پی ٹی آئی نے بلے کے نشان کے حصول کےلئے کی عدالتوں میں چکر لگانے کے بعد آخر کار ریلیف کے لے سپریم کورٹ پہنچی۔ دونوں طرف کے وکلا کے طویل بحٹ مباحثے کے بعد عدالت عظمی نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوے پشاور ہای کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر پی ٹی آی سے بلے کا نشان واپس لے لیا۔ اس طرح اب پاکستان تحریک انصاف بلے کے نشان کے بغیر انتخابات میں حصہ لے گی۔ پی ٹی آی کے حمایت یافتہ امیدوار اب آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑیں گے۔ قومی اور صوبای اسمبلی کے پی ٹی آی کے ہر امیدوار کا شناختی نشان الگ ہو گا۔ پاکستان کی گزشتہ 75سالہ تاریخ گواہ ہے کہ آذاد حیثیت سے انتخاب جیتنے والے امیدوار بکاو مال ہوتے ہیں جو سیاسی جماعت ان کی زیادہ قیمت لگاتی ہے وہ اسی پارٹی میں شامل ہو جاتے ہیں اس طرح عمران خان کے نام پر ووٹ لے کر کامیابی حاصل کریں گے لیکن وہ کسی بھی پارٹی میں شامل ہو سکتے ہیں اور انہیں پی ٹی آی کی اعلی قیادت روک نہیں سکے گی۔ اس فیصلے پر پی ٹی آی کے چیرمین بیرسٹر گوہر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے مایوسی ہوی۔ پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا اب پی ٹی آی کے تمام امیدوار آزاد حیثیت سے الیکشن لڑیں گے ۔ عدالت نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دے دیا بابر ایس اکبر نے انٹرا پارٹی الیکشن کو چیلنج کیا تھا انہوں نے اس فیصلے پر کہا کہ حق اور سچ کی فتح ہوی ہیے۔ اس وقت پی پی پی اور دیگر جماعتوں کی نظریں مسلم لیگ ن کے گڑھ پنجاب پر لگی ہوی ہیں پیپلز پارٹی کی اعلی قیادت بھی لاہور میں ڈیرے ڈال کر بیٹھی ہوی ہے ۔ جنوبی پنجاب تو پہلے ہی پی پی پی کے زیر اثر ہے۔ اور مخدوم فیملی کے اثرو رسوخ کی وجہ سے وہ وہاں سے اچھی خاصی سیٹیں حاصل کر لے گی لیکن آصف زرداری کی نظریں سینٹرل پنجاب اور خاص طور پر لاہور کی سیٹوں پر لگی ہوی ہیں اسی لیے وہ بار بار کہ رہے ہیں کہ اگلی حکومت پی پی پی کی ہوگی ۔ آصف زرداری سیاست کے نشیب و فراز خوب جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ سیاست کی شطرنج پر کون سی چال کب چلنی ہے اسی لے تو کہا جاتا ہیے کہ ایک زرداری سب پے بھاری۔ بلاول بھٹو زیادہ سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے کےلئے بہت زیادہ سرگرم اور متحرک ہیں۔ وہ اس پر دن رات کام کر رہے ہیں کسی زمانے میں پنجاب پی پی پی کا گڑھ ہوتا تھا 1986 میں جتنا بڑا تاریخی استقبال لاہور میں بینظیر بھٹو کا ہوا کسی لیڈر نے اس کا ریکارڈ نہیں توڑا ۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا ریفرنس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اگر فیصلہ پی پی کے حق میں آتا ہے تو اس کی مقبولیت اور بڑھ جاے گی ویسے تو پی پی پی کسی زمانے میں پورے ملک میں بہت زیادہ مقبول تھی۔ لیکن اب تو وہ سندھ تک سکڑ کر رہ گی ہے بلاول بھٹو انتخابی مہم بڑے زور شور سے چلا رہے ہیں اور اب تو ہر جلسے میں ان کی بہن آصفہ بھٹو زرداری بھی تقریریں کرتی نظر آ رہی ہیں اور وہ اپنی تقریروں میں وزیراعظم بلاول بھٹو کے نعرے لگوا رہی تھیں۔ آصفہ بھٹو زرداری تو بینظیر بھٹو کی ہو بہو تصویر لگتی ہیں وہی انداز اور لب و لہجہ۔ ادھر مسلم لیگ ن نے بھی اپنی الیکشن مہم کا آغاز کر دیاہے اور مریم نواز ایکشن مہم بھرپور طریقے سے چلا رہی ہیں۔ وہ اپنی تقریروں میں تمام سیاسی حریفوں کو للکار رہی ہیں اور کہتی ہیں کہ اب گلی گلی میں شیر دھاڑے گا۔ مسلم لیگ ن کا اگر ٹریک ریکارڈ دیکھا جائے تو بطور وزیراعظم شہباز شریف کا دور اچھا نہیں رہا انہیں کے دور میں مہنگائی نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیا چینی اور ڈالر مافیاز نے دل کھول کر عوام کو لوٹا۔ وہ تو بھلا ہو نگران حکومت کا جس نے سمگلروں کو نکیل ڈالی اور ڈالر کی افغانستان کی جانب سمگلنگ روکی۔ شہباز اتحادی حکومت میں کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں تھا چونکہ تیرہ اتحادیوں کی حکومت تھی اس لے سخت فیصلے کرنے میں مشکل پیش آتی تھی۔ اب مسلم لیگ کا بیانیہ 2017 میں نواز حکومت کا ایک سازش کے تحت خاتمہ اور ان کرداروں کو بے نقاب کرنا شامل ہے جنہوں نے نواز حکومت کے خاتمے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں پی ٹی آئی کے امیدوار آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیں گے ۔ پنجاب میں اصل مقابلہ مسلم لیگ ن مسلم لیگ ق پی پی پی تحریک لبیک اور استحکام پاکستان پارٹی کے درمیان ہو گا ہر جماعت کو شش کرے گی کہ وہ پنجاب سے زیادہ سے زیادہ سیٹیں حاصل کرے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی اپنی کھوئی ہوئی سیٹیں واپس لینا چاہیے گی ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلم لیگ کے جلسوں میں نواز شریف کی انٹری سے ان کے ووٹروں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ پنجاب اور دیگر صوبوں میں پی ٹی آئی کے بلے کی عدم موجودگی میں پی ٹی آی کے حمایت یافتہ امید وار کیا کارکردگی دکھاتے ہیں۔ سندھ تو پی پی کا گڑھ ہے گلگت بلتستان اور کے پی کے میں بھی اسے کافی عوامی حمایت حاصل ہے پنجاب میں اچھی کاکردگی دکھاتی ہے تو مرکز میں اس کی پوزیش بہتر ہو جائے گی۔ سندھ میں مسلم لیگ ن نے ایم کیو ایم سے اتحاد کر لیاہے اور وہ مسلم فنکشنل سے بھی رابطے میں ہے ان کی مسلم لیگ ق کی قیادت سے بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر بات چل رہی ہے۔ آصف زرداری اپنی زندگی میں بلاول بھٹو کو وزیر اعظم بنوانا چاہتے ہیں جبکہ مسلم لیگ ن نواز شریف کو چوتھی بار وزیراعظم کی کرسی پر دیکھنا چاہتے ہیں اس رسہ کشی میں کون کامیاب ہوتاہے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔