کالم

سپہ سالار۔۔۔!

جنر ل عاصم منیر چیف آف آرمی سٹاف اور جنرل ساحر شمشاد مرزاچیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کی تعیناتی خوش آئند ہے اور ان کو مبارک باد پیش کرتے ہیں،ان کی کامیابی وکامرانی ، افواج پاکستان اور وطن عزیز پاکستان کی حفاظت و سلامتی کےلئے دعاگو ہیں۔ وطن عزیز اور افواج پاکستان سے ہر شہری محبت کرتا ہے۔وطن سے محبت ایمان کی نشانی ہے اور افواج پاکستان دن رات دیس کی حفاظت کرتے ہیں۔ اس پاک مٹی کی خاطر افواج پاکستان کے افسران اور جوانوںنے لازوال قربانیاں دی ہیں۔ زلزلہ ہو یا سیلاب ،بھل صفائی ہو یا ڈیڈی دل کا خاتمہ ، خانہ شماری ہو یا مردم شماری ،انتخابات ہو ں یا ہنگامی صورت حال ، افواج پاکستان کے افسران وجوان ہر موقع پر اپنے لوگوں کی مدد کےلئے موجود ہوتے ہیں۔افواج پاکستان میں قوم کے اپنے ہی بچے ہیں، کسی کا بیٹا ، کسی کا بھتیجا، کسی کا بھانجا،کسی کا بھائی ، کسی کا ماموں ، کسی کا رشتہ دار ہے، افواج پاکستان چوبیس گھنٹے ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں۔پاک سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے جنگوں میں ہمارے افسران اور جوان شہید ہوچکے ہیں، اسی طرح دہشت گردی کی جنگ میں سب سے زیادہ ہمارے افواج پاکستان کے افسران اور جوانوں نے قربانیاں دی ہیں،ان کے بچے یتیم اور ان کی بیویاں بیواہ ہوچکی ہیں۔ ان افسران اور جوانوں کے والدین انکی راہیں دیکھتے ہیں، وہ تو نہیں آتے ہیں لیکن ان کی یادیں ضرور آجاتی ہیں، ان کے والدین صبر کرتے ہیں اور اپنے شہدا ءپرفخر کرتے ہیں۔قوم اپنے شہداءکو کیسے فراموش کرسکتی ہے؟قوم ہمیشہ افواج پاکستان کے شانہ بشانہ رہتی ہے۔بعض افراد نے اپنے سیاسی مقاصد کےلئے ملک میں گذشتہ چند ماہ سے ہیجانی کی کیفیت پیدا کی ہوئی تھی، وہ ایسے لوگ ہیں ،جن کے اپنے بچے مغربی ممالک میں ہیں، ان کے کسی بچے نے ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے ایک رات بسر نہیں کی اور نہ ہی ان کے کسی بچے نے شہادت کا مرتبہ حاصل کیا ہے۔ الحمد اللہ وزیراعظم پاکستان نے "جی ایچ کیو©©” سے آئی فہرست میں سے پہلے اور دوسرے نمبر کا انتخاب کیا جس پر پوری قوم وزیراعظم اور صدر مملکت کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ جنر ل عاصم منیراور جنرل ساحر شمشاد مرزا کی خدمات قابل تعریف اور قابل فخر ہیں۔افواج پاکستان کے جملہ افسران و جوان ہمارے لئے قابل قدر ہیں ۔ہمیں ان کی صلاحیتوں پر مکمل اعتماد ہے۔وہ پاکستان کا نام روشن اور قومی پرچم کو بلند رکھیں گے۔بعض لوگ تنقید کرتے ہیں ، جن پر ہمیں غصہ آتا ہے،تنقید میں برے القاب یقینا ناقابل برداشت ہیں ،تنقید میں اچھے الفاظ کاچناﺅ کیوں نہیں کرتے ہیں؟ البتہ تنقید برائے اصلاح ناگزیر ہے ،ایسی تنقید پر غور بھی کرنا چاہیے اور ممکن حد تک عمل بھی کرنا چاہیے ۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے افسران کو ریٹائرڈمنٹ کے بعد ملک سے باہر مستقل سکونت اختیار نہیں کرنی چاہیے۔حج و عمر یا سیر وسیاحت کے علاوہ ملک سے باہر نہیں جانا چاہیے۔ ان کے بچوں کی تعلیم وتربیت کا اہتمام بھی اپنے ہی ملک میں کرناچاہیے اور ان کی فیملیز کو وطن عزیز پاکستان ہی میں بزنس کرنا چاہیے۔بزنس میں پراپرٹی کے کاروبار سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ پراپرٹی کے کاروبار سے ہماری ذرخیز زرعی زمینیں ختم ہورہی ہیں۔ہمارے ملک میں لاکھوں ایکٹر زمینوںپر لہلہاتے کھیتوں میںفصلیں اور باغات تھے لیکن آج وہاں پرعمارتیں ہیں۔ اس سے آلودگی میں بھی اضافہ ہورہا ہے، پاکستان کے دل لاہور نے آلودگی میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ہاﺅسنگ سوسائٹیوں سے یقینا افسران و جوانوں اور ان کی فیملیز کے مفادات ہونگے لیکن ملکی مفادات کےلئے ایسے مفادات کو قربان کرنا چاہیے ۔ ملک میں پراپرٹی کے علاوہ ہزاروں اقسام کے بزنس کرسکتے ہیں اور سرمایہ کاری کرسکتے ہیں۔ سب کوملک کی زرعی زمینوں کو بچانے کےلئے کوشش کرنی چاہیے کیونکہ ہمارا ملک بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے۔نجی اور تمام ہاﺅسنگ سوسائٹیوں پر قدغن لگانا چاہیے اور حتیٰ کہ ذاتی زرعی ملکیت پر بھی مکان بنانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے یا ناگزیر صورت میںحکومت کی اجازت مشروط ہونی چاہیے۔یہ سب باتیں ناخوشگوار ضرور ہیں لیکن ملک کےلئے یہ ناگزیر ہیں۔وطن عزیز پاکستان کی مغربی سرحد کے قریب علاقہ جات اور بلوچستان میں ناخوشگوار واقعات پیش آتے رہتے ہیں،ان علاقہ جات اور بلوچستان کے لوگ بھی ہمارے اپنے ہیں اور یہ محب وطن ہیں۔ ان کے ساتھ بامعانی مذاکرات کرنے چاہییں ، ان کے خدشات اور نقصانات کو مد نظر رکھنا چاہیے، ان لوگوں کو اعتماد میں لینا چاہیے ۔وہاں پر دشمن کو کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دینا ہے اور دشمن کو اپنے لوگوں کی مدد سے شکست فاش سے دوچار کرنا چاہیے ،لیکن یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ دشمن کی وجہ سے اپنے لوگوں کا نقصان نہ ہو۔ خد ا نخواستہ اگر کسی فردکو مس انڈرسینڈنگ ہو تو اس کو تحویل میں لینا چاہیے لیکن ان کے خاندان کو اعتماد میں لینا چاہیے کہ آپ کا فلاں فرد ہماری نگرانی میںہے اور آپ پریشان نہ ہوں۔اس فرد پر تشدد کی بجائے اس کی بہترین انداز سے اصلاح کی جائے تاکہ وہ اچھاشہری بن سکے اوراس کو اپنے اداروں سے محبت پیدا ہوجائے۔تشدد سے نفرت اور محبت سے محبت پیدا ہوتی ہے۔ بنیادی طور پر کوئی انسان برا نہیں ہوتا ہے لیکن حالات اور واقعات سے انسان برا بن جاتا ہے۔اگر آپ انسان کو اچھا ماحول فراہم کریں تو یقیناوہ اچھا انسان بن جاتا ہے۔تبلیغی واصلاحی جماعتوں نے بڑے گناہگاروں کو نیک اور شریف انسان بنایا ہے۔علاوہ ازیں اس وقت ہمارے ملک کو دیگر چیلنجز کے ساتھ معاشی مسئلے کا سامنا ہے اور اس مسئلے نے گھمبیرصورت اختیار کرلی ہے۔جنرل قمر جاوید باجوہ کی کاوشوں سے دوست ممالک نے تعاون کیا اور دوست ممالک ہمیشہ تعاون کرتے ہیں لیکن ہم کب تک مانگتے رہیں گے اور وہ کب تک دیتے رہیں گے؟ اس وقت پاکستان اس مقام پر پہنچ چکا ہے ،جہاں صرف عوام کو نہیں بلکہ سب کو قربانی دینی ہوگی۔ملک سے باہرہمارے لوگوں کی جائز و ناجائز بڑی دولت پڑی ہے،سب کو اپنی دولت واپس اپنے ملک لانی چاہیے لیکن کسی کواس بارے نہیں پوچھنا چاہیے اور سب کےلئے عام معافی کا اعلان ہونا چاہیے ۔ صرف سیاستدان نہیں بلکہ حاضر سروس و ریٹائرڈ افسران اور ججز صاحبان سب کو اپنی دولت اپنے ملک لانی چاہیے۔اگر کوئی فرد اپنی دولت واپس نہ لائے تو پھر اس فرد کے ساتھ پاکستان کاناتا ختم کیا جائے۔ایسا فرد پاکستان کاشہری نہ ہوں تو وہ پاکستان کےلئے بہتر ہے۔ اس وقت ہر پاکستانی کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے ملک کےلئے قربانی دے۔ درج بالا بعض باتیں ناخوشگوار ہیں اور یقینا بعض افراد کو ناگوار گزری ہونگی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر محب وطن پاکستانی تقریباً یہی سوچتا ہے۔وقت کا تقاضا یہ ہے کہ سب کواپنے ملک کےلئے ایک ہوناچاہیے اور سب کو پاکستان کےلئے سوچنا چاہیے۔ یقین ہے کہ سپہ سالار جنرل عاصم منیر صاحب اپنے ادارے کی سربلندی اور وطن عزیز پاکستان کے لئے اہم اقدام اٹھائیں گے اور سب ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر ملک کےلئے ان کا ساتھ دیں گے۔ یہ ملک بھی ہمارا ہے اور یہ افواج بھی ہماری ہیں ۔ افواج پاکستان زندہ باد ، پاکستان پائیدہ باد۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے