کالم

ستمبر کا جذبہ بیدار کرنا ہوگا 6

قومی تاریخ میں 6 ستمبر کی اہمیت سے کسی طور پر انکار ممکن نہیں، دراصل یہی وہ دن تھا جب دشمن نے پاکستانی قوم کے جذبہ حب الوطنی کو لکارا اور پھر اسے عملا منہ کی کھانی پڑی ، اقوام کی عروج وزوال کی تاریخ کا مطالعہ اس حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے جب بھی جذبہ آزادی سے سرشار کسی قوم کےخلاف کوئی چیلنج درپیش ہوا تو اس کے بچے ، بزرگ،مرد حتی کی خواتین تک نے جانی ومالی قربانیوں سے دریغ نہ کیا، 6 ستمبر 1965 کو بھارت نے پوری تیاری کے ساتھ پاکستان پر حملہ کیا تھا، دشمن کا خیال تھا کہ پاکستانی قوم اور اس کی مسلح افواج اچانک ہونے والی اس کارروائی کا بھرپور جواب نہ دے سکیں گے مگر بعدازاں ثابت ہوا کہ یہ اس کی خام خیالی تھی ، اہل پاکستان نے جس اتحاد واتفاق کے ساتھ پڑوسی ملک کے ناپاک عزائم ناکام بنائے وہ ہماری تاریخ کا روشن باب ہے ، اس سچائی کو تسلیم کیے بغیر بات آگے نہیں بڑھ سکتی کہ کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی کا بڑا امتحان یہی ہے کہ اس کے پڑوسی ممالک کے ساتھ سیاسی اور سفارتی تعلقات کیسے ہیں،پاکستان اور بھارت کا معاملہ یہ ہے کہ تقسیم ہند سے لے کر آج تک دونوں ممالک کے درمیان نہ صرف باضابطہ جنگیں ہوچکیں بلکہ سرحدوں پر کشیدگی کے بھی ان گنت واقعات ہیں ، دونوں ریاستوں کے درمیان بنیادی تنازعہ مسئلہ کشمیر ہے جس کی وجہ سے ہم مسلسل جنگی ماحول میں ہیں ، پاکستان کی حد تک تو یہ یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ وہ تنازعہ کے پرامن حل کا خواہاں ہے ، مذکورہ تنازعے کی وجہ سے جنوبی ایشیا میں دیرپا امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہورہا ، پاکستان اور بھارت کا بطور ایٹمی قوت کو خود کو منوانا بھی مسئلہ کشمیر کی وجہ سے ہی ممکن ہوا، عالمی تعلقات کے ماہرین کا نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ اگر مسئلہ کشمیر کی موجودگی کے باوجود پاکستان اور بھارت تجارتی اور سفارتی تعلقات کا فروغ ممکن بنا لیتے ہیں تو اسے دونوں ممالک کی قیادت کی دور اندیشی سے تعبیر کیا جائے گا، یقینا ماضی کی طرح پاکستان کی آج بھی خواہش اور کوشش ہے کہ بھارت ساتھ کشیدگی کا جلد ازجلد خاتمہ ہو اور دونوں ممالک اپنے وسائل جنگ وجدل کی بجائے عوام کی خوشحالی اور بھلائی پر خرچ کریں ۔ یہ کہنا کسی طور پرغلط نہ ہوگا کہ تقسیم ہند سے قبل ہی بھارت میں ہندو انتہاپسندوں کا ایسا منظم گروہ وجود میں آچکا تھا جس نے اکھنڈ بھارت کے فلسفے پر نہ صرف خود سختی سے کاربند رہا بلکہ اپنے ہم مذہب افراد کو بھی یہ کہہ ہر ساتھ ملانے کی کوشش کرتا کہ ہندوستان صرف ہندووں کا ہے ، سماجی اور سیاسی ماہرین متفق ہیں کہ دنیا میں ایسا کم ہی ہوا کہ کسی ریاست میں سو فیصد ایک ہی مذہبی نقطہ نظر کے حامل افراد کا اکٹھ ہوگیا ہو، سچ تو یہ ہے کہ ایک ہی دھرم کو ماننے والوں میں مذہب کی تعریف پر اختلاف پایا جانا فطری عمل ہے ، ہندو انتہاپسندوں کی اس انتہاپسندانہ سوچ کا نتیجہ ہی تھا کہ مہاتما گاندھی جیسے رہنما کا قتل خود ہندووں کے ہاتھوں ہوا ، پاکستان اور بھارت میں مسلسل پائی جانے والی کشیدگی کے درپردہ بھی یہی انتہاپسند ہندو ذہنیت کارفرما ہے ، یقینا یہ جنوبی ایشیا کی بدقسمتی ہے کہ آج بی جے پی کی شکل میں بھارت میں ایسی سیاسی پارٹی اپنی جڑیں مضبوط کرچکی جو اسلام ، پاکستان اور مسلمان دشمنی پر ووٹ حاصل کرتی ہے ، گجرات کے قصائی کہلائے جانےوالے نریندر مودی اعلانیہ مسلمانوں سے نفرت کرنے میں کسی طور پر ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتا ، یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ اقوام عالم چین دشمنی میں بھارت کی حمایت میں پیش پیش ہیں ، پاکستان کو بھارت کی نگاہ سے دیکھنے کا ہی نتیجے ہے کہ مسئلہ کشمیر کئی دہائیوں سے زیرالتوا ہے ، حال ہی بھارت کی جانب سے جس طرح سے مقبوضہ کشمیر کے خصوصی حیثیت کا خاتمہ کیا گیا اس نے دنیا کے ہر باضمیر شخص کو ہلا کر رکھ دیا ، پاکستان اور بھارت میں جاری کشیدگی کا خوفناک پہلو یہ ہے کہ دونوں ممالک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں ، سوال یہ ہے کہ خدا ناخواستہ دونوں میں سے کوئی ایک بھی ایٹمی حملے کرجاتا ہے تو جنوبی ایشیا ہی نہیں پوری دنیا کا امن تباہ وبرباد ہوسکتا ہے ، اب اقوام متحدہ کی بجا طور پر ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا قانونی کردار ادا کرے ۔یواین کی وہ قرادادیں جو کشمیر سے متعلق ہیں ان پر ہنگامی بنیادوں پر عمل درآمد کیا جائے ، افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ انسانی حقوق کے علمبردار مغربی ممالک ہرگز انسان دوست ثابت نہیں ہوئے ، اس کی بڑی مثال آج غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کا قتل عام ہے ، عالمی تنازعات میں مسئلہ کشمیر اور تنازعہ فلسطین سالوں سے نہیں دہائیوں سے حل طلب ہیں ، ستم ظریفی یہ ہے کہ مذکورہ دونوں تنازعات میں مسلم آبادی کی بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں،ماضی کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ بااثر یا طاقتور ممالک پاکستان اور بھارت میں جاری کشیدگی ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے چنانچہ بطور پاکستانی قوم جو کام ہم نے کرنا ہے وہ یہ کہ اپنی صفوں میں اتفاق واتحاد کو فروغ دیں تاکہ6 ستمبر 1965کی طرح دشمن کا کوئی بھی اقدام باآسانی ناکام بنا کر سرخرو ہوا جاسکے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے