اداریہ کالم

سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ،مزید ٹال مٹول سے گریز کیا جائے

idaria

الیکشن کی تاریخ کا اعلان کون کرے گا ،اس ضمن میں جاری سیاسی رسہ کسی اور بلیم گیم کے خاتمے کےلئے زیر سماعت کیس کا سپریم کورٹ نے فیصلہ سناکر کردیا ہے۔ پنجاب، خیبرپختونخوا الیکشن ازخود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ نے دونوں صوبوں میں انتخابات 90 دنوں میں کرانے کا حکم دے دیا ہے۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں پنجاب اور کے پی میں انتخابات 90 دنوں میں کرانےکا حکم دیا ہے، سپریم کورٹ نے فیصلہ دو کے مقابلے میں تین کی اکثریت سے دیا ہے ۔اس فیصلے کے سیاسی جماعتیں خصوصاً حکومتی بجائے اسکے کہ مزید وقت ضائع کرنے کے الیکشن کی تیاری کرے اورسیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرے ،فیصلے کے بعد جس طرح ایک بار پھر ہاہاکار شروع کر دی گئی ہے اس میں سراسر نقصان حکومت کا ہی ہو گا،جس کے بارے میں عوامی تاثر پختہ ہوچکا ہے کہ وہ الیکشن سے بھاگ رہی ہے۔اگرچہ حکومت اس بات کو ماننے سے مسلسل انکاری ہے کہ وہ الیکشن سے بھاگ نہیں رہی مگر عملاً جس طرح کی کوششیں شروع کر رکھی ہیں وہ عوامی تاثر کو زائل کرنے کی بجائے مزید گہرا کر رہی ہیں۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے تمام نکات واضح کر دیئے ہیں کہ ایسی صورت میں کون الیکشن کی تاریخ دینے کا پابند ہو گا۔ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ جنرل انتخابات کا طریقہ کار مختلف ہوتا ہے، آئین میں انتخابات کےلئے 60 اور 90دن کا وقت دیا گیا ہے، اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90روز میں انتخابات ہونا لازم ہیں، پنجاب اسمبلی گورنرکے دستخط نہ ہونے پر 48 گھنٹے میں خود تحلیل ہوئی جبکہ کے پی اسمبلی گورنر کی منظوری پر تحلیل ہوئی۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ گورنرکو آئین کے تحت تین صورتوں میں اختیارات دیے گئے، گورنر آرٹیکل 112 کے تحت، دوسرا وزیراعلی کی ایڈوائس پر اسمبلی تحلیل کرتے ہیں، آئین کا آرٹیکل 222 کہتا ہے کہ انتخابات وفاق کا سبجیکٹ ہے، الیکشن ایکٹ گورنر اور صدر کو انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا اختیار دیتا ہے، اگر اسمبلی گورنر نے تحلیل کی تو تاریخ کا اعلان بھی گورنرکرےگا، اگر گورنر اسمبلی تحلیل نہیں کرتا تو صدر مملکت سیکشن 57 کے تحت اسمبلی تحلیل کریں گے۔سپریم کورٹ نے لکھاہے کہ صدر مملکت کو انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا اختیار حاصل ہے،دوسری طرف کے پی کے حوالے بھی وضاحت کی گئی ہے کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کی آئینی ذمہ داری گورنر کی ہے،گورنر کے پی نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کرکے آئینی ذمہ داری سے انحراف کیا ہے۔فیصلہ میں حکم دیا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن فوری طور پر صدر مملکت کو انتخابات کی تاریخ تجویز کرے، الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد صدر پنجاب میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں ۔ اسی طرح گورنر کے پی کو بھی حکم دیا گیا ہے کہ صوبائی اسمبلی میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں، ہر صوبے میں انتخابات آئینی مدت کے اندر ہونے چاہئیں۔عدالت عظمی کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن صدر اورگورنر سے مشاورت کا پابند ہے، 9 اپریل کو انتخابات ممکن نہیں تو مشاورت کے بعد پنجاب میں تاریخ بدلی جاسکتی ہے۔سپریم کورٹ نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ تمام وفاقی اور صوبائی ادارے انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کریں، وفاق الیکشن کمیشن کو انتخابات کے لیے تمام سہولیات فراہم کرے۔اس حکم کی ضرورت بھی اس لئے تھی کہ میڈیا کے ذریعے ماحول بنایا جا رہا تھا کہ ادارے الیکشن کےلئے تیار نہیں ہیں۔چیف جسٹس نے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کے اختلافی نوٹ بھی پڑھ کر سنائے۔ دوطویل بحثوں کے بعد منگل کے روز دلائل مکمل ہوئے،۔بینچ میں شامل سپریم کورٹ کے تمام ججز نے گزشتہ روز ریمارکس میں کہا کہ آئینی طورپر انتخابات 90 دن میں ہوں گے،کوئی آئینی ادارہ انتخابات کی مدت نہیں بڑھا سکتا، انتخابات بروقت نہیں ہوئے تو ملک میں استحکام نہیں آئےگا، عدالت کے سوا کسی آئینی ادارے کو انتخابات کی مدت بڑھانے کا اختیار نہیں۔سپریم کورٹ نے آئین کے تحفظ کی اپنی آئینی ذمہ دار نبھا دی ہے اب ،سیاسی جماعتوں کا امتحان ہے کہ وہ آئین کی پاسداری کہاں تک اپنا مثبت کردار ادا کرتی ہیں۔
رمضان پیکج کے تحت سبسڈی کافیصلہ
وفاقی حکومت نے ماہ رمضان کےلئے 5ارب روپے کی سبسڈی پر مشتمل ریلیف پیکج تیار کر لیا ، ذرائع وزارت صنعت وپیداوار کے مطابق رمضان کے لیے 19اشیائے ضروریہ پر حکومت کی جانب سے سبسڈی فراہم کی جائے گی جبکہ رمضان پیکج کے تحت سبسڈی بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹرڈ افراد کے لیے ہوگی،رمضان کے لیے اشیائے ضروریہ پر سبسڈی یوٹیلٹی اسٹورز پر فراہم کی جائے گی، پیکج کے تحت آٹا، گھی، دالوں، چینی اور دیگر اشیائے ضروریہ پر رمضان پیکج کے تحت سبسڈی دی جائے گی،واضح رہے کہ مہنگائی کے باعث عوام بالخصوص نچلے طبقے کو ریلیف فراہم کرنے کےلئے حکومت نے سبسڈی کا فیصلہ کیا ہے۔دنیا کے مہذب ممالک کی حکومتیں بھی رمضان کے دوران مسلمانوں کیلئے رعایتی نرخوں پر کھانے پینے کی اشیا کی فراہمی کا بندوبست کرتی ہیں ،بد قسمتی سے ہمارے ہاں رمضان کے مقدس مہینے کو ناجائز منافع اور ذخیرہ اندوزی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، ہر شے کی قیمت میں ہوشربا اضافہ ہوجاتا ہے۔ہونا تو یہ چاہیے کہ اس ماہ مقدس کے احترام میںقیمتیں کم نہ سہی مناسب ہی رکھی جائیں تاکہ عوام سکون کے ساتھ اپنی ضرورت کے مطابق خریداری کر سکیں۔موجودہ حکومت رمضان المبارک میں عوام کو ریلیف دینے کے اقدامات کیلئے نیک نیتی اور جذبے کے ساتھ کام کررہی ہے،اب انتظامی افسروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے فرائض میں غفلت نہ کریں ۔ اشیائے خور و نوش سے وابستہ ہر صنعت کی قیادت پر یہ مذہبی اور اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے اس مقدس مہینے میں عوام کو سستے داموں اشیا کی فروخت کو یقینی بنانے میں حکومت کا بھرپور ساتھ دیں۔ ناقابل فہم ہے کہ قیمتوں پر کنٹرول کرنے والے ادارے کہاں غائب ہو جاتے ہیںاورعوام کی جیبیں صاف کرنے کا دھندا جاری رہتا ہے۔اگر حکومت رمضان بازاروں میں غیر معیاری اشیا فروخت کرنے کی بجائے اپنی توانائی عام مارکیٹ میںقیمتوں کو قابو رکھنے کےلئے صرف کرے توعوام پر بڑا احسان ہوگا اور یہ حقیقی ریلیف ہے ۔ پورے سال کی کمائی اس ایک ماہ میں کرنے کی سوچ بڑی غلیظ اور گھٹیا ہے اس کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔
بھارتی عدالتوں کے متعصبانہ فیصلے
بھارتی ریاست اتر پردیش میں بدنام زمانہ بھارتی تحقیقاتی ادارے این آئی اے کی ایک عدالت نے سات مسلمانوں کو مودی حکومت کی طرف سے قائم کئے گئے ایک جھوٹے مقدمے میں سزائے موت سنائی ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق سزائے موت پانے والوں میں محمد فیصل، غوث محمد خان، محمد اظہر، عتیق مظفر، محمد دانش، محمد سید میر حسین اور آصف اقبال عرف راکی شامل ہیں ۔ ایک اورمسلمان شخص محمد عاطف عرف آصف ایرانی کو این آئی اے کی خصوصی عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی ہے۔بھارتی ایجنسی نے ان پر مسلح گروپ آئی ایس آئی ایس کے کارندے ہونے کا الزام لگاتے ہوئے انہیں بھوپال-اجین مسافر ٹرین دھماکے میں ملوث قراردیاتھا۔ دھماکے میں نو افراد شدید زخمی ہو گئے تھے۔جج وی ایس ترپاٹھی نے سزا سناتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ کیس نایاب ترین کیسوں میں سے ایک ہے اس لیے مجرم سخت ترین سزا کے مستحق ہیں۔عدالت نے گرفتار مسلمانوں کو24فروری کومجرم قرار دیا تھا۔ عدالت نے ملزمان کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ مجرموں نے ملک کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے اس لیے وہ کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ جب سے مودی سرکار آئی ہے۔ مسلمانوں کیخلاف کارروائی کرنیوالے کسی دہشتگرد کو سزا نہیں دی گئی ۔ مسلمانوں اورپاکستان کے خلاف بھارتی عدالتوں کے متعصبانہ فیصلوں سے تاریخی بھری پڑی ہے۔ بھارتی حکومت اوراس کی عدلیہ کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔بھارتی سپریم کورٹ کے متعصبانہ اور جانبدارانہ فیصلے کے بعد آنے والے وقت میں ہندو انتہا پسند بھارت میں کسی بھی مسجد، گرجا گھر یا گوردوارے کو متنازع بناکر اس پر قابض ہوسکتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے