دس گیارہ ماہ سے لکھنے لکھانے کے معاملے پر بہت احتیاط سے کام لے رہا تھا۔ گذشتہ سال تقریبا انہی دنوں ایک کالم جھاڑو پھرنے والا ہے رقم کیا تھاجس میں آنے والے حالات کی منظر کشی کی۔ میرے بابوں، فقیروں اور درویشوں سے کافی تعلقات ہیں یہ الفاظ بھی ایک بابا جی کے تھے، درمیان میں دو تین غیر سیاسی کالم لکھے گئے۔ بابا جی سے ملاقاتیں اور ٹیلی فون پر گپ شپ کا سلسلہ تو جاری رہا مگر کوڈ ورڈز میں۔ سالِ نو کے آغاز میں ایک اور کالم ”جھاڑو تو ضرور پھرے گا” لکھا گیا۔ اس کا ردِعمل بھی کمال کا تھا مگر سبق یہ ملا کہ احتیاط کا دامن نہ چھوڑا جائے۔ ادھر بابا جی بھی کچھ مشکلات میں پڑھنے لگے۔ چنانچہ ہاں ہوں میں بات ہوتی رہی۔اسی دوران 9 مئی کا واقعہ ہوا اور پھر جو کچھ ہوا وہ آپ سب کے سامنے ہے۔ اس موضوع پر بھی بابا جی سے بات ہوئی تو انہوں نے پس منظر سمجھانے کی خاطر کہا کہ یہ ساری تفصیل جاننے اور سمجھنے کے لیے ہمیں تقریبا 30 سال پہلے جانا ہو گا۔ بلکہ اس سے بھی قبل پاکستان بننے کے فورا بعد ہمارے کیا کیا مسائل تھے۔ ہم کن مشکلات سے دوچار رہے۔ یہ سب جاننا اور سمجھنا بے حد ضروری ہے۔ فرمانے لگے کہ قیام پاکستان کے بعد قائداعظم محمد علی جناح کے زمانے سے ہی ہمیں قرض لینا پڑگئے۔ ہمارے دشمن چاروں طرف پھیلے ہوئے تھے چنانچہ ہماری سب سے پہلی اور بڑی ترجیح نیشنل سیکیورٹی تھی۔ ہمیں ایک مضبوط فوج چاہئیے تھی۔ چنانچہ روزِ اول سے سلامتی کے مسائل کی وجہ سے ہم معیشت کی طرف توجہ نہ دے سکے۔ چنانچہ وقت کے ساتھ ساتھ ہم قرضوں کی دلدل میں پھنسنا شروع ہو گئے۔ اپنی مجبوریوں کی وجہ سے ہمارا رجحان برطانیہ، امریکہ اور یورپ کی طرف ہوتا چلا گیا۔ درمیان میں سانحہ مشرقی پاکستان بھی ہوا جس کی بنیاد پر ہم دو لخت ہو گئے۔ باقی ماندہ پاکستان میں جو نئی سیاسی حکومت آئی اس کو کریڈٹ یہ جاتا ہے کہ انہوں نے ملک کو ایٹمی قوت بنانے کا فیصلہ کرتے ہوئے اس پر کام شروع کر دیا۔ اور الحمدللہ ایک دن ہم ایٹمی قوت بن گئے۔ ہمارے دشمنوں کو یہ بات قطعا ہضم نہیں ہو رہی تھی اور وہ مختلف طریقوں سے ہمیں کمزور کرنے کی کوششوں میں مصروف رہے اور ہیں ۔ اب میں وہاں پر آتا ہوں جہاں میں نے کہا تھا کہ بات سمجھنے کے لیے ہمیں 30 سال پہلے جانا ہو گا۔ حکیم محمد سعید ایک بہت ہی عمدہ، نفیس اور محب وطن شخصیت تھے۔ انہوں نے 1996 میں ایک کتاب لکھی۔ اس کتاب کے صفحہ نمبر 13,14 پر بڑی اہم بات تحریر کی۔ امریکہ اور یہودی لابی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ پاکستان میں ایک کرکٹر کا انتخاب ہوا ہے (آئندہ گفتگو میں ہم اس کو موصوف لکھیں گے)جس کی شادی یہودی خاندان میں کروا دی گئی۔ یہی لابی بین الاقوامی پریس کے ذریعے دونوں ہاتھوں سے پیسہ خرچ کر کے موصوف کی کسی خاص حیثیت سے پروجیکشن کر رہے ہیں۔ یعنی وہ اسے وزیراعظم بنانے کے خواہش مند ہیں اور یوں یہ حکومت یہودی الاصل ہو گی۔ گویا موصوف کے ذمے دو ہی کام ہونگے۔ اول پاکستانی فوج کو کمزور کرنا اور دوسرا اپنے وارثین کی ایٹمی اثاثوں تک رسائی۔ بالکل ایسے ہی خیالات کا اظہار ڈاکٹر اسرار احمد بھی کرتے رہے۔ آج جو کچھ 9 مئی کے بعد ہوا ہے بالکل ویسے ہی ہوا جیسے حکیم محمد سعید لکھ کر گئے تھے۔ اس کتاب کے اشاعت کے چند ہی ماہ بعد انہیں شہید کر دیا گیا اور ساتھ ہی ساتھ ملک بھر سے ان کی تمام کتابیں غائب کروا دی گئیں۔ جیسا حکیم سعید نے تحریر فرمایا بالکل ویسے ہی پراجیکٹ، موصوف کی پلاننگ ہوئی۔ ہر طرح کی امریکن ایڈ دلا کر بالآخر انہیں وزارت عظمی کی کرسی تک پہنچا دیا گیا۔ موصوف کی وزارتِ عظمی کے ابتدائی دور میں لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو ڈی جی آئی ایس آئی لگا دیا گیا۔ ایک سابق وزیر کے بقول جنرل عاصم وزیراعظم کے پاس کچھ ایسی شکایات لے کر گئے کہ جن کے تانے بانے کسی خاص جگہ تک پہنچتے تھے۔ وزیراعظم بجائے اس کے کہ خوش ہوتے اور ایکشن لینے کا سوچتے وہ جنرل عاصم منیر کے خلاف ہو گئے۔ بقول اسی وفاقی وزیر کے کہ انہوں نے جنرل عاصم منیر سے بات کی تو جواب یہ ملا کہ وزیراعظم کو صحیح اطلاع دینا میرے منصب کا تقاضا ہے چنانچہ میں ان سے اور ملک سے بے وفاقی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ بعد میں ان کو اس کی قیمت بھی ادا کرنا پڑی۔ جب انسان کسی اہم پوزیشن سے ہٹ کر نسبتا کم اہم پوزیشن پر جاتا ہے تو وہی آزمائش کا وقت ہوتا ہے۔ کالی بھیڑوں اور خفیہ دشمنوں کا اسی وقت معلوم چلتا ہے۔ اس وقت کسی کے فرشتوں کو بھی یہ خبر نہ تھی کہ ایک دن یہی عاصم صاحب سپہ سالار بن جائیں گے۔ بہرحال 9 مئی کو جو ہوا وہ شاید میرے اور آپ کے لیے نئی بات ہو مگراندر خانے جنرل عاصم منیر اس سے آگاہ تھے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکریہ ہماری فوج اور ملک دونوں سلامت رہے۔ یقیناخدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے، یہ بھی کہاوت ہے قدرت کسی کو معاف نہیں کرتی۔ صدیوں کی انسانی دانش یہ بھی ہے کہ وقت کی چکی بہت باریک پیستی ہے اور یہ بھی محاورہ ہے دیر ضرور ہوتی ہے اندھیر نہیں۔موصوف کے ساتھ کیا ہو گا۔ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ بہت سارے لوگوں کا ضمیر جاگ اٹھا ہے سنا ہے ابھی بہت سارے اوروں کا ضمیر بھی جاگنے والا ہے ماضی میں جولوگ ان کی پروجیکشن میں مصروف رہے ان کے اثاثے بھی چیک کیے جائیں۔ صرف یہی نہیں ان کے خفیہ روابط کا بھی کھوج لگایا جائے۔ جنرل عاصم منیر پاکستانی تاریخ کے واحد چیف ہیں جو دواہم ترین انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہ رہ چکے ہیں ان کی دسترس ہر طرح کی معلومات تک ہے۔ پہلے ایک قضیے سے نبٹ لیں پھر باقی چیزوں کی طرف توجہ دیں۔ آنے والاوقت ان کا ہے۔ عین ممکن ہے کہ پاکستان کی بہتری کا آغاز انہی کے ہاتھوں سے شروع ہو۔ اللہ کریم انہیں ثابت قدیم اور مضبوط رکھے۔ آمین!