کالم

سوئے ہوئے لوگوں کو سونے کی تلاش

آنے والے برسوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کے علاہ ایک نیا اور خطرناک بحران نیند کا پیدا ہو سکتا ہے۔ یعنی سونے کی کمی، اور جاگنے کی اذیت ۔ ہرچند کہ پاکستانی بظاہر سوئے سوئے سے لوگ لگتے ہیں ،لیکن المیہ کچی نیند کا ہے۔وہ بیداری سے منہ چھپا کر لیٹ جاتے ہیں ، پھر کروٹ لے کر اور منہ لپیٹ کر سونے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں۔ دراصل پاکستانی قوم گہری نیند سونا چاہتی ہے اور ہمارے علامہ اقبال اسے مسلسل جگانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔دنیا کا سب سے بڑا ظلم سوتے ہوئے کو اس کی مرضی کے خلاف جگانا ہوتا ہے۔ایسا بہرحال نہیں ہے کہ علامہ اقبال کے جگانے سے قوم واقعتا بیدار ہو چکی ہے۔ سونے سے پیار اور سونے کی تلاش ہمارے لوگوں کی بڑی شناخت بھی بن چکی ہے۔نیند سے پیار کی یہ حالت ہے کہ بلوچستان سے سونے کے بہت بڑے ذخائر کی دریافت بھی پاکستانیوں کو خوش اور متاثر نہیں کر سکی۔وجہ یہ ہے کہ جس سونے کی تلاش میں لوگ رہتے ہیں ،وہ سونا وہ نہیں ،جو بلوچستان سے دریافت ہو چکا ہے۔ہمارے خوابیدہ میڈیا نے آج تک سینڈک بلوچستان سے دریافت ہونے والے سونے کا پیچھا نہیں کیا ،نہ ہی اس کی خبر لی ہے ۔لیکن اس سب کے باوجود کوئی کچھ بھی کہتا پھرے ، میں کھلے دل بعض حقیقتیں تسلیم کرنا چاہتا ہوں۔پہلی حقیقت پاکستانی میڈیا کی الوہی آزادی اور اجتہادی بے باکی ہے ۔عام پاکستانی، بقول ستم ظریف غریب پاکستانی تو پھر بھی برداشت ہو جاتے ہیں،لیکن یہ گریب لوگ برداشت نہیں ہوتے۔ایک تو یہ بھوک کو ایک مسئلہ بنا کر پیش کرتے رہتے ہیں ، جبکہ ان میں سے بیشتر گریبوں کی توند لٹکی نظر آتی ہے۔یہ شکوے شکایت کے سوا کچھ نہیں کرتے ۔یہ صرف سویلین نظر ہی نہیں آتے ،اصل میں ہوتے بھی ہیں ۔ان کی سست رفتار زندگی نے انہیں بےکار چیخ و پکار کے سوا کچھ بھی نہیں سکھایا۔یہ خوش رہنے کی بجائے اداس رہنے کو ترجیح دیتے ہیں ،ہنسنے کی بجائے رونے کو پسند کرتے ہیں۔ان کے منہ سے اپنے لیے دعا کی بجائے دوسروں کے لیے بددعائیں نکلتی ہیں۔ان کے دونوں ہاتھ الزامات کے چپکنے والے پوسٹرز سے بھرے رہتے ہیں۔انہیں جو بھی سامنے نظر آئے ، یہ اس کے منہ پر الزام چپکا دیتے ہیں۔یہ سب پاکستان کے موجودہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو ڈرا سہما، بکا قسم کا بزدل بلکہ منحوس میڈیا سمجھتے ہیں ۔میں نے ایک بے گھر گریب سے پوچھا کہ تم پاکستانی میڈیا کو منحوس کیوں کہتے ہو؟ کہنے لگا کہ اس لیے منحوس کہتا ہوں کہ آج کل وہ خبروں کی بجائے نحوست پھیلا رہا ہے، لوگوں نے ٹی وی چینل دیکھنا چھوڑ دیئے ہیں ، اخبار پڑھنے ترک کر دیئے ہیں۔اس کے باوجود چینلز اور بیشتر اخبارات ترویج و تقسیم نحوست میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں۔اس کا نہایت خطرناک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ؛ اب لوگوں کو لاعلم اور بے خبر رہنے میں راحت محسوس ہونے لگی ہے۔میں خود چونکہ ؛ گریبوں کو تو چھوڑیئے ،غریبوں تک کو پسند نہیں کرتا ، اس لیے یہ اول فول تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ انسان کو فضول اور فرضی باتوں کی بجائے ٹھوس باتوں پر توجہ دینی چاہیے۔گزشتہ دنوں وفاقی وزارت معدنیات نے ذرات سے ترقی کے عنوان سے ایک پورے دن پر مشتمل عالمی کانفرنس منعقد کروا ڈالی۔ اس عالمی کانفرنس میں عالمی ماہرین اور پاکستان میں مقیم سفیروں کے علاہ پاکستان کے سپہ سالار نے بھی شرکت کی۔ پاکستان کو قدرت نے معدنیات کی دولت سے مالا مال ملک بنایا ہے۔ن لیگ کی ایک گزشتہ حکومت کے دور میں اچانک چنیوٹ کے قریب دنیا کے سب سے بڑے لوہے کے ذخائر دریافت ہو گئے تھے۔وہاں بھی اس وقت کے وزیراعظم ،جو آج کل کے وزیراعظم کے برادر بزرگ اور مفرور ہیں ،نے ہاتھ میں خام لوہے کا راڈ پکڑ کر تصویریں بنوائیں تھیں ۔ پاکستان کے ایک بہت بڑے سائنسدان بھی وزیر اعظم کے ساتھ فاتحانہ مسکراہٹ چہرے پر سجائے کھڑے دیکھے جا سکتے تھے۔وہ تو خیر دریافت ہونے والا لوہا بے وفا نکلا اور منتظر لوہاروں کو کوئی فائدہ نہ پہنچا سکا۔اور غائب ہو گیا۔اج کل وہ لوہا زیر زمین کہاں پھر رہا ہے ،کسی کو کچھ نہیں معلوم ۔اسی طرح بلوچستان میں سونے کے ذخائر دریافت ہوئے مدت گزر گئی ، آج تک پاکستانیوں کو خبر نہیں ہو سکی کہ یہ سونا کس بستر پر سویا پڑا ہے؟ تانبے کے ذخائر کا ذکر تو چھوڑیئے ،خوامخواہ بندہ غریب سا لگتا ہے۔ لیکن سونا؟ ہم نے شاید کبھی اسے آواز دینے کی کوشش ہی نہیں کی ،ورنہ دوسری طرف سے کوئی جواب تو آتا ۔ اس معدنیات سے متعلق عالمی کانفرنس کی بھرپور خبریں ہمارے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی زینت بنی ہیں۔ سپہ سالارنے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شرکا کو بتایا ہے کہ؛ پاکستان کی بری فوج کی قیادت نے ملک کی معاشی صورتحال کا درست تجزیہ کرنے کے بعد حالیہ ہفتوں میں تین بڑے شعبوں میں عظیم نوعیت کی پہل قدمی کا اعلان کیا ہے ؛ اول اطلاعاتی ٹیکنالوجی، دوم زراعت اور سوم معدنی دولت کا کھوج لگانا اور نکالنا۔بہرحال پاکستانیوں کو اس بات پر خوش ہونا چاہئے کہ عسکری قیادت نے سول انتظامیہ کو ساتھ ملا کر پاکستان میں ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے ایک مثالی ماحول اور سہولیات فراہم کرنے کا جامع پروگرام بنا لیا ہے ۔اپنے اس خطاب میں سپہ سالارنے کانفرنس کے شرکا کو قرآنی آیات پڑھ کر سنائیں اور غیر ملکی مندوبین کی سہولت کے لیے ان کا انگریزی زبان میں ترجمہ بھی بیان کیا ۔انہوں نے اپنے خطاب کی تکمیل کے لیے علامہ اقبال کی وفات کے بعد شائع ہونے والے آخری مجموعہ کلام ارمغان حجاز(اردو)کی ایک دوبیتی کا انتخاب کیا:
ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے
خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے
عبث ہے شکو تقدیرِ یزداں
تو خود تقدیرِ یزداں کیوں نہیں ہے؟
٭٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے