کالم

سیاسی وابستگیاں تبدیل کرنے کا سلسلہ!

اس وقت تحریک انصاف انتہائی نازک حالات سے گزر رہی ہے، شاید یہ ایک قدرتی عمل ہے کہ سیاسی پختگی کے لیے ہر جماعت یا شخصیت پر کڑا وقت ضرور آتا ہے، تبھی ان سیاسی جماعتوں میں میچورٹی اور پختگی آتی ہے، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی سیاست میں ایک لفظ چھانٹی بھی استعمال کیا جاتا ہے ، یعنی اس کڑے وقت میں سیاسی جماعت کے اندر سے چھانٹی بھی ہو جاتی ہے، یعنی جو اصل رہنما ہوتے ہیں وہ رہ جاتے ہیں اور جو بھگوڑے ہوتے ہیں یا کسی وجہ سے جماعت کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں وہ نکل جاتے ہیں۔ اگر میں غلط نہیں ہوں تو پاکستان کی سبھی سیاسی جماعتیں خواہ وہ پیپلزپارٹی ہو، ن لیگ ہو ، ایم کیو ایم ہو ، اے این پی ہو یا کوئی اور سیاسی جماعت سبھی نے یہ حالات دیکھے ہیں۔ اگر بات کی جائے تحریک انصاف کے موجودہ حالات کی کہ جب سینئر رہنمابھی پارٹی کو خیر آباد کہہ رہے ہیں تو ایسی صورتحال میں میرے خیال میں قیادت کو گھبرانے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی جذباتی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ بلکہ موقع و محل کے مطابق فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ ابھی تک جن سیاسی رہنماں نے تحریک انصاف کو خیر آباد کہا ہے ان میں شیری مزاری، عامر کیانی، فیاض الحسن چوہان، جمشید اقبال چیمہ اور ان کی بیگم مسرت چیمہ، جلیل شرقپوری، مخدوم سید افتخار حسن گیلانی، ملک آصف اعوان، چودھری سلیم بریار، عمر عماری سمیت دو درجن کے قریب رہنماں نے تحریک انصاف کو چھوڑ دیا ہے۔ جبکہ جو باقی رہ گئے ہیں ان میں تحریک انصاف کی 70فیصد قیادت اس وقت جیلوں میں ہے،اوردیگر رہنماں کی گرفتاریوں کے لیے بھی پولیس گھروں پر چھاپے ماررہی ہے۔حد تو یہ ہے کہ کسی کو ایک مقدمے میں رہائی ملتی ہے، تو اسے دوبارہ پکڑنے کے لیے پولیس تیار کھڑی ہوتی ہے۔ اب تو ہائیکورٹ کے جج بھی کہنا شروع ہو گئے ہیں، کہ جب تک آپ پریس کانفرنس نہیں کریں گے، آپ نے رہا نہیں ہونا ۔ الغرض انہوں نے اپنا خوف ہی اتنا بنایا ہوا ہے کہ ان کے خوف سے بلوچستان لبریشن آرمی کا سب سے مطلوب سرغنہ ایک مہینہ ان کی Custodyمیں رہتا ہے تو وہ ان کی مرضی کے بیان دینا شروع کر دیتا ہے، یا وہ راہ راست پر آجاتا ہے۔ خیر مشرف کے دور میں بھی گرفتاریاں ہو رہی تھیں، مگر فرق اس وقت میں اور آج میں یہ ہے کہ آج لیڈر کھڑا ہے، جبکہ اس وقت لیڈران ملک سے بھاگ گئے تھے۔ اور انہوں نے خفیہ معاہدہ کیا تھا کہ وہ 10سال تک سیاست نہیں کریں گے۔ جبکہ زرداری کئی بار ملک چھوڑ کر گیا اور واپس آگیا۔ لہٰذاتحریک انصاف کے مخلص کارکنوں اور رہنماﺅں اور خاص طور پر عمران خان کو اس وقت پریشان ہونے کی ضرور ت نہیں ۔ اور رہی بات تحریک انصاف پر پابندی لگانے کی تو فیصلہ کرنے والی قوتیں یہ کام بہت مرتبہ کر چکی ہیں۔ یہ کام پیپلزپارٹی کے ساتھ بھی ہو چکا ہے، عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ یہ کام ہو چکا ہے، ایم کیو ایم کے ساتھ ہو چکا ہے۔ لیکن ایسا کرنے سے ان پارٹیوں کو کیا فرق پڑا؟ یعنی لگتا ہے، فیصلہ کرنے والی قوتیں جمہوریت کی الف ب سے بھی واقف نہیں ہیں۔ ورنہ یہ پرانا وطیرہ استعمال نہ کرتیں!خیر جیسا کہ میں نے کہا کہ پارٹیوں میں اچھے برے وقت آتے رہتے ہیں اور یہ فطری عمل ہے کہ صدا وقت ایک جیسا نہیں رہتا، بلکہ یہ بدلتا رہتا ہے۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ جب 2017-18 میں جنرل الیکشن کی تیاری عروج پر تھی تو ہر دوسرے دن خبریں آرہی تھیں کہ فلاں (الیکٹیبل)نے تحریک انصاف کو جوائن کر لیا اور فلاں نے فلاں پارٹی چھوڑ دی ۔ لہٰذاجن پرندوں نے پروازیں کی تھیں، اب حالات کی نزاکت دیکھتے ہوئے وہ دوبارہ پروازیں پکڑ رہے ہیں اور درحقیقت یہ ہیں ہی الیکٹیبلز ۔اور یہ الیکٹیبلز پاکستان کی سیاست میں آج پہلی بار جلوہ نہیں دکھا رہے ، بلکہ 75سالوں سے وطن عزیز کے باسیوں کو یہی فلم دکھائی جا رہی ہے۔ بلکہ میرے خیال میں یہ عمل تو شاید پاکستان کو وراثت میں ملا ہے۔ نہیں یقین تو خود دیکھ لیں کہ 1946کے عام انتخابات میں یونینسٹ پارٹی 175کے ایوان میں صرف 18 نشستوں پر کامیابی حاصل کر پائی۔مگر پھر وہ سب کچھ ہو گیا جس کا خواب بھی نہیں دیکھا جا سکتا تھا۔ انتخابات کے بعد کامیاب ہونےوالے نصف سے زیادہ ارکان آل انڈیا مسلم لیگ سے آ ملے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب پنجاب کے ایک مشہور سیاستدان ڈاکٹر محمد عالم کو بار بار سیاسی وابستگیاں تبدیل کرنے کی وجہ سے پہلی بارلوٹا کا خطاب دیا گیا۔قیام پاکستان کے بعد سیاسی عمل معطل رہا مگر 1957میں جب صدر اسکندر مرزا نے اپنی سیاسی جماعت ریپبلکن پارٹی بنانے کا اعلان کیا تو مسلم لیگ میں شامل متعدد ارکان اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کر کے فوری طور پر اس نومولود پارٹی کا حصہ بن گئے۔ اس وقت اس گروپ کی سربراہی نواب افتخار حسین ممدوٹ نے کی جبکہ اس گروپ میں شامل دوسرے سیاستدانوں میں احمد نواز گردیزی، عبدالمجید دستی، چودھری فضل الہی، قاضی فضل اللہ، سید جمیل حسین رضوی، ارباب نور محمد، مخدوم زادہ حسن محمود اور کرنل عابد حسین کے نام سرفہرست تھے۔(….جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے