قومی تاریخ میں 6ستمبر کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ، اس ضمن میں یہ کہنا ہرگز غلط نہ ہوگا کہ مذکورہ دن نے پاکستان قوم کو پوری قوت کے ساتھ باور کروایا کہ دوقومی نظریہ کی افادیت اور اہمیت بدستور موجود ہے ، درحقیقت اس سچائی سے کسی طور منہ نہیں موڈا جاسکتا کہ تقسیم ہند سے لے کر اب تک بھارت عملاً پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم کرنے سے انکاری ہے، یقینا دونوں ملکوں میں موجود کشیدگی کی بہت ساری وجوہات ہیں مگر اس میں سب سے نمایاں یہ ہے کہ بھارت میں سیاسی اور مذہبی انتہاپسند ہمہ وقت پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتے ہیں ، کہا جاسکتا ہے کہ عصر حاضر کی ہر ریاست میں ایسے عناصر کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جاسکتا جو سخت گیر سیاسی ومذہبی رجحانات رکھتے ہوں ، مگر بھارت کا معاملہ یہ ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک کے برعکس بھارت میں ہندو دھرم کے نام پر مرنے اور مارنے والے گروہ نمایاں سیاسی مقام حاصل کرچکے، اسے پڑوس ملک کی بدقسمتی کہہ لیں کہ لیں کہ تقسیم ہند سے قبل اور بعد میں اکھنڈ بھارت کے فلسفے پر یقین رکھنے والے پرتشدد کاروائیوں میں ملوث ہوںگے، اس برتری سے رجحان کا واضح ثبوت یہ کہ مہاتماگاندھی کو برصغیر پاک وہند کی تقسیم کے محض چند ماہ بعد ہی جنوری 1948 میں ہندو انتہا پسند نتھورام گوڈسے نے قتل کردیا ، مذکورہ واقعہ یہ بتانے کیلئے بہت کافی ہے کہ سرحد کے اس پار انتہاپسندانہ نظریات اور خیالات کی جڑیں خاصی پرانی ہیں، اس پس منظر میں 6 ستمبر 1965کے دن بھارتی سرکار میں موجود انتہاپسند عناصر یوں کھل کر سامنے آئے کہ پیشگی اطلاع دئیے بغیر پاکستان کی سرحد عبور کرلی گئی۔ بیدیاں اور واہگہ کے علاقے میں پاک فوج نے دشمن کو ایسا بھرپور جواب دیا کہ وہ عملا بوکھلا کر رہ گیا، کھیم کرن کی طرف دشمن فوج کی پیش قدمی بھی ناکام بنا دی گی ، تاریخ گواہ ہے کہ مسلح افواج نے نہ صرف بھارتی حملہ ناکام بنایا بلکہ دشمن کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر ڈالا۔ ادھر پاکستان ائیرفورس نے بھارتی ائیربیس پٹھان کوٹ،آدم پوراور بلواڈہ میں بھرپور حملے کیے ،دوسری جانب پاک بحریہ نے بھارت کی کراچی بندرگاہ کی جانب پیش قدمی روک دی اور پوری مہارت کے ساتھ بھارتی طیاروں اور ریڈارسٹم کو یوں تباہ کیا کہ عالمی ماہرین عش عش کراٹھے ، 6 ستمبر 1965 کی جنگ کی خاص بات یہ بھی رہی کہ دوست ممالک نے بھارت کے خلاف پاکستان کی بھرپور مدد کی ، انڈونشیا نے پاکستان کے حق میں کارروائی کرتے ہوئے اندمان اور نکوبار کے جزائر کا محاصرہ کروایا۔ بردار ملک نے پاکستان کی مدد کیلئے دو آبدوزیں اور دو میزائل بردار کشتیاں روانہ کیں۔ ادھر ایران نے نہ صرف پاکستان کو مفت تیل بلکہ زخمیوں فوجیوں کے علاج کیلئے ادویات بھی فراہم کیں۔ ترکی نے پاکستان فوج کو طبی سہولیات کی فراہمی کیلئے نرسوں کے گروپ بھیجے۔ چین نے پاکستان کو بھرپور امداد کی یقین دہانی کرواتے ہوئے امریکہ اور روس پر اعتماد نہ کرنے کا مشورہ دیا ، اس بار 6ستمبر کا دن ایسے موقع پر آیا ہے جب حال ہی میں پاکستان نے بھارتی جارحیت کا منہ توڈ جواب دیتے ہوئے کہ نئی دہلی کو ایک بار پھر بتا دیا کہ پاکستان کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے، مودی سرکار پر یہ سچ پوری قوت کے ساتھ آشکار ہوگیا کہ پاکستان کسی طور ترنوالہ نہیں کہ اسے آسان سے کھالیا جائے، یقینا جنگیں محض فوج نہیں قوم لڑا کرتی ہے۔ اسی لیے رواں سال مئی میں ہونے والی پاک بھارت جنگ میں مودی سرکار کے تمام اندازے غلط ثابت ہوئے ، یعنی ایک طرف بے جی پی سرکار کو علاقائی ہی عالمی سطح پر ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تو دوسری جانب بھارتی میڈیا کا جھوٹ اور کھوکھلا پن بھی کھل کر سامنے آگیا ، جنگ کے دوران بھارتی میڈیا جس طرح لاہور اور کراچی میں گھس جانے کا دعوی کرتا رہا اس نے پڑوسی ملک کی صحافت کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ، بھارت کی پاکستان کے ساتھ دشمنی میں خیر کا پہلو ہے کہ ہماری نئی نسل کو معلوم ہوچکا کہ قیام پاکستان کیونکر ضروری تھا ، اس پر مہر بھی تصدیق ثبت ہوچکی کہ دو قومی نظریہ ماضی کی طرح آج بھی زندہ و جاوید ہے ۔ بلاشبہ پاکستان کا دفاع ہر لحاظ سے مضبوط اور مستحکم ہے ، جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ بطور قوم ہم اپنے ذاتی اور گروہی مفادات سے تائب ہوکر ملکی تعمیر وترقی میں بڑھ چڑھ کر کردار ادا کریں ، نہیں بھولنا چاہے کہ عصر حاضر میں دشمن ریاست اپنے حریف سے براہ راست جنگ کرنے کی بجائے اسے اندرونی طور پر کمزور کرنے کی پالیسی پر گامزن رہتی ہے ، وطن عزیز میں آج سیاست کے نام پر جس طرح انتشار اور اختلاف کو ہوا دی گئی اس نے دشمن کے بیانیہ کو تقویت بخشی ، یقینا رائج نظام میں بہتری کی گنجائش موجود ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بدخواہوں کے ہاتھ مضبوط کیے جائیں ، تیزی سے تبدیل ہونیوالی اس دنیا میں پاکستان کو جس چیز کی ضرورت ہے وہ باہمی اتفاق واتحاد کی ہے ، شکوے شکایات اپنی جگہ مگر اجتماعی سطح پر تعمیر وترقی کے جذبہ کو کسی طور سرد نہیں ہونا چاہے ، ستمبر 1965اور مئی 2025کا پیغام یہی ہے کہ متحد پاکستانی قوم داخلی اور خارجی چیلنجز پر باآسانی قابو پاسکتی ہے۔