کالم

سی پیک مخالف پروپیگنڈہ اور زمینی حقائق

اس بات سے بھلا کون واقف نہےں کہ دہلی کا حکمران گروہ سی پیک اور پاک چین دوستی کےخلاف عرصہ دراز سے مکروہ پروپیگنڈہ مہم جاری رکھے ہوئے ہے ۔اپنی اسی دیرنیہ روش کے تحت ان دنوں بھی یہ سلسلہ زور و شور سے جاری ہے۔یاد رہے کہ 2013کے آخر میں سی پیک کے آغاز کا باقاعدہ اعلان ہوااس کے بعد 2015کے اوائل میں چینی صدر پاکستان کے دورے پر آئے پھر دیکھتے ہی دیکھتے سی پیک کے قیام کا خواب عملی شکل اختیار کر گیا ۔یہ ایک الگ بات ہے کہ پاکستان کے مخالفین ان دنوں بھی مختلف حیلے بہانوںسے سی پیک اور پاک چین دوستی کےخلاف زہر اگلنے میں مصروف ہےں ۔اسی تناظر میں مبصرین کا کہنا ہے کہ دنیا نے اگر پائیدار دوستی کا صحیح مفہوم سمجھنا ہو تو اسے چین اور پاکستان کی مثالی دوستی سے بہت کچھ سمجھنے کو مل سکتا ہے۔ پاکستان اور چین کی بے مثال دوستی کے 72 برس مکمل ہوگئے ہیں۔ اسی حوالے سے چین میں منعقدہ ایک خصوصی تقریب میں دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ نے باہمی تعلقات مزید مضبوط بنانے کا عزم ظاہر کیا ۔پاک وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کی دوستی عظیم اور تاریخی ہے اور دونوں ممالک ایک دوسرے کا لازمی جزو ہیں کیوں کہ چین نے پاکستان کے کلیدی سٹرٹیجک معاملات اور معاشی و ترقیاتی ترجیحات میں ہماری بہت مدد کی ہے۔ دونوں ملکوں کے تعلقات خطے میں امن و استحکام کے ضامن ہیں۔ پاک وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ قومی ترقی کیلئے سی پیک کے ناگزیر ہونے پر پاکستان میں مکمل سیاسی اتفاق ہے۔ پاکستان چین اقتصادی راہداری کا یہ مشترکہ منصوبہ اس خطے میں گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے۔ آج چین دنیا کی دوسری بڑی اقتصادی طاقت ہونے کے ساتھ ساتھ عالمی تجارت اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس میں اپنا لوہا منوا چکا ہے۔ انکے بقول چیئرمین ماﺅزے تنگ اور سابق وزیراعظم چواین لائی نے دونوں ممالک کے تعلقات کو مضبوط بنانے میں تاریخی کردار ادا کیا تھا۔ چینی وزیر خارجہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ گزشتہ 72 برسوں میںچین اور پاکستان نے مل کر تمام مشکلات پر قابو پاتے ہوئے منفرد آہنی دوستی قائم کی ہے۔ یہ دوستی دونوں ممالک کا سب سے قیمتی سٹرٹیجک اثاثہ بن چکی ہے اور اسکی جڑیں عوام کے دلوں میں گھر کرچکی ہیں۔ دونوں ممالک نے ہمیشہ اعلیٰ سطح کے قریبی تبادلوں کو برقرار رکھا ہے۔مبصرین نے اس صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے کہا ہے کہ یاد رہے کہ جب سات دہائی قبل خطے میں لانگ مارچ کی شکل میں ماﺅزے تنگ کی طویل اور کٹھن جدوجہد کے نتیجہ میں عوامی جمہوریہ چین کے نام سے نئی مملکت معرضِ وجود میں آئی تو اسکی اقوام متحدہ کی رکنیت کیلئے پاکستان نے سب سے پہلے اسکے حق میں ووٹ دیا۔ واضح ہو اسلامی دنیا میں پاکستان وہ پہلا ملک تھا جس نے 21مئی 1951کو چین کو تسلیم کیا۔ پھر عوامی جمہوریہ چین اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے درمیان 21مئی 1951ءکو باضابطہ سفارتی تعلقات قائم ہوئے جو روزبروز نہ صرف مستحکم ہوتے گئے بلکہ لازوال دوستی میں بھی بدل گئے اور آج پاک چین دوستی کو 72سال ہو گئے ہیں۔ مبصرین کے مطابق پاک چین دوستی اس خطے اور دنیا میں ضرب المثل بن چکی ہے اور دونوں ممالک باہمی اقتصادی تعاون ہی نہیںبلکہ ایک دوسرے کے دفاع کیلئے دفاعی تعاون کے بندھنوں میں بھی بندھ چکے ہیں اور ایک دوسرے کی سٹریٹجیکل ترجیحات بھی مشترکہ ہیں۔ اس حوالے سے آزمائش کی ہر گھڑی میں چین نے پاکستان کی معاونت کی اور اس کا ساتھ نبھایا جبکہ قدرتی آفات میں بھی پاکستان کے متاثرہ علاقوں کی بحالی کیلئے امدادی کاموں میں کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہمیں توانائی کے بحران کا سامنا کرنا پڑا تو چین نے فراخدلی کے ساتھ اپنے چھ ایٹمی ری ایکٹر ہمارے علاقوں میں نصب کردیئے۔اسی طرح زراعت کےو¿ شعبہ میں ترقی کیلئے بھی چین نے بڑھ چڑھ کر ہماری مدد کی۔ چونکہ اس خطے میں بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم سے چین اور پاکستان کو بیک وقت خطرات لاحق ہوئے اور بھارت نے اسی تناظر میں 60ءکی دہائی میں چین کے علاقے اروناچل پردیش میں چینی فوجوں کے ساتھ چھیڑچھاڑ کا سلسلہ شروع کیا جبکہ بھارت اس متصل جموں و کشمیر پر پہلے ہی اپنا فوجی تسلط جما چکا تھا اور پاکستان کی سلامتی کے درپے تھا جس کیلئے وہ اپنے زیرتسلط کشمیر ہی کے راستے پاکستان پر آبی دہشت گردی کا مرتکب ہو رہا تھا اس لئے چین اور پاکستان کے مابین دفاعی تعاون کا بھی اتحاد قائم ہو گیا۔ چین کی پیپلز لبریشن آرمی نے اروناچل پردیش میں بھارتی سورماﺅں کو ناکوں چنے چبوا کر انہیں پسپائی پر مجبور کر دیا اور پھر جب بھارت نے ستمبر 1965ءمیں پاکستان پر جنگ مسلط کی تو چین پاکستان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہو گیا۔ اس نے ہر علاقائی اور عالمی فورم پر پاکستان کے کشمیر سے متعلق موقف کا دوٹوک ساتھ دیا اور کشمیریوں کو چین آنے جانے کیلئے ویزہ فری سہولت فراہم کی۔ اسی طرح چین پاکستان کی نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی رکنیت کیلئے بھی اسکی بے لوث حمایت کرتا رہا اور پاکستان کی سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت کیلئے مضبوط آواز اٹھانے کے ساتھ ساتھ چین نے بھارت کی مستقل رکنیت کی ہمیشہ ڈٹ کر مخالفت کی۔ منموہن سنگھ کے دور میں جب اس وقت کے بھارتی فوج کے وائس چیف آف آرمی سٹاف ایس کے سنگھ نے بھارت کے ایٹمی جنگی سازوسامان کے نشے میں بیجنگ اور اسلام آباد کو 96 گھنٹے میں بیک وقت ٹوپل کرنے کی بڑ ماری تو پاکستان اور چین کے مابین دفاعی تعاون مزید مضبوط ہوگیا جو خطے کے امن و سلامتی کی بھی ضمانت بنا۔ اسی تناظر میں چین اور پاکستان کے مابین گوادر پورٹ سے منسلک اقتصادی راہداری کے مشترکہ منصوبے کا معاہدہ ہوا جو آج خدا کے فضل سے مکمل فعال ہونے کے قریب ہے اور پاکستان اور چین ہی نہیں اس پورے خطے کی اقتصادی ترقی کے دروازے کھول رہا ہے اور سی پیک سے منسلک ممالک کی عالمی منڈیوں تک رسائی ہوگی تو یوں عالمی اقتصادی ترقی کے امکانات بھی روشن ہو جائینگے۔پاکستان کی سول اور عسکری قیادتیں اور پوری قوم آج پاک چین دوستی کے 72 سال مکمل ہونے پر عوامی جمہوریہ چین کی قیادتوں اور عوام کے جذبات کے ساتھ ہم آہنگ ہے اور ایک دوسرے کے دفاع کیلئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جائیگا۔امید کی جانی چاہیے کہ آنے والے ہر ایک دن کے ساتھ پاک چین دوستی مزید پھلے پھولے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے