ اشکبار ہے اور ہر دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ غمزدہ و متاثرہ خاندانوں کے زخم ہرے ہو گئے ہیں اور انہیں اپنے پیاروں کی یاد ب±ری طرح ستا رہی ہے۔اے پی ایس کے بچوں نے اپنے لہو سے تاریخ لکھی اور شہید بچوں کے خون کا قرض دہشت گردوں کا صفایا کر کے اتارنا ہے۔ بچوں نے بہادری اور جرات کی نئی تاریخ رقم کی۔ شہید ہونے والے بچے اور اساتذہ پوری قوم کے ہیرو ہیں اور رہیں گے۔ سانحہ آرمی پبلک سکول کو 5 سال بیت چکے۔ اس دوران 1584 دہشت گرد گرفتار کئے گئے جبکہ 167 ایسے خطرناک دہشت گرد بھی گرفتار یا مارے جا چکے ہیں جن کے سروں کی قیمت مقرر کی گئی تھی۔پشاور کے سکول میں دہشت گردی کی یہ واردات اس لحاظ سے بھی افسوسناک ہے کہ دہشتگردوں نے چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کونشانہ بنایا جن کے ابھی کھیل کود کے دن تھے۔ یہ بچے پاکستانی قوم کا مستقبل تھے۔ اس واقعہ کے بعد پورے م±لک میں سوگ اور اداسی کی ایک لہر دوڑ گئی تھی۔سنگ دل دہشت گردوں سے تو کچھ بعید نہیں۔ اب بھی ا±ن سے ایسی مزید سنگدلانہ وارداتوں کی توقع بھی کی جا سکتی ہے۔ جن لوگوں کو برین واش کر کے ایسی وارداتوں کےلئے تیار کیا جاتا ہے وہ سب کچھ کر گزرتے ہیں۔ ایسی شقاوت قلبی کی وارداتیں پتھر دل لوگوں پر کوئی اثر نہیں ڈالتیں۔ لیکن ایسی وارداتیں روکنے کےلئے جو کچھ ہم کر سکتے ہیں وہ تو کیا جانا چاہئے۔دہشت گردی کے عروج دور میں ہم نے دیکھا کہ دہشت گردوں نے سیکورٹی اداروں اور عوام کو دھوکہ دینے کےلئے پولیس اور سیکورٹی اداروں کی وردیاں ، گاڑیاں استعمال کیں۔ پشاور سکول میں بھی یہی کچھ ہوا کہ پولیس اور دیگر اداروں کی وردی میں دہشت گرد سکول کے اندر داخل ہوگئے۔ ان دہشت گردوں کو تربیت دینے والے لوگ بہت ہوشیار ہیں وہ واردات کےلئے اپنے ہدف کا انتخاب بھی طویل منصوبہ بندی کے بعد کرتے ہیں، اس کے مختلف پہلوو¿ں کا تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں۔ یہ بھی حساب لگاتے ہیں کہ دہشت گردی کی کا میاب واردات کے بعد اس کے اثرات کہاں کہاں محسوس کئے جائیں گے۔ وہ اس سے پہلے سیکیورٹی اداروں کے تربیتی مراکز کو بھی خصوصی طور پر نشانہ بنا چکے ہیں ۔ 2014 میں انہوں نے ملٹری سکول کو ہدف بنایا جس سے دہشت گرد یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ وہ ضربِ عضب کا بدلہ لینے کےلئے ہر ا±س مقام کو نشانہ بنائیں گے، جس کا تعلق کِسی نہ کِسی انداز میں سیکیورٹی کے ساتھ ہے۔ سیکیورٹی کے فول پروف انتظامات کر کے آئندہ پشاور جیسے سانحات سے بچا جا سکتا ہے اور اہلِ وطن کی زندگیوں کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔16 دسمبر 2014 کا دن ملکی تاریخ میں سیاہ یوم کے طور پر یاد رکھا جائے گا اور شہداء کے خون سے لکھے جانےوالے اِس باب کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ آرمی پبلک سکول کے ان معصوم بچوںاور اساتذہ کی قربانی نے قوم کو بیدار اور متحد کیا یوں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سانحہ اے پی ایس ایک قومی المیہ ہونے کے ساتھ تجدید عہد کا بھی دن ہے۔کیونکہ قوم نے دہشت گردی کیخلاف اصل جنگ اس سانحہ کے بعد ہی شروع کی اور پاک فوج اور دیگر سکیورٹی فورسز کی قربانیوں کی بدولت ہم دہشت گردی پر قابو پانے میں بہت حد کامیاب ہوئے۔ بربریت اور سفاکیت کے علمبرداوں کی جانب سے سکول کے معصوم بچوں کو نشانہ بنایا گیا۔ حصول علم کےلئے جانےوالے معصوم جب واپس لوٹے تو ان میں سے بہت ساروں نے شہادت کی قبا اوڑھ رکھی تھی۔ یوں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی قوم نے جو قربانیاں پیش کیں وہ شاید ہی کسی دوسری قوم نے دی ہوں۔پاک فوج اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی رات محنت اور قربانیوں کی بدولت آج پاکستان میں دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت ہماری بہادرافواج اور سیکورٹی اداروں نے دہشت گردوں کو شکست فاش دی۔ عدم برداشت پر یقین رکھنے والے نہیں چاہتے کہ ہمارے ننھے منے بچے پڑھیں اور کچھ سیکھیں لیکن ہم انہیں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ ان معصوم بچوں نے روشنی کی بیج بوئے ہیں۔ ہمارے دشمن نفرت اور انتہا پسندی کے ہتھیاروں سے لڑتے ہیں جس کے جواب میں ہم نے اپنی سرزمین پر برداشت ،تعلیم و تربیت اور روشن خیالی کو فروغ دینا ہے۔ ہماری دھرتی کی بقاءاور شہداءکی یادوں کو کسی طور بھی جدا نہیں کیا جا سکتا۔ بچوں کی قربانی ضائع نہیں گئی ۔امن کی بہتر صورتحال آپ ہی کی مرہون منت ہے اور یہ مادر وطن سے محبت کے غیر متزلزل عزم کی علامت ہے۔16دسمبر وہ دن ہے جسے ہمیں کبھی نہیں بھولنا چاہیے ۔ ہمارے دشمن نے اس دن ہمیں پشاور میں زخم پہنچایا۔ دشمن کی مکمل شکست کیلئے ابھی بہت کچھ کرنے کو باقی ہے۔ ہمارا عزم پختہ اور جذبے سچے ہیں۔ پاکستانی قوم یہ جنگ جیتے گی۔ ہمارا عزم پختہ اور جذبے سچے ہیں۔ ہم برسی اس انداز میں منائیں گے کہ بچوں کو خراج عقیدت پیش کیاجائیگا اور دہشتگردوں کو اس بات کا پیغام دیا جائیگا کہ پاکستانی قوم آج بھی ایسے موقع پر ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتی اور ہم معصوم بچوں کے خون سے کھیلنے والے درندوں کو قومی یکجہتی کا پیغام دیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے