کالم

سوچ کے رنگ

taiwar hussain

ایک جلیل القدر پیغمبر نے خواب میں اپنے بیٹے کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرتے دیکھا ، آپ نے خواب فرزند کو بیان کیا آداب فرزندیسے آشنا بیٹا بولا آپ وہ کریں جو آپ کو حکم ہوا ۔ بیٹے کو لٹایا گیا چھری چلائی گئی لیکن اللہ کے حکم سے وہاں ایک دنبہ پایا گیا ، اسی یاد میں رہتی دنیا تک قربانی کا عظیم تہوار چلا آرہا ہے ۔ کیا آپ اس کو ماضی کا واقعہ کہیں گے اگر ماضی کا تھا تو حال اور مستقبل میں کیسے جاری ہے اور رہے گا۔ گزرے ہوئے زمانے گزرے ہوئے نہیں ، کربلا کا واقعہ بھی بہت پرانا ہے ، رلانے والے واقعات آج بھی رلا رہے ہیں ، کربلا ہر دم تازہ ہے ۔ ماضی حال بن جاتا ہے سب کچھ نسل درنسل منتقل ہورہا ہے ، کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ یہ سب کچھ کیسے ہورہا ہے ۔ یہ کیا کرشمہ ہے کہ ایک لقمے سے خون بھی بن جاتا ہے ، ہڈیاں بھی بینائی میں رعنائی خیال بھی حسن و جمال بھی ایک قلمے سے کیسے کیسے کرشمے پیدا ہوتے ہیں ۔ بے رنگ زمین میں بے رنگ بیج بے رنگ پانی اور پھر رنگ دار پھول وہی پانی پتوں میں سبز ہوتا ہے اور پھولوں میں رنگ ہی حسین رنگوں کا امتزاج بھی ۔ زمین میں اگر مردہ امانت کے طور پر دفن کردیا جائے تو میت محفوظ رہتی ہے مکڑی مٹی نگلتی ہے مٹی اگلتی ہے لیکن اگلتے وقت ریشم کی ایک تار کا نکلنا اور پھر خوبصورت جالا بننا جو کہ جیومیٹری کے اصولوں کے مطابق ہوتا ہے ، ایک عظیم واقعہ بھی اسی مکڑی کے جالے سے جڑا ہے ، ایک مکھی پھولوں سے رس اکھٹا کرتی ہے اور پھر ایک نامعلوم عمل سے زہد بنادیتی ہے جس میں شفا ہے ۔ ایک پانی کا قطرہ سیپ کے اندر موتی بن جاتا ہے انوکھے عمل شعور سمجھنے سے قاصر عقل دلائل کے ذریعے سمجھنے سے قاصر ۔ امیر محنت کرنا ہے اور غریب بھی شایدامیر سے زیادہ محنت ، مشقت کرتا ہے لیکن پھر بھی غریب کے حالات نہیں بدلتے ۔ بے نام سے پہاڑ پتھروں کا ڈھیر اپنے اندر بے شمار خزانے سمیٹے ہوئے سرخ رنگ کے پتھر سیاہ رنگ کے بھی سنگ مرمر کہیں نمک کی کانیں اور کہیں کوئلے کے ذخیرے کہیں ہیرے سمندر ،سورج روشنی کا منع چاند ہلکی روشنی کا منظر خزاں پت جڑھ ہوجاتی ہے اور بہار کا موسم ہر طرف رنگ بکھیرتا ہے ۔ ہر لمحہ بہت کچھ ہورہا ہے کچھ مناظر آنکھ دیکھتی ہے اور کئی ایسے مناظر ہیں جو دل کی آنکھ رکھنے والے ہی دیکھتے ہیں وہ آنے والے زمانوں کے واقعات کو پہلے ہی بیان کردیتے ہیں نہ جانے یہ سب کچھ کیسے ہورہا ہے ۔ عقل دنگ ہے محوتماشہ ہے ۔ ہمارے پاس اس کائنات کو بھرپور انداز سے دیکھنے اور سوچنے کا وقت ہی نہیں ، سب کچھ خود بخود ہورہا ہے ، ہم غور نہیںکرتے ، اللہ سے اور اس کی بنائی کائنات سے ہمارا تعلق نہیں واجبی سا ہے ۔ شاید اسی لئے زندگی سے سکون چھین گیا ، مادیت پرستی نے ہمیں اپنی گرفت میں لے رکھا ہے ۔ ہم خود بھی تو خود سے آشنا نہیں ۔ اللہ سے آشنا کیسے ہونگے جس سے آشنائی آسان تو نہیں جب تک کوئی اللہ کے قربت اور آشنائی والی ہستی سے تعلق نہ بنے لیکن ہم تکبر کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ انسان کی پیدائش سے پہلے ابلیس نے اپنے تکبر کی وجہ سے اپنی صدیوں کی محنت کو رائیگاں درگاہ ہوگیا ۔ انسان نے اللہ سے معافی کا راستہ اپنایا انسان اگر اپنی رائیگاں ہونے والے محنتوں پر افسوس کرتے تو اس کو محنت کیلئے نئے راستوں سے تعارف ہوجاتا ہے ۔ اللہ کی طرف جانے کی محنت انسان پر فرض ہے اور یہ محنت سرکار دوعالم کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا ہی اللہ کی طرف جانے کی محنت ہے ۔ یہی انسان پھر چھپے ہوئے راز دریافت کرتا ہے ۔ مخلوق میں اشرف حیثیت کا مالک بن جاتا ہے ۔ رابطہ قائم رہنا ضروری ہے ۔ بندے کا اللہ سے رابطبہ وہ مالک زندگی دے تو رابطہ قائم زندگی واپس لے تو بھی رابطہ قائم رہتا ہے ۔ وہ جو شہہ رگ کے قریب ہے اس مالک سے رابطے اس کی ذات کی طرح پر اسرار اور پرتاثیر ہوتے ہیں ۔ رابطوں کی عجیب کہانی ہے ، ماضی حال اور مستقبل سب زمانوں میں رابطے رہتے ہیں ۔ ایک کتاب تحریر کرنے والا جب اس فانی دنیا میں نہ رہے تو اس کی تخلیق کتاب اس سے رابطے کا ذریعہ ہے ، کتاب مصنف کی یاد دلاتی ہے ، رابطے دلوں میں پلتے ہیں ، محبت رابطے ہی نام ہے ، تاریخ ماضی سے رابطے کا نام ہے ، مہذب تو رابطے ہی نام ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے