اداریہ کالم

سپہ سالار کی تبدیلی اور درپیش چیلنجز

idaria

افواج پاکستان میں سپہ سالار کی تبدیلی ایک معمول کا حصہ ہے جس میں سبکدوش ہونے والا سربراہ نئے آنے والے سپہ سالار کو کمان سونپ کر رخصت ہوجاتے ہے ، پاک فوج کی اعلیٰ روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ شاندار اور تاریخی تقریب جی ایچ کیو کے آرمی سٹیڈیم میں منعقد ہوا کرتی ہے جس میں نہ صرف ملک بھر کے اہم شخصیات بلکہ سفارتی نمائندے اور فوجی افسران کی کثیر تعداد شریک ہوا کرتی ہے ، اس تقریب کا بنیادی مقصد اقوام عالم کو یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ پاک فوج اپنی شاندار روایات کی امین ہے اور اس پر قائم ،دائم چلی آرہی ہے ، گزشتہ روزپاک فوج میں کمان تبدیلی کی تقریب جی ایچ کیو میں ہوئی، جہاں ریٹائر ہونے والے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ اور نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے سب سے پہلے یادگار شہدا پر حاضری دی ہے۔جنرل قمر جاوید باجوہ نے جی ایچ کی آمد پر یادگار شہدا پر پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی۔ بعد ازاں جی ایچ کیو بینڈ نے ملی نغموں کی مدھر دھنیں بکھیرتے ہوئے پرفارمنس کا شاندار مظاہرہ کیا۔ اس موقع پر قومی پرچم کو سلامی بھی دی گئی۔ تقریب کے مہمان خصوصی سبکدوش ہونے والے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی نئے سپہ سالار جنرل سید عاصم منیر کے ہمراہ پنڈال میں آمد ہوئی تو گارڈز نے انہیں سلامی پیش کی۔بعد ازاں تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا، جس کے بعد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اعزازی گارڈ آف آنر کا معائنہ کیا۔ اس موقع پر انہیں الوداعی گارڈ آف آنر بھی پیش کیا گیا۔ سابق آرمی چیف نے شرکا سے خطاب بھی کیا۔ انہوں نے نئے آرمی چیف کو مبارکباد دی اور کہا کہ پاک فوج کے ساتھ عمر بھر کی رفاقت مکمل ہونے پر میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے اس عظیم فوج میں ملازمت کا موقع دیا اور ایک بامقصد زندگی عطا کی۔سبکدوش ہونے والے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاک فوج کی کمان جنرل عاصم منیر کے حوالے کی۔ اس سلسلے میں انہوں نے روایت کے مطابق مالاکا اسٹک جسے کمانڈ اسٹک بھی کہا جاتا ہے، باقاعدہ طور پر نئے آرمی چیف کو سونپ دی۔اس موقع پر راولپنڈی میں مخصوص علاقوں میں میٹرو بس اور موبائل فون سروس بھی بند کی گئی تھی جبکہ سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے ہیں۔جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاک فوج کے سولہویں سربراہ کے طور پر 6برس تک اپنی خدمات انجام دیں۔ اس سے قبل راولپنڈی کور کی کمانڈ سمیت وہ کئی اہم عہدوں پر بھی تعینات رہے۔پاکستان کے نئے چیف آف آرمی اسٹاف سیدعاصم منیر نے آفیسرز ٹریننگ اسکول سے تربیت مکمل کی۔ بعد ازاں انہوں نے پاک فوج کی فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا۔عاصم منیر 2014 میں کمانڈر فورس کمانڈ ناردرن ایریا تعینات ہوئے اور 2017 میں ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس کے عہدے پر فائز رہے۔ انہیں اکتوبر 2018 میں ڈی جی ملٹری آئی ایس آئی تعینات کیا گیا، جس کے بعد جون 2019 میں کور کمانڈر گوجرانوالہ کے عہدے پر تعینات ہوئے۔عاصم منیر اکتوبر 2021 سے آرمی چیف بننے تک جی ایچ کیو میں کوارٹر ماسٹر جنرل فرائض سرانجام دیتے رہے۔ جنرل سید عاصم منیر حافظ قرآن ہیں اور انہیں دوران تربیت اعزازی شمشیر سے بھی نوازا جاچکا ہے۔آنے والے سپہ سالار کو درپیش چیلنجز کا پوری طرح ادراک ہے کیونکہ وہ اس سے قبل دنیا کی بہترین ایجنسی آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کی سربراہی کا بھی اعزاز رکھتے ہیں ، انہیں اپنے پیشرو کی جانب سے دی جانے والے گائیڈلائنز پر بھی عمل کرنا ہے یعنی افواج پاکستان کو پیشہ ورانہ طور پر مضبوط بناتے ہوئے سیاست سے جدا رکھنا ہے، نئے سپہ سالار ایک طویل تجربہ رکھتے ہیں اور یقینا وہ اپنے ان تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے افواج پاکستان کو دنیا کی بہترین پیشہ ورانہ فوج کی طور پر بنانے کی بھرپور کوشش کریں گے ، اس کے ساتھ ساتھ اپنی قوم کی توقعات پر بھی پورا اترنے کی کوشش کرینگے کیونکہ قوم واحد اس مقدس ادارے کو اپنی توقعات کا محور سمجھتی ہیں اور اس کی جانب ہمیشہ امید بھری نگاہوں سے دیکھتی ہے ، ملک میں کوئی ارضی یا سماوی آفت ہو یا کوئی اور مرحلہ درپیش ہو تو سب سے پہلے جو ادارہ قوم کی مدد کیلئے آتا ہے اس کا نام افواج پاکستان ہے ، ہم ان سطورکے ذریعے افواج پاکستان اور اس کے نئے سپہ سالار کیلئے دعاگو ہیں اور ایک عظیم فوج کی قیادت سنبھالنے پر جنرل حافظ عاصم منیر کو ہدیہ تبریک پیش کرتے ہیں۔
ملک کے ڈیفالٹ کے خطرات سے نکلنے کی نوید
موجودہ حکومت نے جب اقتدار سنبھالا تو اس وقت معاشی حالات دگردوں تھے اور ملک ڈیفالٹ ہونے کی سرحدو ں کو چھورہا تھامگر موجودہ حکومت کی آٹھ ماہ کی مسلسل محنت اور اداروں کی معاونت و کوششوں کی بدولت الحمد اللہ ہم ڈیفالٹ کے خطرے سے نکل آئے ہیں اور انشاءاللہ آنے والے دن ملکی معیشت کی بہتری کی نوید سنائےں گے۔ وزیر اعظم نے بھی گزشتہ روز قوم کو وہ خوشخبری دی ہے کہ ہم ڈیفالٹ کے خطرے سے باہر نکل چکے ہیں ، وزیرِ اعظم سے معروف عالمی انویسٹمنٹ بینکنگ اینڈ کیپیٹل مارکیٹس فرم جیفریز کے وفد نے ملاقات کی۔وفد کا خیرمقدم کرتے ہوئے وزیراعظم نے فرم کو پاکستان میں اپنا دفتر کھولنے کی دعوت دی۔ وفد نے وزیراعظم کی قیادت میں پاکستان کی معاشی بحالی کو ایک اچھی علامت قرار دیا جس نے معاشی چیلنجز کا موثر انداز میں مقابلہ کیا اور ملک کو معاشی استحکام کی راہ پر گامزن کیا۔ملاقات کے دوران شہباز شریف نے کہا کہ حکومت ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے ہر ممکن اقدامات اٹھا رہی ہے، اتحادی حکومت کے مشکل فیصلوں کی بدولت ملک ڈیفالٹ کے خطرے سے نکل چکا ہے، پاکستان کی معاشی صورتحال کے بارے میں غلط معلومات پھیلائی جارہی ہے، معیشت سے متعلق بے بنیاد ہیجانی کیفیت پیدا کرنے کی مزموم کوشش کی جا رہی ہے۔اتحادی حکومت نے سیاسی قیمت کی پرواہ کیے بغیر ملک کو گزشتہ چار سال کی نااہلیوں کا خمیازہ بھگتنے سے بچا لیا، حکومت مہنگائی کو کم کرنے اور عام آدمی کے ریلیف کیلئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات اٹھا رہی ہے، حکومت بیرونی تجارتی خسارہ کم کرنے کیلئے کوشاں ہے، بیرونی سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے حکومت سرمایہ کاروں کو ہر ممکن سہولت فراہم کر رہی ہے۔
ٹریفک حادثہ ،پولیس ذمہ داروں کیخلاف مقدمے کا اندراج
وفاقی دارالحکومت میں سگنل فری ٹریفک کے نظام نے حادثات کی شرح میں یکدم اضافہ کردیا ہے کیونکہ سڑکوں پر رواں دواں ٹریفک کی سپیڈ میںاضافہ ہوچکا ہے مگر ترقیاتی ادارے اور ٹریفک پولیس نے پیدل سفر کرنے والے کیلئے ان شاہراو¿ں کو کراس کرنے کیلئے کوئی سہولت مہیا نہیں کی نہ تو اوور ہیڈ بریج بنائے گئے ہیں اور نہ ہی انڈر پاسز کا سلسلہ رکھا گیا ہے ، چنانچہ اس غفلت کے نتیجے میں گزشتہ روز ایک ماں بیٹی پولیس وین سے ٹکراکر جاں بحق ہوگئیں ، اس پر سرینگر ہائی وے پر پولیس موبائل وین کی ٹکر سے ماں بیٹی کی ہلاکت کے واقعہ میں پولیس نے ڈرائیور کو حراست میں لے کر مقدمہ درج کر لیا ہے۔ خاتون بیٹی کے ہمراہ سیکٹر جی نائن کے قریب سڑک عبور کر رہی تھی کہ پولیس موبائل وین کی زد میں آ کر دم توڑ گئی۔ جاں بحق ہونے والی خاتون کی شناخت ہو گئی ۔ ماں بیٹی افغان شہری اور اسلام آباد کے علاقے گولڑہ میں رہائش پذیر تھیں۔ حادثے میں ایک لڑکی بھی زخمی ہوئی ہے، جسے فوری طور پرطبی امداد کیلئے قریبی ہسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔ تھانہ آئی نائن پولیس نے واقعہ کا مقدمہ حادثاتی موت کی دفعات کے تحت درج کر لیاہے، جبکہ پولیس موبائل وین کے ڈرائیور کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ان شاہراو¿ں پر پیدل چلنے والے شہریوں کیلئے سہولت مہیا کی جائے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے