ہم بھول جاتے ہیں کہ دنیا میں ہمارا قیام عارضی ہے اسی وجہ سے اپنی اپنی بساط کے مطابق ہر جائز اور نا جائز ذریعے سے وہ کچھ سمیٹنا چاہتے ہیں جس کے بغیر بھی زندگی آسانی سے گزر سکتی ہے ۔ابلیس ہمارا دشمن ہے لیکن ہم اپنے ذہن کی سوچ کے برعکس اس موذی کے چنگل میں پھنسے رہتے ہیں۔ دولت شہرت جیسے بھی حاصل ہو اسے اپنے تابع بنائے رکھنے کی لاحاصل کوشش کرتے رہنا ہے ۔ بس یہی فلسفہ حیات ہے اور اسی کے گرد طواف کرتے رہنا کامیابی کی علامت سمجھا جاتاہے۔ ہم اپنے آپ میں منفرد ہیں اور سوچ کے انداز بھی اسی انفرادیت کی غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں۔ منزلوں کا تعین ہو نہیں سکتا کیونکہ ایک فانی انسان کیا منزل کا تعین کرے گا۔اگر سوچا جائے تو یوں لگتا ہے جیسے زندگی اس بڑھیا کی طرح ہوگئی ہے۔ جس نے محنتوںسے سوت کاتا اور آخر میں اسے الجھا دیا ایسی زندگی کیا زندگی کہلوانے کے قابل ہے کمائیاں ساتھ نہیں جائیں گی اور ساتھ جانے کے لیئے کوئی کمائی نہیں تو پھر زندہ رہنا کیا رہا ہے ۔ مایوسیوں کے اندھیروں میں بھی ایک روشنی کا چراغ ہمیشہ روشن رہتا ہے۔ یہ چراغ پیشانی کے اندر ہوتا ہے اور سجدے میں نظر آتا ہے بے بس انسان کا سجدہ ہی بے بسی کا علاج ہے یہی اندھیروں کا سورج ہے۔زندگی کے جو از تلاش نہیں کئے جاتے بلکہ زندہ رہا جاتا ہے زندگی گزرتی جائے تو جواز بھی مل ہی جاتا ہے ۔ زندگی نے ہمیں جواز نہیں دنیا بلکہ ہم نے زندگی کو زندہ رکھنے کیلئے جو ازدینا ہے۔ یہ کائنات ہماری توجہ کی محتاج ہے۔ کا ئنات سے توجہ طلب کرنا اتنا اہم نہیں جتنا اس کو توجہ نیا اور یہی جینے کا جواز ہے۔ انسان پر کبھی راستے بند نہیں ہوئے۔ مایوسیوں کی دیواروں میں اس مالک کی رحمت امید کے دروازے کھول دیتی ہے۔کیا ہم حاضر دنیا میں رہ کر اتنے بدمست ہو گئے ہیں کہ غائب از نگاہ دینا کے بارے میں سوچتے ہی نہیں کیا ہماری سوچ مصنوعی دنیا کے بارے میں اپنی جگہ تلاش کرتی رہتی ہے اور حقیقت سے دور اپنی خواہش کے پنجرے میں مقید ہو گر اصل زندگی کے بارے میں سوچنے کی جرأت ہی نہیں کرتی ۔ کیا سب لوگ رشوت کا مال اٹھاکر سکتے ہیں کیا لوگ رشوت اور حرام کے مال سے حج کر سکتے ہیں کیا یتیم کا مال کھا کر عمرہ یا حج کیا جاسکتا ہے کیا وہ اللہ کی بارگا میں منظور ہوگا کیا پیدا کرنے والا مارنے والا نہیں وہ جب چاہیے جس وقت چاہیے بھیجنے والے کو واپس بلا سکتا ہے ہم اللہ کی بندگی سے دور کیوں ہو رہے ہیں وہ وسائل دیگر گرفت بھی کرتا ہے اسکی بارگاہ میں کوئی شے چھپی ہوئی نہیں ایک ذرے کو بھی جانتا ہے کہ وہ کہاں ہے اور کس حال میں ہے اس کے قبضہ قدرت سے کسی شئے کے باہر ہونے کا سوال ہی نہیں ۔ہم اپنی ناقص عقل ہے اسے جاننے کی کوشش کرتے ہیں وہ ہر سوچ سے پرے سرحد ادراک سے ماورا ہے اس کا مقام عالی وہ خالق ہے مخلوق کی سوچ میں کیسے آسکتا ہے ۔ اس ذات پاک کا حامل یہی ہے کہ اسکو حاصل کرنا ممکن نہیں ۔ اس ذات کو دیکھنا نا ممکن ہے سوائے اس کے کہ اس کے دیکھنے والے کو دیکھا جائے ۔ یہی ایمان ہے یہی حاصل ہے اور یہی منزل -اس پاک ذات کا کمال ہے کہ دلبر بھی اس نے بنایا دلبری بھی اس نے پیدا کی سوز دل پروا نہ بھی اس نے عطا کیا ۔ اس ذات کی طرف سے ملنے والی ہر شے اعجاز منزل ہے سب خیر زندگی میں باخبر ہو جانا منزل کا احسان اول ہے۔ صاحبان پاس جذبوں کی فرواانی ہوتی ہے۔ وہ صاحب یقینہوتے ہیں ، منزل اور اسکی پہچان کا ایک ہی راستہ ہے کہ خود کو پہچانو اپنی ذات کی منزل طے کرو اس ذات کی پہچان ہو جائے گی وہ ذات لا محدود لافانی ہر مقام پر موجود ہر شئے کا باعث اور نہ ہونے کی وجہ موت ، حیات کا کھیل ہر جا عین ظہور والی رات اسکو جاننے کا اور کیا طریقہ ہوسکتا۔ صرف غور فکر و دھیان ہر واقعہ جو موجود ہے اور ہونے والا ہے اس پرنگاہ رکھی جائے اور سب کچھ کرنیوالے کی طرف دل، دماغ کی رسائی ہو پھر وہ ذات خود ہی بازو پکڑ کر پہچان کے راستے پر چلا دیتی ہے۔تا قیامت آنے والے انسان ایک دوسرے سے ملتے ہی نہیں چہرے کے نقوش ایک دوسرے سے الگ خالق کی صناعی کا شاہکار انسان جو فرعون نمرودشداد بھی بنا لیکن حق اور سچ کے سامنے بے بس نظر آیا مالک سب کچھ عطا کر کے امتحان لیتا ہے کہ دینے والے کے شکر گزار بھی ہوتے ہیںکہ نہیں۔ ابلیس نے کتنی عبادت کی لیکن حکم کی تعمیل سے انکار پر داندہ درگاہ ہو گیا انسان کا دشمن جو حقیقت سے دور رکھنے کے حربے استعمال کرتا رہتا ہے عارضی طور پر کامیاب ہے لیکن جب اندھیروں میں رہتے ہوئے روشنی مل جائے تو پھر منظر شفاف نظر آتا ہے ۔ جب خالق کا کرم ہو جائے تو گڈری میں چھپے لعل کے لشکارے مالک کے ہونے کی گواہی دیتے ہیں ۔ یہ زندگی اصل میں میدان خود پرستی ہے اسے ہم دولت شہرت کے حصول کی تمنا گاہ بھی کہ سکتے ہیں۔ زندگی کا سورج ڈوبنے سے پہلے یہی کہے گا مولا مجھے اپنے محبوب کا جلوہ دکھادے مجھے معاف فرمادے میری توبہ قبول فرما مجھے یقین ہے تو بہ کی توفیق اس کا نصیب ہوتا ہے جس پر تیری رحمت ہو ۔ اپنی رحمت کے سائے سے کبھی محروم نہ کرنا ۔ اپنے محبوب کی امت میں شامل کرکے تو نے احسان کیا تیری کرم نوازیاں ہمارے وجود میں آنے سے پہلے سے ہی جاری ہیں۔ہم نے تو اتنے بڑے احسان کا بھی شکر نہیں ادا کیا۔ میں جب اپنے وجود پر نظر دوڑاتا ہوں تو تیری صناعی محسوس بھی ہوتی ہے اور نظر بھی آتی ہے میں کیسے دیکھتا ہوں میں کیسے سنتا ہوں میں چلتا پھرتا ہوں ذہن سے سوچتا ہوں دل کی دھڑ کن تیرے ہونے کا ثبوت دیتی ہیں۔ تیرا کتنا کرم اور احسان ہے کہ تو نے ہمیں مسلمان والدین سے ہاں پیدا کیا پیدائشی مسلمان بنا کر بھیجا پھر میں کیوں مومن نہیں بنتا مجھے تیرا خوف بھی ہے لیکن میں دنیا کی رنگینیوں میں ڈوبا رہا ہوں اے اللہ تو مجھے اس لہو و لعب سے نجات عطا فرما میں تیرے در پر آ گیا ہوں مجھے اپنی رحمت شفقت کی چادر میں چھپالے میری بے چین روح کو قرار حاصل ہو جائے میری آخرت سنور جائے میری ہمیشہ رہنے والی زندگی کامیابی سے ہمکنار ہو جائے مجھے معلوم ہے ظلمات سے نور کا سفر تیری رحمت کے سہارے طے ہو سکتا ہے مجھے اس حقیقت پر فخر ہے کہ میں سرکار دو عالم کا امتی ہوں جو کائنات کے لیے رحمت ہیں ان پر درود و سلام ۔ رحمت انسان کو عام سے خاص اور خاص سے خاص الخاص بنا دیتی ہے۔ اقبال کو محرم راز بنانے والی شئے یہی رحمت ہی تو ہے ۔ رحمت کے شکر میںجھکا ہوا سر سرفراز کر دیا جاتا ہے ۔ ماضی حال کے بزرگوں کو یاد کریں تو یہ راز سمجھ میں آتا ہے کہ زمانوں کو رخ عطا کرنے والے لوگ رحمت سے نوازے ہوئے ہوتے ہیں۔ جنہیں فانی سے جاودانی بنا دیا جاتا ہے ۔ رحمت دو اصل حی و قیوم کی صفت سے حضورپر نور کو متصف کیا گیا جب صفت نہیں مر سکتی تو موصوف نعوذ یا اللہ کیسے فانی ہو سکتے ہیں۔ جنکی صفات لافانی ہوں وہ ذات خود کیسے فانی ہو سکتی ہے وہ پاک ذات ہماری زندگیوں میں ہے دل میں ہے ایمان میں ہے جن پر اللہ اور اسکے فرشتے اور تمام کائنات درود بھیج رہی ہو وہ ہستی موجود ہے ہماری نگاہ اس قابل نہیں کہ ہم اللہ اور اسکے محبوب کا دیدار کر سکیں جن سے سرکار کی ملاقات ہوتی ہے وہ بھی پاک روحیں ہوتی ہیں۔ پاک نے پاک مقام پر ہی اپنے نور کی روشنی عطا کرنا ہوتی ہے۔ آنسوئوں کے قریب رہنے والے رحمت حق کے قریب ہوتے ہیں۔ حضور کی رحمت سے طلب گاروں کو درود، سلام بھیجتے رہنا چاہیے یہ بھی حیات ہے۔
