کالم

سوچ کی لہریں

اس سے پہلے بھی مہنگائی کے بارے میں تحریر کیا کیونکہ یہ مسئلہ ہر فرد کو اپنے دام میں پھنسائے ہوئے ہےلوگ کہہ رہے ہیں کیا کھانا پینا اور گھریلو اشیا کا استعمال بند کر دیا جائے اور حالات سے مجبور لوگوں کو قبرستان بھیجنا شروع کر دیں اس وقت ہر شخص کی آمدنی محدود ہے اور اخراجات اختیار سے بالکل باہر ہو چکے ہیں بجلی گیس کی قیمتوں میں اس قدر اضافہ ہو چکا ہے کہ خدا کی پناہ۔ سولر پینل لگوانے کےلئے بھی اچھی خاصی رقم چاہیے وہ کہاں سے ارینج کی جائے گھر کے اخراجات بچوں کے سکول اور کالج یونیورسٹیز کی فیس ادویات علاج معالجہ ٹرانسپورٹ سبزی دال گوشت حتی کہ مرغی کا گوشت بھی قوت خریدمیں نہیں آرہا مہنگائی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ عزت سے دو وقت کا کھانا بھی نصیب سے غائب ہوتا نظر آرہا ہے آئی ایم ایف سے قرض لیے بغیر چارہ نہیں یہ ادارہ جب قرض فراہم کرتا ہے تو طرح طرح کے یٹیکسزمیں اضافے کی شرائظ منواتا ہے انہو ں نے اپنی طرف سے فراہم کی گئی رقم کی واپسی کا تحفظ بھی کرنا ہوتا ہے انکی بلا سے عوام کو تکلیف ہوتی ہے یا نہیں ان کا اس بات سےکوئی تعلق نہیں ۔ جو بھی حکومت برسر اقتدار ہوتی ہے وہ ملکی اخراجات کےلئے اور مالی ضروریات کو پورا کرنے کےلئے عوام کے گلے میں پھندہ ڈالتی ہے اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی متبادل راستہ نہیں ہوتا۔ بدقسمتی سے حکومتیں تھنک ٹینک بھی نہیں بناتی جو تحقیق پر مبنی رپورٹ تیار کریں اور حکومت ان رپورٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسی پالیسیاں مرتب کرے جو عوام کو سہولتیں مستقل طور پر فراہم کر سکیں اورملک کی خوشحالی اور عام آدمی کے مسائل حل کرنے میں معاون ثابت ہوں ہر سیاسی جماعت عوام کو سبز باغ دکھانے میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کرتی ہے رہنما لمبی لمبی تقریریں کرتے ہیں وقتی طور پر جلسے میں زندہ باد کے نعرگ لگ جاتے ہیں اللہ اللہ خیر سلا رات گئی بات گئی رات کی بات کا ذکر ہی کیا جزباتی تقاریر جزباتی نعرے اس کے علاوہ نتیجہ صفر افسوس اس بات پر بھی ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے اپنے منشور میں معاشی حالات کا ذکر کرتی ہیں اور برسر اقتدار آ کر اپنے وعدے جو عوام سے کیے ہوتے ہیں پورے نہیں کرتے الیکشن پر جو اخراجات انہوں نے کیے ہوتے ہیں اسکی کئی گنا اضافے کے ساتھ وصولی مطمع نظر ہوتی ہے عوام کی خدمت تو بھاڑ میں جاتی ہے لیڈر کی انتخابات پر خرچ کثیر رقم مع منافع واپس ہونا ضروری ہے عوام کو اس قدر نچوڑا جا رہا ہے جس طرح دھوبی کپڑے دھو کر نچوڑتا ہے غربت کی شرح میں آئے دن اضافہ ہو رہا ہے ایک حاکم طبقہ امیر سے امیر تر ہوتا جا رہا ہے اور دوسرا محکوم طبقہ دو وقت کی روٹی کی فکر میں سوکھتا جا رہا ہے حکمرانوں میں بے حسی کی کیفیت ہے مہنگائی سے عوام کا جینا محال ہو چکا ہے ان حالات پر قابو پانے کی اچھی خبریں دور دور تک سنائی نہیں دیتی دکانداروں نے اشیائے فروخت پر اپنی مرضی کی قیمتیں بنا رکھی ہیں ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں اخباری خبروں کے مطابق مہنگائی کی شرح تقریبا 31 فیصد تھی۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے اب رمضان شریف کی آمد ہے دکاندار اشیا پر مزید اضافہ کریں گے وہ اپنی من مانی کرتے ہیں انہیں عوام کی مالی پریشانیوں میں اضافہ کرنے سے کوئی نہیں روکتا اس مبارک مہینے میں وہ دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹتے ہیں تنخواہ دار طبقے کو اب کوئی ادھار بھی نہیں دیتا کہ انہیںرقم واپس ہونے کی امید نہیں ہوتی وہ جانتے ہیں کہ ماہانہ تنخواہ میں نہ اضافہ ہوتا ہے اور نہ ہی کم ہوتی ہے ایک مخصوص رقم ہر ماہ ملتی ہے اسی میں زندہ رہنے اور ضروریات زندگی پورا کرنے ہوتے ہیں جب قرض لینے والے کی گزر اوقات اس قلیل رقم میں نہیں ہو رہی تو ادھار کی رقم کس طرح واپس ہو سکتی ہے لہذا ایک انکار اور سو سکھ وقت کے ساتھ بیروزگاری میں بھی اضافہ ہوا ہے مارکیٹوں میں ایسے لوگ مل رہے ہیں جو مانگنے پر مجبور ہو چکے ہیں ایک چائے کا کپ پلوانے کی گزارش کرتے ہیں فیملی کے لیے ایک وقت کا کھانا دلوانے کا سوال کرتے ہیں ان کے چہرے عام بھکاریوں جیسے نہیں ہوتے یوں تو ہم بحثیت قوم بھکاری بن چکے ہیں کیونکہ ہر حکومت قرض لیے بغیر چل نہیں سکتی اس لیے حکومتی نمائندے سوٹ ٹائی لگا کر انگریزی زبان کے سہارے امداد فراہم کرنے والے اداروں اور مہربان ممالک کو اپنی درد بھری کہانی سناتے ہیں اور وہ مالی امداد کر ہی دیتے ہیں اللہ ان کا بھلا کرے دوستی کا حق ادا کرتے ہیں ملک اس قدر قرض میں ڈوبا ہوا ہے کہ اب حالات حکومت کو یہ کہنے پر مجبور کر سکتے ہیں کہ دوستو اللہ آپکی کمائیوں میں مزید اضافہ کرے ہمیں قرض واپس کرنے سے معاف فرمائیں ہماری نسلیں بھی آپ کو اس مہربانی کو کبھی نہیں بھلائیں گی اس طرح ہم اپنے پاوں پر کھڑے ہو سکتے ہیں ورنہ گرتے پڑتے واکر کے ساتھ چلتے رہیں گے حیران کن مناظر بھی دیکھنے کو ملتے ہیں اگر آپ کا گزر شاہرائے دستور سے ہو تو آپ دیکھیں گے کہ ہمارے نمائندے کتنی بڑی بڑی گاڑیوں میں پارلیمنٹ آتے ہیں عوام کی حالت زار کے غم میں ان کے چہرے پر لالیاں ہوتی ہیں اور بھی کام ہیں زمانے میں عوام کی خدمت کے سوا ان کے رہنے سہنے کے انداز ٹھاٹھ دار نصیب دشمناں بیمار ہو جائیں تو ملک سے باہر علاج معالجہ ضرور ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ صحت مند ہون گے تو عوام کے بارے میں سوچیں گے اس کے علاوہ انکی اولادیں ترقی یافتہ ممالک کی مشہور یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کرتی ہیں کیونکہ پاکستان آہستہ آہستہ موروثی سلطنت بنتا جا رہا ہے اس لیے موروثی سلطنت کی باگ دوڑ سنبھالنے کےلئے نئی نسل کو بین الاقوامی سیاست و معیشت کے اصولوں کا سیکھنا ضروری ہے اس طرح حکمرانی آسان ہوگی عوام ریوڑ ہیں ایک للکار پر اکٹھے ہو جاتے ہیں ملک کی معاشی حالت تو دلدل میں پھنسی گاڑی کی طرح ہے جسے غیر ملکی امداد کے رسے باندھ کر نکالنا پڑتا ہے وہ وقت دور نہیں جب مہنگائی کی وجہ سے بچے تعلیم ادھوری چھوڑیں گے اور عوام ننگے پاوں اور تار تار لباس میں ملبوس ہوں گے نو منتخب حکومت سے کچھ بھی مخفی نہیں انہیں اپنی تمام تر صلاحیتیں اور توانائیاں نہ صرف سیاسی بلکہ معاشی استحکام کے لیے صرف کرنا پڑیں گی تاکہ عوام کے لیے زندگی آسان ہو اور وہ مزید مشکلات کے بھنور میں نہ پھنس جائیں حکومت کو مہنگائی پر کنڑول کرنا پڑیگا ورنہ تخت سے دھڑن تختہ ہونے میں دیر نہیں لگتی عوام کے معاشی حالات بہتر بنانے کےلئے مثبت پالیسوں کی ضرورت ہوگی حکومتی اخراجات کو بے انتہا کنڑول کرنا بھی ضروری ہے تاکہ عوامی قرضہ جات میں اضافی نہ ہو اور ضروریات زندگی سستے داموں پوری ہو سکیں اسوقت مایوسی کا دور دورہ ہے اس لیے امید کی کرنوں کو عام کرنا ہوگا اچھی منصوبہ بندی حالات بہتر کرنے میں مددگار ہوگی۔ورنہ عوام کی قسمت میں رونا تو حالات نے لکھ ہی دیا ہے۔ اللہ رحم فرمائے ملک کے حالات سہی سمت رخ اختیار کرلیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے